زندگی کے اس موڑ پر

سیدہ تبسم منظور

کتابوں میں لکھا ہے ،سب سے سنا ہے کہ بیٹیاں پرائی ہوتیں ہیں اور انہیں ایک نہ ایک دن اپنے بابل کا گھر چھوڑ کر جانا ہی پڑتا ہے۔ اور یہ سچ بھی ہے۔ بیٹیاں اپنے ماں باپ کے گھر جتنا بھی رہیں یہ مسکراتی کھلکھلاتی پریاں اپنے بابل کے گھرسے نکل کر اپنے ساجن کا گھر بسا دیتی ہیں ۔ ایک بادشاہ بھی اپنی بیٹی کو اپنے پاس نہیں رکھ پاتا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لئے اللہ تعالی نے ساری کائنات بنائی جو ساری کائنات کے شہنشاہ ہیں انہوں نے بھی اپنی بیٹیوں کے نکاح کروائے۔ ۔۔۔تو ہم کیا چیز ہیں ۔ ۔۔۔

 جب ایک لڑکی بیاہ کر اپنے سسرال جاتی ہے تو وہاں پر سب کچھ انجان ہوتا ہے۔ پہلے تو شادیاں ایسے ہوتی تھیں کہ نہ لڑکا لڑکی کو جانتا تھا نہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھا ہوتا تھا۔ لڑکی کو پتہ نہیں ہوتا تھاکہ کس گھر جانا ہےاورجس گھر کو بسانا ہے وہاں کیسے لوگ ہیں ،کون کون لوگ ہیں ۔ بس والدین اور بڑے بوڑھوں نے جہاں رشتہ کر دیا وہاں بنا کچھ کہے اپنے والدین کا مان رکھنے کے لئے چپ چاپ چلی جاتی تھیں ۔شادی کے بعد ہی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔۔۔۔۔۔گھر والوں سے ملا قات اور بات چیت ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔پر آج کا دور اس سے بالکل برعکس ہے۔آج پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اورپسند کرتے ہیں ۔ گھنٹوں فون پر بھی باتیں ہوتی ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ شادی سے پہلے ہی سسرال والوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں پوری معلومات حاصل کی جاتی ہے کہ کس کا مزاج کیسا ہے۔۔۔ کس کو کیا پسند ہے۔ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اس کے بعد بھی جب ایک لڑکی شادی کرکے اپنے سسرال جاتی ہے تو اس کے لیے سب کچھ نیا ہوتا ہے۔ نیا ماحول۔۔۔۔۔ نئے لوگ۔۔۔۔ نئے ریتی رواج…. ساس، سسر، نند، دیور۔ ان سب نئے رشتوں کو اپنا کر اس ماحول میں ۔ ۔۔۔۔ ان ریتی رواجوں میں ڈھلنے کے لئے تو وقت لگتا ہی ہے اور آہستہ آہستہ وہ اس گھر کے ماحول میں ڈھل جاتی ہے اپنے سسرال، اپنے گھر کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر وہی گھر تو اس کا اصلی گھر ہوتا ہے نا!!!! جہاں اسے ہمیشہ مرتے دم تک رہنا ہے۔وقت ان رشتوں کو مضبوط بناتا رہتا ہے اور پھر ان رشتوں کی ڈوری کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اور رشتہ اس لڑکی کی کوکھ میں پنپنے لگتا ہے اور وہ ہے ماں کا رشتہ !!!!! جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے تو پھولے نہیں سماتی۔۔۔۔ اور اس ننھی سی جان کو اپنی کوکھ میں لیے سارے گھر کے کام، سارے فرائض بخوبی انجام دیتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دن بھی آ جاتا ہے جب وہ ماں بنتی ہے اور ایک مکمل عورت کہلاتی ہے۔

اب یہاں سے شروع ہوتا ہے صحیح معنوں میں اس عورت کی زندگی کا آغاز! صبح جلدی اٹھنا۔۔۔۔۔۔۔ گھر کے سارے کام کرنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔گھر والوں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔۔ آفس یا کام پر جانے والوں کو ٹفن بنا کر دینا۔۔۔۔۔۔ بچوں کی دیکھ بھال ،پرورش کرنا اور اسی طرح کے سارے گھریلو کام عورت کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ اس پر اگر وہ ملازمت پیشہ خاتون ہے تو گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ باہر کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ ہر عورت اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتی ہے چاہے ملازمت پیشہ ہو یا گھریلو۔۔۔۔ گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش، پڑھائی لکھائی ،ان کی تربیت سبھی کچھ اسی عورت کے ذمے ہوتا ہے۔ یہ جو وقفہ ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔ بچوں کی پیدائش سے لےکر ان کی جوانی میں قدم رکھنے تک کا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت عورت اپنی ذمہ داریوں میں ، بچوں کی پرورش میں اتنی مصروف ہوتی ہے کہ اسے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے تک کی فرصت نہیں ملتی کہ وہ کیسی لگ رہی ہے۔ اپنے سارے جذبات اور خواہشات کو مارکر اس زندگی میں اتنی مصروف ہوجاتی ہے کہ اسے اپنے گھر۔۔۔۔۔۔ اپنے بچوں ۔۔۔۔۔۔ اپنے شوہر۔۔۔۔۔۔کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ اسی چھوٹی سی دنیا میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہاں بچے جوان ہوتے جاتے ہیں اور اس عورت کی جوانی ڈھلتی جاتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے پر وہ اپنا تھوڑا بہت وقت باہر گزارتی ہیں ۔ چار لوگوں سے ملتی ہیں تو دل و دماغ ترو تازہ ہو جاتا ہے۔ گھریلو عورت تواسی چار دیواری میں گم ہو جاتی ہے۔

