انسانی دودھ کی خریدوفروخت: شریعت کی روشنی میں

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

موجودہ زمانہ ہراعتبارسے ترقی کی راہ پرگامزن ہے؛ لیکن اس ترقی کے نتیجہ میںبعض امورایسے بھی وجودمیںآگئے ہیں، جوعقل وقیاس کے خلاف ہیں؛ تاہم وہ لوگ، جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی دین پرقائم نہیںہیں، یاحقیقی دین پرتوقائم ہیں؛ لیکن انہیں دینی معلومات نہیں ، وہ عقل وقیاس کے خلاف امورکوبھی انجام دے ڈالنے سے نہیں چوکتے۔

عقل وقیاس کے خلاف امورمیںسے ایک خواتین کے دودھ کوجمع کرکے رکھنااوراس کی خریدوفروخت بھی ہے، بہت سارے ممالک میںبلڈ بینک کی طرح دودھ بینک (Milk Bank) کے ادارے بھی قائم ہیں، جہاںخواتین اپنادودھ جمع کرتی ہیں، اس کے عوض انہیںروپے بھی ملتے ہیں، پھرجمع شدہ دودھ کوفروخت بھی کیاجاتاہے، اب سوال یہ ہے کہ کیاایساکرنا شرعی اعتبارسے درست ہے؟
اِس سوال کے جواب کے لئے خواتین کے دودھ کے استعمال کے دوطریقوںپرگفتگوضرورری معلوم ہوتی ہے:

۱- عمومی استعمال، جیسے: خواتین کے دودھ کی خریدوفروخت کی عام اجازت، اِس سلسلہ میںفقہائے کرام کی رائیںدرج ذیل ہیں:
حنفیہ کی رائے
خواتین کے دودھ کی خریدوفروخت کے سلسلہ میںاحناف کے یہاںآزاداورباندی ہونے کے اعتبارسے دورائیںپائی جاتی ہیں:

۱- خواتین کے دودھ کی خریدوفروخت مطلقاً جائز نہیں، خواہ آزادخاتون کادووھ ہویاباندی کا —– یہ فقہائے احناف کی عمومی رائے ہے، ابوبکربن علی الحدادالیمنی ؒ لکھتے ہیں:

لایجوز بیع لبن بنات آدم۔ (الجوہرۃ النیرۃ، باب السلم: ۱ / ۲۶۸، ط: مکتبہ حقانیہ، ملتان)

’’بناتِ آدم کے دودھ کی بیع جائز نہیں‘‘۔

۲- آزادعورت کے دودھ کی بیع جائز نہیں، باندی کے دودھ کی بیع جائز ہے —— یہ حضرت امام ابویوسف ؒ کی رائے ہے، علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:

وعن أبی یوسف: یجوز بیع لبن الأمۃ لجواز ایراد البیع علی نفسہا، فکذا علی جزئہا۔ (البحر الرائق، باب البیع الفاسد: ۶ / ۱۳۲، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۹۷ء)

’’امام ابویوسفؒ سے منقول ہے کہ باندی کے دودھ کی بیع جائز ہے؛ کیوںکہ اُس کے پورے جسم کی بیع جائز ہے توجسم کے جزء کی بیع توبہ درجۂ اولیٰ جائز ہوگی‘‘۔
دلیل
۱- عورت کادودھ مال متقوم نہیںہے؛ اِس لئے اُس کی بیع جائز نہیں: أن لبن الآدمیۃ لیس بمال متقوم، فلایجوز بیعہ۔ (المبسوط للسرخسی،باب إجارۃ الظئر: ۱۵ / ۱۲۵، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)

۲- عورت کا دودھ انسانی اجزاء میںسے ہے اورانسان اپنے تمام اجزاء کے ساتھ مکرم ومحترم ہے، لہٰذا بیع کے ذریعہ سے اُس کی تذلیل نہیں کی جائے گی: لأنہ جزء الآدمی، وہوبجمیع أجزائہ مکرم مصون عن الابتذال بالبیع۔ (البحرالرائق، باب البیع الفاسد: ۶ / ۱۳۲، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۹۷ء)

