انسانی تمدن و تہذیب کیلئے پردہ کیوں ضروری ہے؟(تیسری قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

  فطرت نے کسی حد تک اس مسئلہ کے حل کا خود بھی اہتمام کیا ہے، اس نے عورت میں حسن، شیرینی، دل لبھانے کی طاقت اور محبت کیلئے ایثار و قربانی کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے تاکہ ان ہتھیاروں سے مرد کی خودغرضانہ انفرادیت پر فتح پائے اور اسے اپنا اسیر بنالے۔ اس نے بچے کے اندر بھی ایک عجیب قوتِ تسخیر بھر دی ہے تاکہ وہ اپنی تکلیف دہ، برباد کن، پاجیانہ خصوصیت کے باوجود ماں باپ کو اپنے دام محبت میں گرفتار رکھے، مگر صرف یہی چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ بجائے خود ان کا زور انسان کو اپنے اخلاقی، فطری، تمدنی، فرائض ادا کرنے کیلئے برسوں سے نقصان، اذیت اور قربانی برداشت کرنے پر مجبور کرسکے، آخر انسان کے ساتھ اس کا وہ ازلی دشمن شیطان بھی تو لگا ہوا ہے جو اسے فطرت کے راستے سے منحرف کرنے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے، جس کی زنبیلِ عیاری میں ہر زمانے او رہر نسل کے لوگوں کو بہکانے کیلئے طرح طرح کی دلیلوں اور ترغیبات کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ بھرا ہوا ہے۔

 یہ مذہب کا معجزہ ہے کہ وہ انسان کو… مرد اور عورت دونوں کو … نوع اور تمدن کیلئے قربانی پر آمادہ کرتا ہے اس خود غرض جانور کو آدمی بناکر ایثار کیلئے تیار کر دیتا ہے۔ وہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء ہی تھے جنھوں نے فطرت کے منشاء کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر عورت اور مرد کے درمیان تعلق اور تمدنی تعاون کی صحیح صورت، نکاح تجویز کی۔ انہی کی تعلیم و ہدایت سے دنیا کی ہر قوم اور روئے زمین کے ہر گوشے میں نکاح کا طریقہ جاری ہوا۔ انہی کے پھیلائے ہوئے اخلاقی اصولوں سے انسان کے اندر اتنی روحانی صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس خدمت کی تکلیفیں اورنقصانات برداشت کرے؛ ورنہ حق یہ ہے کہ ماں اور باپ سے زیادہ بچے کا دشمن اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ انہی کے قائم کئے ہوئے ضوابط معاشرت سے خاندانی نظام کی بنیاد پڑی، جس کی مضبوط گرفت لڑکیوں اور لڑکوں کو اس ذمہ دارانہ تعلق اور اس اشتراکِ عمل پر مجبور کرتی ہے؛ ورنہ شباب کے حیوانی تقاضوں کا زور اتنا سخت ہوتا ہے کہ محض اخلاقی ذمہ داری کا احساس کسی خارجی ڈسپلن کے بغیر ان کو آزاد شہوت رانی سے نہ روک سکتا تھا۔ شہوت کا جذبہ بجائے خود اجتماعیت کا دشمن Anti-Socialہے۔ یہ خود غرضی، انفرادیت اور انارکی کا میلان رکھنے والا جذبہ ہے۔ اس میں پائیداری نہیں ، اس میں احساس ذمہ داری نہیں ، یہ محض وقتی لطف اندوزی کیلئے تحریک کرتا ہے۔ اس دیو کو مسخر کرکے اس سے اجتماعی زندگی کی جو صبر و ثبات، محنت و قربانی، ذمہ داری اور پیہم جفا کشی چاہتی ہے… خدمت لینا کوئی آسان کام نہیں ۔ وہ نکاح کا قانون اور خاندان کا نظام ہی ہے جو اس دیو کو شیشے میں اتار کر اس سے شرارت اور بدنظمی کی ایجنسی چھین لیتا ہے اور اسے مرد و عورت کے اس لگاتار تعاون و اشتراک عمل کا ایجنٹ بنا دیتا ہے جو اجتماعی زندگی کی تعمیر کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی تمدنی زندگی ختم ہوجائے۔ انسان حیوان کی طرح رہنے لگیں اور بالآخر نوعِ انسانی صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجائے۔

