انسانی تمدن و تہذیب کیلئے پردہ کیوں ضروری ہے؟(چوتھی قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

جاہلیت جدیدہ کے علمبردار اس پہلو کو خود بھی کمزور پاتے ہیں ۔ اس لئے وہ اس پر ایک اور استدلال کا اضافہ کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جماعت کے دو فرد آپس میں مل کر چند ساعتیں لطف اور تفریح میں گزاردیں تو اس میں آخر سوسائٹی کا کیا بگڑتا ہے کہ وہ اس میں مداخلت کرے؟ سوسائٹی اس صورت میں تو ضرور مداخلت کا حق رکھتی ہے جبکہ ایک فریق دوسرے پر جبر کرے یا دھوکے اور فریب سے کام لے یا کسی جماعتی قضیہ کا سبب بنے لیکن جہاں میں سے کوئی بات بھی نہ ہو اور صرف دو اشخاص کے درمیان لذت اندوزی ہی کا معاملہ ہو تو سوسائٹی کو ان کے بیچ میں حائل ہونے کا کیا حق ہے؟ لوگوں کے ایسے پرائیوٹ معاملات میں بھی اگر دخل دیا جائے تو شخصی آزادی محض ایک لفظ بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔

 شخصی آزادی کا یہ تصور اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ان جہالتوں میں سے ایک ہے جن کی تاریکی، علم اور تحقیق کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی کافور ہوجاتی ہے۔ تھوڑے سے غور و خوض کے بعد ہی آدمی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جس آزادی کا مطالبہ افراد کیلئے کیا جارہا ہے اس کیلئے کوئی گنجائش جماعتی زندگی میں نہیں ہے، جس کو ایسی آزادی مطلوب ہو اسے جنگل میں جاکر حیوانوں کی طرح رہنا چاہئے۔ انسانی اجتماع تو در اصل علائق و روابط کے ایسے جال کا نام ہے جس میں ہر فرد کی زندگی دوسرے بے شمار افرادکے ساتھ وابستہ ہے، ان پر اثر ڈالتی ہے اور ان سے اثر قبول کرتی ہے۔ اس تعلق باہمی میں انسان کے کسی فعل کو بھی خالص شخصی اوربالکل انفرادی نہیں کہا جاسکتا۔ کسی ایسے شخصی فعل کا تصور بھی نہیں جاسکتا جس کا اثر بحیثیت مجموعی پوری جماعت پر نہ پڑتا ہو۔ افعالِ جوارح تو درکنار، دل میں چھپا ہوا کوئی خیال بھی ایسا نہیں جو ہمارے وجود پر اور اس سے منعکس ہوکر دوسروں پر اثر انداز نہ ہوتا ہو۔ ہمارے قلب و جسم کی ایک ایک حرکت کے نتائج ہم سے منتقل ہوکر اتنی دور تک پہنچتے ہیں کہ ہمارا علم کسی طرح ان کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنی کسی قوت کو استعمال کرنا اس کی اپنی ذات کے سوا کسی پر اثر نہیں ڈالتا۔ لہٰذا کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور اسے اپنے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہونی چاہئے؟ اگر مجھے یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ ہاتھ میں لکڑی لے کر جہاں چاہوں گھماؤں ، اپنے پاؤں کو حرکت دے کر جہاں چاہوں گھس جاؤں ، اپنی گاڑی کو جس طرح چاہوں چلاؤں ، اپنے گھر میں جتنی غلاظت چاہوں جمع کرلوں ، اگر یہ اور ایسے ہی بے شمار شخصی معاملات اجتماعی ضوابط کے پابند ہونے ضروری ہیں تو آخر میری قوتِ شہوانی ہی تنہا اس شرف کی حق دار کیوں ہو کہ اسے کسی اجتماعی ضابطہ کا پابند نہ بنایا جائے اور مجھے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے کہ اسے جس طرح چاہوں صرف کروں ؟

