وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

 مقصود عالم رفعتؔ

 کسی مقام پہ کب ہم ٹھہرنے والے تھے

ہر ایک حدِّ طلب سے گزرنے والے تھے

۔

کہاں گئے وہ جو حد سے گزرنے والے تھے

تری اداؤں پہ سو جاں سے مرنے والے تھے

۔

نظر میں قلب میں جاں میں اترنے والے تھے

وہ لوگ اور تھے جو پیار کرنے والے تھے

۔

قصور اپنا تھا ہم متحد نہ ہو پائے

وگرنہ ٹوٹ کے کب ہم بکھرنے والے تھے

۔

تمہیں سے سیکھی ہے طرزِ جفا بھی ہم نے صنم

وگرنہ وعدے سے کب ہم مکرنے والے تھے

۔

عنایتیں یہ مرے چارہ گر کی ہیں مجھ پر

’’وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے‘‘
۔

ہمیں سنبھال لیا، آپ کا بڑا احسان

وگرنہ ٹوٹ کے کب کے بکھرنے والے تھے

۔

سفینہ غرق ہوا ناخدا کی سازش سے

کہ عنقریب بھنور سے ابھرنے والے تھے

۔

نہ جانے کس کی نظر لگ گئی محبت کو

وگرنہ کب یہ دوانے بچھڑنے والے تھے

۔

قضا نے پل کی بھی مہلت نہ دی ہمیں ورنہ

نیا حیات میں اک رنگ بھرنے والے تھے

۔

وہ بات کرتے ہیں اونچی اڑان کی رفعتؔ

جو پنچھیوں کے پَروں کو کترنے والے تھے

تبصرے بند ہیں۔