 پس صنفی میلان کو انارکی اوربے اعتدالی سے روک کر اس کے فطری مطالبات کی تشفی و تسکین کیلئے جو راستہ خود فطرت چاہتی ہے کہ کھولا جائے وہ صرف یہی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کی صورت میں مستقل وابستگی ہو اور اس وابستگی سے خاندانی نظام کی بنا پڑے۔ تمدن کے وسیع کارخانے کو چلانے کیلئے جن پرزوں کی ضرورت ہے وہ خاندان کی اسی چھوٹی کارگاہ میں تیار کئے جاتے ہیں ۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے جوان ہوتے ہی کارگاہ کے منتظمین کو خود بخود یہ فکر لگ جاتی ہے کہ حتی الامکان ان کے ایسے جوڑ لگائیں جو ایک دوسرے کیلئے زیادہ مناسب ہوں تاکہ ان کے ملاپ سے زیادہ سے زیادہ بہتر نسل پیدا ہوسکے۔ پھر ان سے جو نسل نکلتی ہے ، اس کارگاہ کا ہر کارکن اپنے دل کے سچے جذبہ سے کوشش کرتا ہے کہ اس کو جتنا بہتر بنا سکتا ہے بنائے۔ زمین پر اپنی زندگی کا پہلا لمحہ شروع کرتے ہی بچہ کو خاندان کے دائرہ میں محبت، خبر گیری، حفاظت اور تربیت کا وہ ماحول ملتا ہے جو اس کے نشو و نما کیلئے آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ در حقیقت خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں بلکہ جو اپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبہ پر پیدا ہوا ہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔

 دنیا میں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے خود اپنے سے بہتر حالت میں اور اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں ۔ اس طرح وہ بلا ارادہ غیر شعوری طور پر آئندہ نسل کو موجودہ نسل سے بہتر بنانے اور انسانی ترقی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی اس کوشش میں خود غرضی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے، وہ بس اپنے بچے کی فلاح چاہتے ہیں اور اس کے ایک کامیاب اور عمدہ انسان بن کر اٹھنے ہی کو اپنی محنت کا کافی صلہ سمجھتے ہیں ۔ ایسے مخلص کارکن Labourers اور ایسے بے غرض خادم Workers تم کو خاندان کی اس کارگاہ کے باہر کہاں ملیں گے، جونوع انسانی کی بہتری کیلئے نہ صرف بلا معاوضہ محنت کریں بلکہ اپنا وقت، اپنی آسائش، اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کی کمائی، سب کچھ اس خدمت میں صرف کر دیں ؟ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی شے قربان کرنے کیلئے تیار ہوں ؟ جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہیں ؟ جو اپنی محنتوں کا صلہ بس اس کو سمجھیں کہ دوسروں کیلئے انھوں نے بہتر کارکن اور خادم فراہم کردیئے؟ کیا اس سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرا بھی ہے؟

 ہر سال نسلِ انسانی کو اپنے بقا کیلئے اور تمدنِ انسانی کو اپنے تسلسل و ارتقا کیلئے ایسے لاکھوں اورکروڑوں جوڑوں کی ضرورت ہے جو بخوشی و رضا اپنے آپ کو اس خدمت ذمہ داریوں کیلئے پیش کریں اور نکاح کرکے اس نوعیت کی مزید کارگاہوں کی بنا ڈالیں ۔ یہ عظیم الشان کارخانہ جو دنیا میں چل رہا ہے، یہ اسی طرح پل اور بڑھ سکتا ہے کہ اس قسم کے رضاکار پیہم خدمت کیلئے اٹھتے رہیں ۔ اور اس کارخانہ کیلئے کام کے آدمی فراہم کرتے رہیں ۔ اگر نئی بھرتی نہ ہو اور قدرتی اسباب سے پرانے کارکن بیکار ہوکر ہٹتے جائیں تو کام کے آدمی کم اور کم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اور ایک دن یہ ساز ہستی بالکل بے نوا ہوکر رہ جائے گا۔ ہر آدمی جو اس تمدن کی مشین کو چلا رہا ہے اس کا فرض صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے جیتے جی اس کو چلائے جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ اپنی جگہ لینے کیلئے اپنے ہی جیسے اشخاص مہیا کرنے کی کوشش کرے۔

 اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو نکاح کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ صنفی جذبات کی تسکین و تشفی کیلئے ایک ہی جائز صورت ہے بلکہ در اصل یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے، یہ فرد پر جماعت کا فطری حق ہے اور فرد کو اس بات کا اختیار ہر گز نہیں دیا جاسکتا کہ وہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود اپنے لئے محفوظ رکھے۔ جو لوگ بغیر کسی معقول وجہ کے نکاح سے انکار کرتے ہیں وہ جماعت کے نکھٹو افراد Parasites بلکہ غدار اور لٹیرے ہیں ۔ ہر فرد جو زمین پر پیدا ہوا ہے، اس نے اپنی زندگی کا پہلا سانس لینے کے بعد سے جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اس بے حد و حساب سرمایہ سے استفادہ کیا جو پچھلی نسلوں نے فراہم کیا تھا، ان کے قائم کئے ہوئے ادارات ہی کی بدولت اس کو زندہ رہنے، بڑھنے، پھلنے پھولنے اور آدمیت میں نشو و نما پانے کا موقع ملا۔ اس دوران میں وہ لیتا ہی رہا، اس نے دیا کچھ نہیں ۔ جماعت نے اس امید پر اس کی ناقص قوتوں کو تکمیل کی طرف لے جانے میں اپنا سرمایہ اور اپنی قوت صرف کی کہ جب وہ خود کچھ دینے کے قابل ہوگا، تو دے گا۔ اب اگر وہ بڑا ہوکر اپنے لئے شخصی آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں صرف اپنی خواہشات پوری کروں گا مگر ان ذمہ داریوں اور ان فرائض کا بوجھ نہ اٹھاؤں گا جو ان خواہشات کے ساتھ وابستہ ہیں تو در اصل وہ جماعت کے ساتھ غداری اور دھوکے بازی کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک ظلم اوربے انصافی ہے۔ جماعت میں اگر شعور موجود ہو تو وہ اس مجرم کو جنٹلمین یا معزز لیڈی یا مقدس بزرگ سمجھنے کے بجائے اس نظر سے دیکھے جس سے وہ چوروں ، ڈاکوؤں اور جعل سازوں کو دیکھتی ہے۔ ہم نے خواہ چاہا ہو ہو یا نہ چاہا ہو، بہر طور ہم اس تمام سرمایہ اور ذخیرہ کے وارث ہوئے ہیں ۔ جو ہم سے پہلے کی نسلوں نے چھوڑا ہے۔ اب ہم اس فیصلہ میں آزاد کیسے ہوسکتے ہیں کہ جس فطری قانون کے مطابق یہ ورثہ ہم تک پہنچا ہے اس کے منشاء کو پورا کریں یانہ کریں ؟ ایسی نسل تیار کریں یا نہ کریں جو نوعِ انسانی کے اس سرمایہ اور ذخیرہ کی وارث ہو؟ اس کو سنبھالنے کیلئے دوسرے آدمی اسی طرح تیار کریں یا نہ کریں جس طرح ہم خود تیار کئے گئے ہیں ؟

  صنفی آوارگی کا سدباب:

نکاح اور تاسیس خاندان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حصن نکاح سے باہر خواہشاتِ صنفی کی تسکین کا دروازہ سختی کے ساتھ بند کیا جائے؛ کیونکہ اس کے بغیر فطرت کا وہ منشاء پورا نہیں ہوسکتا جس کیلئے وہ نکاح اور تاسیس خاندان کا تقاضا کرتی ہے۔