 یہ کہنا کہ ایک مرد اور ایک عورت باہم مل کر ایک پوشیدہ مقام پر سب سے الگ جو لطف اٹھاتے ہیں اس کا کوئی اثر اجتماعی زندگی پر نہیں پڑتا، محض بچوں کی سی بات ہے۔ در اصل اس کا اثر صرف اس سوسائٹی پر ہی نہیں پڑتا جس سے وہ براہ راست متعلق ہیں بلکہ پوری انسانیت پر پڑتا ہے اور اس کے اثرات صرف حال کے لوگوں ہی تک محدود نہیں رہتے بلکہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں، جس اجتماعی و عمرانی رابطہ میں پوری انسانیت بندھی ہوئی ہے، اس سے کوئی فرد کسی حال میں کسی محفوظ مقام پر بھی الگ نہیں ہے۔ بند کمروں میں ، دیواروں کی حفاظت میں بھی وہ اسی طرح جماعت کی زندگی سے مربوط ہے جس طرح بازار یا محفل میں ہے، جس وقت وہ خلوت میں اپنی تولیدی طاقت کو ایک عارضی اور غیر نتیجہ لطف اندوزی پر ضائع کر رہا ہوتا ہے اس وقت در اصل وہ اجتماعی زندگی میں بدنظمی پھیلانے اور نوع کی حق تلفی کرنے اور جماعت کے بے شمار اخلاقی، مادی، تمدنی نقصانات پہنچانے میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ اپنی خود غرضی سے ان تمام اجتماعی ادارات پر ضرب لگاتا ہے جن سے اس نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فائدہ تو اٹھایا مگر ان کے قیام و بقا میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ جماعت نے میونسپلٹی سے لے کر اسٹیٹ تک، مدرسہ سے لے کر فوج تک، کارخانوں سے لے کر علمی تحقیقات کی مجلسوں تک، جتنے بھی ادارے قائم کر رکھے ہیں ، سب اسی اعتماد پر قائم کئے ہیں کہ ہر فرد جو ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے، ان کے قیام اور ان کی ترقی میں اپنا واجبی حصہ ادا کرے گا، لیکن جب اس بے ایمان نے اپنی قوتِ شہوانی کو اس طرح استعمال کیا کہ اس میں توالد و تناسل اور تربیت اطفال کے فرائض انجام دینے کی سرے سے نیت ہی نہ تھی تو اس نے ایک ہی ضرب میں اپنی حد تک اس پورے نظام کی جڑ کاٹ دی۔ اس نے اس اجتماعی معاہدہ کو توڑ ڈالا، جس میں وہ عین اپنے انسان ہونے کی حیثیت ہی سے شریک تھا۔ اس نے اپنے ذمہ کا بار خود اٹھانے کے بجائے دوسروں پر سارا بار ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ کوئی شریف آدمی نہیں ہے بلکہ ایک چور، خائن اور لٹیرا ہے۔ اس کے ساتھ رعایت کرنا پوری انسانیت پر ظلم کرنا ہے۔

  اجتماعی زندگی میں فرد کا مقام کیا ہے، اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ ایک ایک قوت جو ہمارے نفس اور جسم میں ودیعت کی گئی ہے، محض ہماری ذات کیلئے نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہمارے پاس امانت ہے اور ہم ان میں سے ہر ایک کیلئے پوری انسانیت کے حق میں جواب دہ ہیں ۔ اگر ہم خود اپنی جان کو یا اپنی قوتوں میں سے کسی کو ضائع کرتے ہیں یا اپنی غلط کاری سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ہمارے اس فعل کی اصلی حیثیت یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہمارا تھا اس کو ہم نے ضائع کیا یا نقصان پہنچا دیا، بلکہ در اصل اس کی حیثیت یہ ہے کہ تمام عالم انسانی کیلئے جو امانت ہمارے پاس تھی، اس میں ہمنے خیانت کی اور اپنی اس حرکت سے پوری نوع کو نقصان پہنچایا۔ ہمارا دنیا میں موجود ہونا خود اس بات پر شاہد ہے کہ دوسروں نے ذمہ داریوں اور تکلیفوں کا بوجھ اٹھاکر زندگی کا نور ہماری طرف منتقل کیا تب ہی ہم اس عالم میں آئے۔ پھر اسٹیٹ کی تنظیم نے ہماری جان کی حفاظت کی۔ حفظانِ صحت کے محکمے ہماری زندگی کے تحفظ میں لگے رہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں نے مل کر ہماری ضروریات کی چیزیں فراہم کیں ۔ تمام اجتماعی اداروں نے مل کر ہماری قوتوں کو سنوارنے اور تربیت دینے کی کوشش کی اور ہمیں وہ کچھ بنایا جو ہم ہیں ۔کیا ان سب کا یہ جائز بدلہ ہوگا، کیا یہ انصاف ہوگا کہ جس جان اور جن قوتوں کے وجود کے نشو و نما میں دوسروں کا اتنا حصہ ہے اس کو ہم ضائع کر دیں یا مفید بنانے کے بجائے مضر بنائیں ؟خود کشی اسی بنا پر حرام ہے۔ ہاتھ سے شہوت رانی کرنے والے کو اسی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے حکیم نے ملعون کہا ہے (نَاکِحُ الْیَدِ مَلْعُوْنٌ) عملِ قوم لوط کو اسی بنیاد پر بدترین جرم قرار دیا گیا ہے اور زنا بھی اسی وجہ سے انفرادی تفریح اور خوش وقتی نہیں ہے بلکہ پوری انسانی جماعت پر ظلم ہے۔

