اسلام میں سچ اور جھوٹ کا تصور

ساجدہ ابواللیث فلاحی

سچائی ایک ایسی صفت ہے جو خیر کا ذخیرہ رکھتی ہے، اسی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور انجام خیر سے فیض یاب کرتی ہے۔اس کے برعکس جھوٹ ایک ایسا امر ہے جو انسان کو فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور بالآخر انجام بد سے دوچار کرتا ہے۔کتاب و سنت میں  اس کے لیے صدق اور کذب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ صداقت انبیاء کرام اوراہلِ ایمان کی بھی صفت رہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں  لوگوں  کواپنے رب کی طرف بلانے کے لیے کوہ صفا سے آواز لگاتے ہیں  کہ ’’اگر میں  تمھیں  خبر دوں  کہ اس وادی کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے۔ کیا تم لوگ میری تصدیق کرو گے ؟‘‘سب نے برجستہ جواب دیا:

ما عھدناعلیک کذبا قط۔

’’ہم نے آ پ ؐکو کبھی کسی معاملہ میں  جھوٹ بولنے والا نہیں  پایا۔‘‘

 صدق کے برعکس کذب ہے جوکفار و منافقین کی پہچان ہے،جس کا راستہ شر کی طرف جاتاہے اور مومن اس راہ سے ہمیشہ دور رہتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 لا یجتمع الایمان والکفر فی قلب امریِ،ولا یجتمع الصدق و الکذب جمیعا۔(مسند احمد:۵۸۹۳)

’’آدمی کے دل میں  ایمان اور کفر ایک ساتھ جمع نہیں  ہو سکتے اور نہ ہی جھوٹ اور سچ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں ۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سچائی یاامانت دار ی ایمان کا لازمی حصہ ہیں  اورجھوٹ اور خیانت کا تعلق کفر سے ہے۔یہ دونوں  متضاد چیزیں  ایک ہی دل میں  جمع نہیں  ہو سکتیں ۔ اگرکسی شخص کے ایمان میں  جھوٹ اور خیانت کی آمیزش ہو تو اسے اپنے ایمان کی صحت و استحکام کی فکر کرنی چاہیے۔

ثمرات صدق

 یہ بھی حقیقت ہے کہ صدق اور کذب دونوں  کے اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں ۔ ہمارے رہ نما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں  کے اثرات سے ان الفاظ میں  آگاہ فرمایا:

 ان الصدق یھدی الی البرو البر یھدی الی الجنۃ و ان الرجل لیصدق حتیٰ یکتب عنداللہ صدیقاََ، و ان الکذب یھدی الی الفجور و الفجور یھدی النار،وان الرجل لیکذب حتیٰ یکتب عنداللہ کذاباََ۔ (بخاری و مسلم )

’’ بیشک سچائی نیکی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے،انسان برابر سچ بولتا رہتا ہے،یہاں  تک کی اللہ تعالیٰ کے یہاں  صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ بلا شبہ جھوٹ فجور (برائیوں  )کی طرف رہ نمائی کرتا ہے اور برائیاں  جہنم کی طرف لے جاتی ہیں، انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں  تک کہ اللہ کے یہاں  جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘

اگر باعتبار اثرات و نتائج جائزہ لیا جائے تو سچائی ہی ہے جو انسانی معاشرہ کوخیر و فلا ح اورحقیقی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اور راہ راست پر گامزن کرتی ہے۔یہی حق کی خاطر لڑنے اڑنے اور قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ جھوٹ انسان کو خود غرضی مفاد پرستی اور حقائق سے پہلو تہی اختیار کرنے کی طرف لے جاتا ہے اور معاشرہ کو تباہی و بربادی سے دوچار کردیتا ہے۔