   پرانی جاہلیت کی طرح اس نئی جاہلیت کے دور میں بھی اکثر لوگ زنا کو ایک فطری فعل سمجھتے ہیں اور نکاح ان کے نزدیک محض تمدن کی ایجاد کردہ مصنوعات یا زوائد میں سے ایک چیز ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ فطرت نے جس طرح ہر بکری کو ہر بکرے کیلئے اور ہر کتیا کو ہر کتے کیلئے پیدا کیا ہے، اسی طرح ہر عورت کو بھی ہر مرد کیلئے پیدا کیا ہے۔ اور فطری طریقہ یہی ہے کہ جب خواہش ہو، جب موقع بہم پہنچ جائے اور جب دونوں صنفوں کے کوئی سے دو فرد باہم راضی ہوں ، تو ان کے درمیان اسی طرح صنفی عمل واقع ہوجائے جس طرح جانوروں میں ہوجاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فطرت انسانی کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ ان لوگوں نے انسان کو محض ایک حیوان سمجھ لیا ہے، لہٰذا جب کبھی یہ فطرت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد حیوانی فطرت ہوتی ہے نہ کہ انسانی فطرت، جس منتشر صنفی تعلق کو یہ فطری کہتے ہیں وہ حیوانات کیلئے تو ضرور فطری ہے مگر انسان کیلئے ہر گز فطری نہیں ۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے خلاف ہے بلکہ اپنے آخری نتائج کے اعتبار سے اس حیوانی فطرت کے بھی خلاف ہوجاتا ہے جو انسان کے اندر موجود ہے۔ اسلئے کہ انسان کے اندر انسانیت اور حیوانیت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ در اصل ایک وجود کے اندر دونوں مل کر ایک ہی شخصیت بناتی ہیں اور دونوں کے مقتضیات باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوجاتے ہیں کہ جہاں ایک کے منشا سے منہ موڑاگیا، دوسری کامنشا بھی خود بخود فوت ہوکر رہ جاتا ہے۔

  زنا میں بظاہر آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کم از کم فطرتِ حیوانی کے اقتضا کو پورا کردیتی ہے کیونکہ تناسل اوربقائے نوع کا مقصد مجرد صنفی عمل سے پورا ہوجاتا ہے، عام اس سے کہ وہ نکاح اندر ہو یا باہر لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہم بیان کرچکے ہیں اس پر پھر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ یہ فعل جس طرح فطرتِ انسانی کے مقصد کونقصان پہنچاتا ہے اسی طرح فطرتِ حیوانی کے مقصد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ فطرتِ انسانی چاہتی ہے کہ صنفی تعلق میں استحکام اور استقلال ہو تاکہ بچہ کو ماں اور باپ مل کر پرورش کریں اور ایک کافی مدت تک مرد نہ صرف بچہ کا بلکہ بچہ کی ماں کا بھی کفیل رہے۔ اگر مرد کو یقین نہ ہو کہ بچہ اسی کا ہے تو وہ اس کی پرورش کیلئے قربانی اور تکلیفیں برداشت ہی نہ کرے گا اور نہ یہی گوارا کرے گا کہ وہ اس کے بعد اس کے ترکہ کا وارث ہو۔

اسی طرح اگر عورت کو یقین نہ ہو کہ جو مرد اسے بار آور کر رہا ہے وہ اس کی اور اس کے بچے کی پرورش میں ماں اور باپ تعاون نہ کریں تو اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی اخلاقی،ذہنی اور معاشی حیثیت کبھی اس معیار پر نہ پہنچ سکے گی جس سے وہ انسانی تمدن کیلئے کوئی مفید کارکن بن سکے۔ یہ سب فطرتِ انسانی کے مقتضیات ہیں اور جب ان مقتضیات سے منہ موڑ کر محض حیوانوں کی طرح مرد اور عورت عارضی تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ خود فطرتِ حیوانی کے اقتضاء (یعنی توالد و تناسل) سے بھی منہ موڑ جاتے ہیں کیونکہ اس وقت توالد و تناسل ان کے پیش نظر نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ان کے درمیان صنفی تعلق صرف خواہشاتِ نفس کی تسکین اور صرف لذت طلبی و لطف اندوزی کیلئے ہوتا ہے جو سرے سے منشاء فطرت کے خلاف ہے۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