عرفان وحید
اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد
دادِ بیداد جب ملے بیداد
پڑتی ہے انقلاب کی بنیاد
بیٹھا کب ہے دوانہ توڑ کے پاؤں
اک سفر اور، مرے جنوں ایجاد!
اب کے سرخ آندھیوں کی بن آئی
بجھتے جاتے ہیں اب کے شعلہ نژاد
زخم ہیں کائنات کے خنداں
جسَدِ کُن سے گِریہ کُن ہے مواد
سیلِ وحشت کو اب سنبھال ذرا
کیوں اٹھائی تھی شہر کی بنیاد
دل کہ صدیوں سے اک خرابہ تھا
تم جو آئے تو ہوگیا آباد
عمر گزری یہ سوچتے کہ ہمیں
عمر نے کردیا کہاں برباد
منزلیں دھول ہوگئیں پیچھے
آگیا ہوں ورائے کوئے مراد
آپ چپ ہیں، بڑا کرم عرفان
آپ کی چپ بھی ہے ہنر کی داد
جناب عرفان وحید صاحب
ہے غزل آپ کی بہت دلکش
پیش کرتا ہوں میں مبارکباد
ہے غزل میں نیا لب لہجہ
وجد آور ہے طبع کی افتاد
احمد علی برقی اعظمی
بڑی نوازش محترم۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین۔