غالب اکیڈمی میں طرحی مشاعرے کا انعقاد 

کچھ بھی سہی مگر یہ فراغت کبھی نہ تھی       

دل ہے نہ درد دل نہ غم چارہ گر ہے آج

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی کے انچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر ایک طرحی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرے کا افتتاح پروفیسر شمیم حنفی  شیش نرائن سنگھ اور گلزار دہلوی نے شمع روشن کرکے گیا۔پروفیسر شمیم حنفی نے افتتاحی تقریر میں کہا کہ طرحی مشاعروں کی روایت بہت پرانی ہے۔ غالب اکیڈمی نے اس روایت کو قائم رکھا ہے۔انھوں نے طرحی مشاعروں کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو پوچھنے کا اختیار نہیں کہ شاعر کیا کہہ رہا ہے۔ اس مشاعرے میں  غالب کے تین مصرعوں(1) آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے(2) ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے(3) گلشن میںبندوبست برنگ دگر ہے آج ہے۔ میں 28شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔مشاعرے کی صدارت بزرگ شاعر جناب گلزار دہلوی نے کی اور نظامت کے فرائض معین شاداب نے بخوبی ادا کئے۔منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

کچھ بھی سہی مگر یہ فراغت کبھی نہ تھی

دل ہے نہ درد دل نہ غم چارہ گر ہے آج

وقار مانوی

کرتا ہے صرف جسم کی ہر وقت پرورش

انسان اپنی روح سے کیوں بے خبر ہے آج

 جی آر جنول

کدھر اے ولولۂ دل لیے جا تا ہے مجھے

کون انجان جزیروں میں بلاتا ہے مجھے

نسیم عباسی

بے سایہ بے وقار سیاسی شجر ہے آج

حبِّ وطن کی شرح ہرنگِ دگر ہے آج

ابرار کرت پوری

خود قطرۂ خوں سے ابھرتے ہیں کئی رنگ

ہم سینے پہ یوں نقش ابھارا نہیں کرتے

احمد محفوظ

میں جتنا اجنبی ہوں ترے در کے واسطے

اتنا ہی بے نیاز ترا سنگ در ہے آج

جمیل مانوی

بزم کا ان کی یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے؟

رہ کے دلی میں بھی  طیبہ نظر آتا مجھے

تابش مہدی

بہتری کے لیے جس نے مری کچھ بھی نہ کیا

سبز باغ ایک نئے روز دکھاتا ہے مجھے

احمد علی برقی اعظمی

کس لیے چاند کا احسان اٹھایا جائے

یعنی رستہ تو یہ جگنو بھی دکھاتا ہے مجھے

معین شاداب

مجنوں! تجھے صحرا کی یہ شہرت ہو مبارک

ہم شہر میں رہ کر بھی تماشا نہیں کرتے

خالد مبشر

شاخ شجر پہ گل ہے نہ کوئی ثمر ہے آج

گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج

متین امروہوی

ہر گام پہ الفت کے جلاتے ہیں دیے ہم

نفرت کا محبت کا اندھیرا نہیں کرتے

اسد رضا

تازہ نہیں ہے پھر بھی یہ تازہ خبر ہے آج

مدت بعد ان سے ملاقات گر ہے آج

عفت زریں

ہم پردہ نشینوں کے طرف دار ہیں پھر بھی

آنکھوں میں حیا رکھتے ہیں پردا نہیں کرتے

ممتا کرن

ہے بہت دیدنی تعمیر مری باہر سے

کوئی اندر سے مگر توڑتا جاتا ہے مجھے

عرفان وحید

ویسے تو ان کے آنے کا امکان ہی نہیں

لیکن خیال جانب ِ دیوارو در ہے آج

محمد انس فیضی

کوئی آواز سکوںِ بخش سماعت میں نہیں

جو بلاتا ہے وہ مقتل سے بلاتا ہے مجھے

ظفر مراد آبادی

اب تذبذب ہے جو کرنے نہیں دیتا مجھے عشق

ایک خدشہ ہے جو کمزور بناتا ہے مجھے

شکیل جمالی

کرتے ہیں محبت جو خدا سے وہ یقینا

نفرت تو کسی سے بھی خدارا نہیں کرتے

سمیر دہلوی

یادوں کی دستکیں ہیں نہ رشتوں کا بانکپن

ہوگا کبھی مکان  مگر رہگزر ہے آج

شاہد انور

تم خفا ہونے کو حق اپنا سمجھتے ہو مگر

میں بھی کچھ کم تو نہیں روٹھنا آتا ہے مجھے

انا دہلوی

حسن تجلیات کا منظر دگر ہے آج

آنکھو سنبھل کے اٹھنا کوئی بان پر ہے آج

سرفراز احمد فراز

کار عمرانہ میں میکے سے نہیں لا پائی

اس لئے سیج پہ وہ روز جلاتا ہے مجھے

عمرانہ خانم

وہ غمگین ہے جو سینے سے لگاتا ہے مجھے

پھر وہ ہنستا ہے تو ہنس ہنس کے رلاتا ہے مجھے

سیف بابر

        آخر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا و شرکا اور سامعین کا شکریہ اداد کیا۔

تبصرے بند ہیں۔