شوافع کی رائے

عورت کے دودھ کی بیع کے سلسلہ میں حضراتِ شوافع کے یہاںدورائیںملتی ہیں:

۱- جائز ہے؛ کیوںکہ یہ پاک اورقابل انتفاع شیٔ ہے، اسی رائے کو’’معتمد‘‘بھی قراردیاگیاہے، علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں:

ویصح بیع لبن الآدمیات؛ لأنہ طاہرمنتفع بہ۔ (مغنی المحتاج، کتاب البیوع:۲ / ۱۸، ط: دارالمعرفہ، بیروت، لبنان۱۹۹۷ء)

’’عورتوںکے دودھ کی بیع درست ہے؛ کیوںکہ یہ پاک اورقابل انتفاع ہے‘‘۔

۲- جائز نہیں ہے —— اِس کے قائلین میںعلامہ ماوردی، امام رویانی اورشاشی رحمہم اللہ ہیں، اِن حضرات نے امام ابوالقاسم انماطی ؒسے بھی اِسی رائے کونقل کیا ہے، امام نوویؒ لکھتے ہیں:

بیع لبن الآدمیات جائز عندنا، لاکراہۃ فیہ، ہذاہوالمذہب، وقطع بہ الأصحاب إلاالماوردی، والشاشی، والرویانی، فحکوا وجہاً شاذاعن أبی القاسم الأنماطی من أصحابنا: أنہ نجس، لایجوز بیعہ، وإنمایربی بہ الصغیر للحاجۃ۔(المجموع، باب مالایجوز بیعہ ومالایجوز: ۹ / ۳۰۴، ط: مکتبۃ الإرشاد، جدہ)

’’عورتوںکے دودھ کی بیع ہمارے نزدیک بلاکراہت جائز ہے، یہی مذہب ہے اوراصحاب نے اِسی کوقطعی قراردیاہے، سوائے ماوردی، شاشی اوررویانی کے، انھوںنے ہمارے اصحاب میں ابوالقاسم انماطی کاایک شاذقول نقل کیاہے کہ یہ نجس ہے اوراِس کی بیع جائز نہیں؛ بل کہ اِس کے ذریعہ سے ضرورۃً بچہ کی تربیت کی جاتی ہے‘‘۔
دلیل

۱- یہ ایک پاک چیز ہے(اورپاک چیزکی بیع درست ہوتی ہے؛ اِس لئے عورت کے دودھ کی بیع بھی درست ہوگی)۔

۲- یہ ایک قابل انتفاع شیٔ ہے(اورقابل انتفاع شیٔ کی بیع بھی درست ہوتی ہے؛ اِس لئے عورت کے دودھ کی بیع بھی درست ہوگی)۔
مالکیہ کی رائے

فقہائے مالکیہ کے نزدیک عورت کے دودھ کی بیع جائز ہے، علامہ ابن حطاب ؒ لکھتے ہیں:

یجوزبیع لبن الآدمیات؛ لأنہ طاہرمنتفع بہ۔ (مواہب الجلیل، کتاب البیوع، ۶ / ۶۶)

’’انسانی دودھ کی بیع جائز ہے؛ کیوںکہ وہ پاک اورقابل انتفاع ہے‘‘۔

حنابلہ کی رائے

عورت کے دودھ کی بیع کے سلسلہ میںفقہائے حنابلہ کے یہاںتین رائیںملتی ہیں:
۱- خریدوفروخت جائز ہے —- یہ بعض اصحابِ حنابلہ کی رائے ہے۔
۲- خریدوفروخت حرام ہے —- یہ اصحابِ حنابلہ کی ایک جماعت کی رائے ہے۔
۳- خریدوفروخت مکروہ ہے —- یہ خودحضرت امام احمدبن حنبل ؒ سے روایت ہے؛ تاہم قول ِاول ہی کوصحیح قول قراردیاگیاہے،

علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

فأمابیع لبن الآدمیات، فقال أحمد: اکرہہ‘، واختلف اصحابنافی جوازہ، فظاہرکلام الخرقی جوازہ… وذہب جماعۃ من اصحابنا إلیٰ تحریم بیعہ…والأول أصح؛ لأنہ لبن طاہرمنتفع بہ۔ (المغنی لابن قدامہ، کتاب البیوع، فصل: حکم بیع لبن الآدمیات: ۱ / ۹۲۴)

’’جہاںتک عورتوںکے دودھ کی بیع کاتعلق ہے توامام احمدؒ فرماتے ہیں: میںاسے ناپسندکرتاہوں، ہمارے اصحاب کے درمیان اِس کے جواز کے سلسلہ میںاختلاف رائے پایاجاتاہے؛ چنانچہ امام خرقی کے کلام سے جواز معلوم ہوتاہے …اورہمارے اصحاب کی ایک جماعت اُس کی بیع کوحرام سمجھتی ہے … تاہم قول اول ہی صحیح ہے؛ کیوںکہ یہ پاک اورقابل انتفاع دودھ ہے‘‘۔

۲- خصوصی استعمال: جیسے: دواکے طورپراستعمال —– یہ تمام فقہاء کے یہاںجائز ہے، احناف کے یہاںصراحتاًیہ جزئیہ مذکورہے:

لابأس بأن یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدواء۔ (الفتاوی الہندیۃ: ۵ / ۳۵۵)

’’دواکے طورپرعورت کے دودھ کاسعوط لینے اوراُس کوپینے میںکوئی حرج نہیں‘‘۔
دیگرفقہاء کے یہاںجب عام حالت میں جائز ہے توضرورۃً توبدرجۂ اولی جائز ہوگا۔واللہ اعلم!
مذکورہ گفتگوسے دودھ کی خریدوفروخت کے بارے میںمعلوم ہواکہ :

۱- شوافع (مفتیٰ بہ قول کے اعتبارسے )، مالکیہ اورحنابلہ(مسلک کے لحاظ سے)کے نزدیک جائزہے۔
۲- امام ابویوسف ؒ کے نزدیک باندی کے دودھ کی بیع جائز ہے۔
۳- احناف اورشوافع میںعلامہ ماوردی،امام ابوالقاسم انماطی، امام رویانی اورشاشی رحمہم اللہ کے نزدیک جائز نہیں ۔
۴- امام احمدؒ بن حنبل کی ایک روایت کے مطابق مکروہ ہے۔

قول راجح

شرعی، عقلی اورسماجی اعتبارسے غورکیاجائے تواُن حضرات کی رائے زیادہ قرین ِصواب معلوم ہوتی ہے، جوعورتوں کے دودھ کی خریدوفروخت کے سلسلہ میں عدم جواز کے قائل ہیں، شرعی اعتبارسے ایک تواِس لئے کہ اُس سے ’’حرمت ِرضاعت‘‘کامسئلہ پیداہوجاتاہے؛ کیوںکہ عورت کے دودھ کااستعمال بطورغذاکے جس طورپرہو، حرمت کوثابت کرتاہے؛ چنانچہ صنعانیؒ لکھتے ہیں:

واستدل بہ(أی: من حدیث’’لایحرم من الرضاع إلا مافتق الأمعاء‘‘)علی أن التغذی بلبن المرضعۃ محرم، سواء کان شرباً، أووجوراً، أوسعوطاً، أوحقنۃً حیث کان یسد جوع الصبی، وہوقول الجمہور۔ (سبل السلام، باب الرضاع: ۳ / ۵۸۲)