 غور کیجئے؛ فعل زنا کے ساتھ کتنے اجتماعی مظالم کا قریبی اور گہرا رشتہ ہے:

(1)  سب سے پہلے ایک زانی اپنے آپ کو امراضِ خبیثہ کے خطرے میں ڈالتا ہے اور اس طرح نہ صرف اپنی جسمانی قوتوں کی اجتماعی افادیت میں نقص پیدا کرتا ہے بلکہ جماعت اور نسل کوبھی نقصان پہنچاتا ہے۔ سوزاک کے متعلق ہر طبیب آپ کو بتا دے گا کہ مجرائے بول کا یہ قرحہ شاذ و نادر ہی کامل طور پر مندمل ہوتا ہے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کا قول ہے کہ’’ ایک دفعہ سوزاک ہمیشہ کیلئے سوزاک‘‘۔ اس سے جگر، مثانہ، انثیین وغیرہ اعضا بھی بسا اوقات آفت رسیدہ ہوجاتے ہیں ۔ گٹھیا اور بعض دوسرے امراض کا بھی یہ سبب بن جاتا ہے۔ اس سے مستقل بانجھ پن پیدا ہوجانے کا بھی امکان ہے۔ اور یہ دوسروں کی طرف متعدی بھی ہوتا ہے۔ رہا آتشک تو کس کو معلوم نہیں کہ اس سے پورا نظام جسمانی مسموم ہوجاتا ہے۔ سر سے پاؤں تک کوئی عضو بلکہ جسم کا کوئی جز ایسا نہیں جس میں اس کا زہر نفوذ نہ کرجاتا ہو۔ یہ نہ خود مریض کی جسمانی قوتوں کو ضائع کرتا ہے بلکہ ایک شخص سے نہ معلوم کتنے اشخاص تک مختلف ذرائع سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کی بدولت مریض کی اولاد اور اولاد کی اولاد تک بے قصور سزا بھگتتی ہے۔ بچوں کا اندھا، گونگا، بہرہ، فاتر العقل پیدا ہونا، لطف کی ان چند گھڑیوں کا ایک معمولی ثمرہ ہے، جنھیں ظالم باپ نے اپنی زندگی کی متاع عزیز سمجھا تھا۔

(2) امراضِ خبیثہ میں تو ہر زانی کا مبتلا ہوجانا یقینی نہیں ہے مگر ان اخلاقی کمزوریوں سے کسی کا بچنا ممکن نہیں جو اس فعل سے لازماً تعلق رکھتی ہیں ۔ بے حیائی، فریب کاری، جھوٹ، بدنیتی، خود غرضی، خواہشات کی غلامی، ضبط نفس کی کمی، خیالات کی آوارگی، طبیعت میں ذواقی اور ہرجائی پن اور نا وفاداری، یہ سب زنا کے وہ اخلاقی اثرات ہیں جو خود زانی کے نفس پر مترتب ہوتے ہیں ۔ جو شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پرورش کرتا ہے اس کی کمزوریوں کا اثر محض صنفی معاملات ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی طرف سے یہی ہدیہ جماعت کو پہنچتا ہے۔ اگر جماعت میں کثرت سے لوگوں کے اندر یہ اوصاف نشو و نما پاگئے ہوں تو ان کی بدولت آرٹ اور ادب، تفریحات اور کھیل، علوم اور فنون، صنعت اور حرفت، معاشرت اور معیشت، سیاست اور عدالت، فوجی خدمات اور انتظام ملکی، غرض ہر چیز کم و بیش ماؤف ہوکر رہے گی۔ خصوصاً جمہوری نظام میں تو افراد کی ایک ایک اخلاقی خصوصیت کا پوری قوم کی زندگی پر منعکس ہونا یقینی ہے، جس قوم کے بیشتر افراد کے مزاج میں کوئی قرار و ثبات نہ ہو اور جس قوم کے اجزاء ترکیبی وفا سے، ایثار سے اور خواہشات پر قابو رکھنے کی صفات سے عاری ہوں اس کی سیاست میں استحکام آخر آئے گا کہاں سے؟