 بچے جوان ہو جاتے ہیں ۔ اپنی اپنی فیمیلی لائف میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ شوہر حضرات تو پہلے ہی سے باہر رہتے تھے۔ اب وہ بھی اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ اپنے دوستوں کو تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ اب اس عورت کی زندگی میں وہ موڑ آجاتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو بالکل اکیلا محسوس کرنے لگتی ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اب توسب کچھ ڈھل چکا ہے۔ پر کسی کو بھی پروا نہیں ہوتی کہ اس عورت پر کیا بیت رہی ہوگی جس نے ساری زندگی صرف بچے ،شوہر، گھر پریوار کےعلاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں ۔ افسوس وہ اکیلی تنہا آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر پاتی۔ کبھی کبھار تو کئی عورتیں ڈیپریشن کا شکار بھی ہوجاتی ہیں ۔ میری اس بات سے شاید سبھی لوگ متفق نہ ہوں پر میں ایسی کئی عورتوں سے ملی ہوں ۔ ان میں ملازمت پیشہ عورتیں ، گھریلو عورتیں یہاں تک کہ ڈاکٹرز بھی ہیں جو عمر کے اس موڑ پر اپنے آپ کو بالکل اکیلا محسوس کرتی ہیں ۔ کیوں ہوتا ہےآخر ایسا ؟ جو عورت اپنی ساری زندگی اپنے گھر ،پریوار، بچوں کو دے دیتی ہے وہ عمر کے اس موڑ پر خود کو تنہا کیوں محسوس کرتی ہے؟؟؟؟؟ ان عورتوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کی ہتھیلیاں خالی رہ گئی ہیں !!!!!! ان کے اپنے انہیں کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے؟؟؟؟؟ کیا ان کی ذات جذبات و احساسات سے خالی ہوتی ہے اور وہ صرف کاٹھ کی گڑیا ہوجاتی ہیں ؟؟؟ کیا ان میں اب کوئی خواہشات نہیں ہوتیں ؟؟؟  کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ موڑ ہر عورت کی زندگی میں آتا ہے۔۔….!!!!!! تنکہ تنکہ چن کر آشیانہ بنانے والی یہ عورت ، ساری زندگی مصروف رہنے والی یہ عورت اچانک ریٹائر ہو جاتی ہے یا ریٹائر کردی جاتی ہے۔ بالکل فارغ ہو جاتی ہیں ۔میں ایسی تمام عورتوں سے کہنا چاہوں گی کہ آپ یہ سوچیں کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے ریٹائر ہوگئی ہیں یا ریٹائر کردی گئی ہیں ۔۔۔۔زندگی سے تو نہیں نا!!!!! اپنا سارے  فرض بخوبی ادا کردئے ہیں  اور اب زندگی سے لطف اندوز ہونے کاوقت یہی تو ہے۔۔۔۔اب تک جو وقت ہم نے گھر پریوار کے لیے دیا ، وہ کام آگیا اور اب آگے کا وقت اپنی ذات کے لیے وقف کرنا ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی سے ہار مان کر بیٹھ جائیں گی تو بوڑھی ہوجائیں گی۔ بڑھاپا بڑھتے ہوئے ہندسوں سے نہیں آتا بلکہ سوچ سے آتا ہے۔ ہمیشہ اپنے دل کو جوان رکھیں ۔ جو آپ مصروفیت کی وجہ سے ساری زندگی نہیں کر پائیں ان کاموں کو انجام دینے کا وقت آگیاہے۔ کوئی بھی کام کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ صحیح سوچ کے ساتھ اپنے لیے صحیح راہ کا انتخاب کریں ۔ کسی بھی قسم کے کام میں ۔ ۔۔۔۔ دینی کاموں میں ۔ ۔۔۔ فلاحی کاموں میں ۔ ۔۔۔سماجی کاموں میں حصہ لیں ۔ ۔۔۔اپنی صلاحیتوں کو ابھاریں ۔۔۔۔ زندگی میں آنے والی اس تبدیلی کو مثبت سوچ سے اپنائیے۔سماج میں بہت کچھ ہے کرنے کے لیے۔۔۔۔ بیماری اور ڈپریشن میں جاکر اوراپنے آپ کو گھٹ گھٹ کر مارنے سے تو اچھا ہے جو زندگی بچی ہے اسے اپنی قوم کے لیے وقف کردیں ۔ جب تک سانس باقی ہے تب تک کچھ اچھا کرنے کی آس باقی رہنے دیں اور آج سے ہی اپنے آپ کو متحرک کرلیں ۔اپنے اندر موجود ایک متحرک عورت کو مرنے نہ دیں ۔ اپنی زندگی بھی خوشگوار بنالیں اور سماج کو بھی خوبصورت بنانے کے کام میں جٹ جائیں ۔خوشیاں بانٹیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ بھی کبھی ان خوشیوں سے محروم نہیں رہیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