’’حدیث’’لایحرم من الرضاع إلا مافتق الأمعاء‘‘سے یہ استدلال کیاگیاہے کہ مرضعہ کے دودھ کواس طرح غذاکے طورپراستعمال کرنا، جس سے نومولودکی بھوک مٹ جائے،حرمت کوثابت کرتاہے، خواہ (یہ استعمال)پی کرہو، یاناک اورحلق کے ذریعہ سے ہو، یاپھرحقنہ کے ذریعہ سے‘‘۔

دوسرے اِس لئے کہ اِس طرح فسادِنکاح کاعموم ہوجائے گا؛ کیوںکہ کس عورت کا دودھ کس بچہ کے استعمال میںآرہاہے؟اِس کوقلم بندکرکے رکھناایک دشوارترین امرہے، بالخصوص اُن لوگوںکے لئے، جن کے نزدیک دین ودھرم کوئی معنی نہیںرکھتا،نیزاللہ تعالیٰ کے نزدیک’’فساد‘‘ایک ناپسندیدہ عمل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: واللہ لایحب الفساد۔ (البقرۃ: ۲۰۵)’’اللہ تعالیٰ فسادکوپسندنہیںکرتا‘‘، اِس لئے دودھ کی خریدوفروخت درست نہیں ہونی چاہئے۔

عقلی اعتبارسے اِس لئے کہ دودھ کااثربچہ کے اخلاق پرپڑتاہے؛ چنانچہ ایک مرسل حدیث میںہے:

نہی رسول اللہ ﷺأن تسترضع الحمقاء۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی،باب ماورد فی اللبن یشبہ علیہ، حدیث نمبر:۱۶۰۹۹)

رسول اللہ ﷺ نے بے وقوف خواتین سے دودھ پلوانے سے منع فرمایاہے۔
اِس حدیث کے ضمن میں علامہ صنعانی ؒ لکھتے ہیں:

ووجہ النہی أن للرضاع تأثیراًفی الطباع، فیختارمن لاحماقۃ فیہاونحوہا۔ (سبل السلام، باب الرضاع، حدیث نمبر: ۱۰۶۷: ۳ / ۵۹۴)

’’ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ دودھ کااثرطبیعتوںپرپڑتاہے، لہٰذا اس کوچناجائے، جس میںحمق نہ ہو‘‘۔

اوردودھ کی خریدوفروخت کی عام اجازت کی صورت میںیہ معلوم ہی نہ ہوسکے گا کہ دودھ کس خاتون کاہے؟ نیک خاتون یابدکردارخاتون کا، پھراِسی کے ساتھ ساتھ آج کل کے موذی امراض بھی دودھ کے ساتھ منتقل ہوںگے، جوایک بچہ کے لئے ہی نہیں؛ بل کہ اُس کی آئندہ نسل کے لئے بھی مضرہوںگے، اب ظاہرہے کہ ایک عقل مندصاحب ِشعورشخص اِن چیزوںکبھی پسندنہیںکرسکتا۔
سماجی اعتبارسے اِس لئے کہ اِس کے ذریعہ سے خواتین میں بے حیائی پیداہوجائے گی، اورظاہرہے کہ کوئی بھی عقل ِسلیم رکھنے ولاانسان اپنی عورتوںکوبے حیادیکھناپسندنہیں کرے گا، اِس لئے عدم جوازکوہی راجح ہوناچاہئے، واللہ اعلم!

البتہ اگرضرورت بچہ کی جان کی ہلاکت کی حدتک پہنچ گئی ہواوراجرت پردودھ پلانے والی بھی دستیاب نہ ہورہی ہوتوعورت کے دودھ کی خریدوفروخت کے لئے خصوصی گنجائش اِس شرط کے ساتھ رہنی چاہئے کہ مرضعہ کانام وپتہ محفوظ رہے، تاکہ فساد نکاح کامسئلہ پیدانہ ہوسکے،ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

تبصرے بند ہیں۔