درجات صدق

یقینا صدق کی تعریف اور اس کے ثمرات قلبِ مومن میں  مواقع صدق کی تلاش کا جذبہ بیدار کرتے ہیں  اور اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی ہمہ جہتی زندگی میں  سچائی کو ہی اختیار کرے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سچائی صرف کلام ہی میں  نہیں  بلکہ یہ انسان کی کلی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔انسان کی زندگی کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں  ہے جس میں  انسان سچ کی تکذیب کر کے اپنے راست رو ہونے کو یقینی بناسکے اور دینی اعتبارسے فلاح و بہبود کی امید کر سکے۔ مومنانہ زندگی صرف کذب فی الکلام ترک کر دینے کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے شعبہ جات میں  صدق کو مضبوطی سے تھام لینے کا نام ہے۔اسلام نے بعض جگہوں  پر صداقت کی راہ اختیار کرنے کی خصوصی تعلیم دی ہے، ان میں  سے بعض درج ذیل ہیں  :

صدق اللسان

اسلام نے آغاز سے ہی زبان کی سچائی پر خصوصی زور دیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

اضمن لی ستامن انفسکم اضمن لکم الجنۃ :اصدقوا اذا حدثتم، و اوفوا اذا وعدتم، و ادوا اذا اوئمنتم واحفظوا فروجکم، و غضوا ابصارکم، و کفوا ایدیکم۔ (مسند احمد :۲۲۷۵۷)

’’تم مجھے چھ چیزوں  کی ضمانت دو، میں  تمھیں  جنت کی ضمانت دوں  گا۔بات کرو تو سچ بولو،وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت رکھی جائے تو ادائیگی کرو،شرم گاہوں  کی حفاظت کرو، اپنی نگاہوں  کو نیچی رکھواور اپنے ہاتھوں  کو روک کر رکھو۔‘‘

مومن صدق کو اپنے لیے لازم رکھتا ہے اور کذب سے بہر صورت گریز کرتا ہے، حتیٰ کہ توریہ سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بذات خود جھوٹ نہیں  بلکہ جھوٹ کے قائم مقام ہے،لیکن کبھی حاجت و مصلحت اس کی متقاضی ہوتی ہے،جس کے تحت اسے جائز رکھا گیا ہے۔تاہم کمال صدق یہ ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے۔

صدق النیۃ و الارادہ

اسلامی تعلیم میں  زبان کی سچائی کے ساتھ مطلوبہ شئی میں  نیت و ارادہ کی سچائی بھی شامل ہے۔جس کے لیے لفظ ـ’اخلاص ‘ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے،یعنی مومن و مومنہ کی جملہ حرکات و سکنات، افعال و اقوال کا محرک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اعمال صالحہ و احکام الہٰی کی انجام دہی، محض اللہ تبارک و تعالیٰ کی ا طاعت و فرماں  برداری اوراس سے انعام کی توقع کے جذ بہ سے ہو۔ اسی طر ح اس کی نافرمانی اور منہیات سے اجتناب اس کی ناراضگی اور سزا کے خوف سے کیا جائے۔

صدق العزم

نیت کی سچائی کے بعد عزم کی سچائی بھی مطلوب ہے، یعنی ایک مومن کے اندر اعمال شرعیہ کی انجام دہی کے لیے عزم و حزم کی ایسی قوت موجود ہو کہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت دینی معاملات میں  اس کے اندر کسی قسم کا تردد، ضعف اور باطل کی طرف جھکائو نہ پیدا ہونے دے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

طاعۃ و قول معروف فاذا عزم الامر فلو صدقوا اللہ لکان خیراََ لھم۔(محمد:۲۱)

’’اطاعت اور قول معروف کی روش ان کے لیے زیادہ بہتر تھی، پس جب معاملہ کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے،تو اگر وہ اللہ کے لیے راست باز ثابت ہوئے ہوتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ ‘‘

عزم کا یہ ضعف ایمانی کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے آج امت کی اکثریت اسی میں  مبتلا نظر آتی ہے۔روز مرہ کی زندگی میں  بہت سے اعمال شرعیہ کا ترک کیا جانا اور غیر اعمال شرعیہ کومحض لوگوں  کے خوف اور اپنی نیک نامی کی غرض سے انجام دینااسی کا حصہ ہیں ۔