 (3) زنا کو جائز رکھنے کے ساتھ یہ بھی لازم ہوجاتا ہے کہ سوسائٹی میں فاحشہ گری کا کاروبار جاری رہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایک جوان مرد کو ’’تفریح‘‘ کا حق حاصل ہے، وہ گویا ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک معتدبہ طبقہ ایسی عورتوں کا موجود رہنا چاہئے جو ہر حیثیت سے انتہائی پستی و ذلت کی حالت میں ہوں ، آخر یہ عورتیں آئیں گی کہاں سے؟ اسی سوسائٹی ہی میں سے تو پیدا ہوں گی۔ بہر حال کسی کی بیٹی اور بہن ہی تو ہوں گی، وہ لاکھوں عورتیں جو ایک ایک گھر کی ملکہ، ایک ایک خاندان کی بانی، کئی کئی بچوں کی مربی بن سکتی تھیں ، انہی کو لاکر تو بازار میں بٹھانا پڑے گا تاکہ میونسپلٹی کے پیشاب خانوں کی طرح وہ آوارہ مزاج مردوں کیلئے رفع حاجت کا محل بنیں ۔ ان عورت کی تمام شریفانہ خصوصیات چھین جائیں ، انھیں ماز فروشی کی تربیت دی جائے، انھیں اس غرض کیلئے تیار کیا جائے کہ اپنی محبت، اپنے دل، اپنے جسم، اپنے حسن اور اپنی اداؤں کو ہر ساعت ایک نئے خریدار کے ہاتھ بیچیں اور کوئی نتیجہ خیز و بار آور خدمت کرنے کے بجائے تمام عمر دوسروں کی نفس پرستی کیلئے کھلونا بنی رہیں۔

(4) زنا کے جواز سے نکاح کے تمدنی ضابطہ کو لا محالہ نقصان پہنچتا ہے بلکہ انجام کار نکاح ختم ہوکر صرف زنا ہی زنا رہ جاتی ہے۔ اول تو زنا کا میلان رکھنے والے مردوں اور عورتوں میں یہ صلاحیت ہی بہت کم باقی رہ جاتی ہے کہ صحیح ازدواجی زندگی بسر کرسکیں ؛ کیونکہ جو بدنیتی، بدنظری، دوّاقی اور آوارہ مزاجی اس طریق کار سے پیدا ہوتی ہے اور ایسے لوگوں میں جذبات کی جو بے ثباتی اور خواہشات نفس پر قابو نہ رکھنے کی جو کمزوری پرورش پاتی، وہ ان صفات کیلئے سم قاتل ہے جو ایک کامیاب ازدواجی تعلق کیلئے ضروری ہیں ۔ وہ اگر ازدواج کے رشتہ میں بندھیں گے بھی تو ان کے درمیان وہ حسن سلوک، وہ سہیوگ، وہ باہمی اعتماد اور مہر وفا کا رابطہ کبھی استوار نہ ہوگا، جس سے اچھی نسل پیدا ہوتی ہے اور ایک مسرت بھرا گھر وجود میں آتا ہے۔ پھر جہاں زنا کی آسانیاں ہوں وہاں عملاً یہ ناممکن ہے کہ نکاح کا تمدن پرور طریقہ قائم رہ سکے؛ کیونکہ جن لوگوں کو ذمہ داریاں قبول کئے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل ہوں انھیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ نکاح کرکے اپنے سر پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ لادیں ؟(جاری)

تبصرے بند ہیں۔