صدق الوفاء بالعھد

اسلام نے انسان کو عہد پورا کرنے کا پابند بنایا ہے۔ قرآن نے اسے مومنانہ زندگی کے اوصاف میں  سے بتایا ہے:

 والموفون بعھدھم اذا عاھدوا۔(البقرۃ :۱۷۷)

’’ اور جب وہ کوئی عہد کریں  تو وہ اسے پورا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ‘‘

عہد سے مراد عموماََ وہ وعد ہ ہوتا ہے جو ایک فرد دوسرے فرد سے کرتا ہے اور جس کی تکمیل کا اللہ تعالیٰ نے حکم بھی دیا ہے :

 یا ایھاالذین اٰمنوا اوفوا بالعقود۔ (المائدۃ :۱ )

’’ اے ایمان والو! اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو۔‘‘

ایفاء عہد میں  وہ عہد بھی داخل ہے جس کا وعدہ بندہ نے اپنے رب سے کیا ہے اور جس کے تحت رب ذوالجلال کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اوپر سمع و طاعت کی ذمہ داری واجب ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔ (احزاب:۲۳ )

’’مومنین میں  ایسے افراد بھی ہیں  جنہوں  نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا۔ ‘‘

اس آیت کے شان نزول میں  ایک واقعہ حضرت انس ؓسے مروی ہے کہ ان کے چچا انس بن نضرؓجنگ بدر میں  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں  ہو سکے، جس کا انہیں  صدمہ تھا۔ اس پر انہوں  نے کہا ’’ یہ پہلا موقع تھا کہ میں  آپؐ کے ساتھ شریک نہ ہو سکا۔ بخدا اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جنگ کا موقع عنایت کیا تو وہ میرا عمل ضرور دیکھ لے گا ‘‘ اگلے سال جنگ احد کا موقع آیا تو شرکت کے لیے نکل پڑے۔ راستے میں  حضرت سعد بن معاذ ؓ نے پوچھا۔ کہاں  چلے ؟تووہ بے اختیار بول پڑے ’’واللہ !میں  جنت کی خوشبو کو احد کے سامنے محسوس کر رہا ہوں  ‘‘ پھر انہوں  نے دین کی محبت سے سرشار ہو کر دشمنان اسلام سے جنگ کی یہاں  تک کہ شہید کردیے گئے۔اس وقت ان کے جسم پر اسّی(۸۰)ـ سے زیادہ زخم تھے۔ ان کی بہن کہتی ہیں  کہ میں  نے اپنے بھائی کو ان کی انگلیوں  کے پوروں  سے پہچاناــــــ۔

یہی وہ عہد ہے جو اس بندۂ مومن نے اپنے رب سے کیا تھا اور جسے اس نے پورا کر دکھایا۔

صدق فی الاعمال

درج بالا اعمال میں  سچائی کے ظہور کے بعد آخری اور قوی تر مرحلہ اعمال کی سچائی کا ہے۔مومن کے اعمال اس کے اقوال کے مطابق ہونا چاہیے، بلکہ اس کے ظاہری اعمال اس کی باطنی صفات پر دلیل ہوں ۔ اگر قول و فعل میں  تضادپایا گیا تو یہ بھی اس کے کاذب ہونے کی دلیل ہے۔ایک مومن خیر کا خوگر اور خیر کا ہی داعی ہوتا ہے اور اللہ اس کے رسول کو یہی مطلوب بھی ہے۔ اگر وہ عمدہ کلام و گفتگو کے ذریعہ لوگوں  کی خیر خواہی کرے اور اس سے اس کا مقصد لوگوں  کو فی الواقع اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف موڑنا نہ ہو بلکہ اپنی صلاحیت اور علمی استعدادکا اظہار ہوتو وہ کاذب کہلائے گاکیونکہ وہ اپنے عمل میں  صادق نہیں  ہے۔

عمل کی سچائی یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر اور باطن دونوں  میں  یکساں  ہو یا اس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں  مقبول اور انشاء اللہ بلندی درجات کی ضامن ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