بائبل کی چند پیشین گوئیاں اور ان کی حقیقت 

محمد اعظم قاسمی

(ریسرچ اسکالر، اے۔ ایم۔یو۔علی گڑھ) 

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے عالم ا نسا نیت کی ہدایت کے لئے بہت سی آسمانی کتب و صحف انبیاء کرام پر نازل فرمائی۔یہ آسمانی کتابیں دل کی سر زمین پر باران رحمت کی طرح برسیں اور دل میں پڑے ہوئے اللہ کی معرفت، تقوی، اخلاق و علم و حکمت کے بیج کو نمو عطا کیا۔ مگر افسوس کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جاہل و نا اہل افراد کی دخالت کی بنا پر بہت سی آسمانی کتب تحریف کا شکار ہو گیءں اور ا ن میں بہت سی غلط فکریں داخل کردی گئیں۔

مستقبل کی پیشین گوئیاں ہوں یا ماضی کے حالات کی صحیح ترین خبریں یہ تمام باتیں صاحبِ خبر کی صداقت کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اہم ترین ہتھیار کا کام کرتی ہیں کیوں کہ اللہ کے علاوہ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی بھی مخلوق علم غیب سے واقف نہیں ہے۔ پیشین گوئی کا اطلاق انہیں خبروں پر کیا جاتا ہے کہ جنکے واقع ہونے کا وعدہ اللہ اپنی نازل کردہ کتابوں میں بزبان پیغمبرکراتا ہے اور وہ خبریں کتب میں سو فیصد محفوظ ہوں اور زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو بلکہ جس دور میں اسکے ناز.ل ہونے کا دعوہ کیا جائے وہ سینکڑوں سالوں کے بعد بھی اپنی اصلی حالت پر برقرار رہے۔ان تمام شرائط و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بائیبل میں بیان کردہ پیشین گوئیوں کو بیان کرنے کی کوشش اس تحریرمیں کیجائے گی۔

(۱) یہودیوں کی جلا وطنی۔

’’ یہ ساری زمین ویرانہ اور حیرانی کا باعث ہو جائے گی اور یہ قومیں ستر برس تک شاہ بابل کی غلامی کرے گی خداوند فرماتا ہے جب ستر برس پورے ہوں گے تو میں شاہ بابل اور اس کی قوم کو ان کی بد کرداری کے سبب سے سزا دونگا اور میں اسے ایسا اجا ڑونگا کہ ہمیشہ ویران رہے‘‘ (کتاب ارمیاہ، باب ۲۵ آیت ۱۱، ۱۲ )

،، خداوند فرماتا ہے کہ جب بابل میں ستر برس گزر چکیں گے تو میں تم کو یاد فرماؤنگا اور تم کو اس مکان میں واپس لانے سے اپنے نیک کام کو پورا کرونگا ‘‘ ( کتاب ارمیاہ باب ۲۹ آیت ۱۰ )

اس پیشین گوئی کی حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کی جلا وطنی مورخین کی تصریح کے مطابق ولادت مسیح سے ۵۹۹ سال پہلے کا واقعہ ہے اور صاحب میزان الحق کی تصریح کے مطابق یہ جلا وطنی مسیح کی پیدائش سے ۶۰۰ سال قبل کا واقعہ ہے اورارمیاہ ؑ کا انکے پاس کتاب بھیجنا انکے چلے جانے کے بعد کا واقعہ ہے اور بائبل کی رو سے یہودیوں کا بابل میں قیام ۷۰ سال ہونا چاہیئے جو قطعی غلط ہے کیوں کہ یہودیوں کو شاہ ایران خورس کے حکم سے ولادت مسیح سے ۵۳۶ سال قبل آزاد کیا گیا تھا اس حساب سے بابل میں ا ن کا مدت قیام ۶۳ سال ہوا نہ کہ ۷۰ سال۔

(۲) بنی اسرائیل کو محفوظ رکھنے کی کی پیشین گوئی۔

’’ اور میں اپنی قوم اسرائیل کے لئے ایک جگہ مقرر کرونگا اور وہاں انکو جما دونگا تاکہ وہ اپنی ہی جگہ بسیں اور پھر ہٹائے نہ جائیں اور شرارت کے فرزند انکو پھر دکھ نہ دے پائیں گے جیسے پہلے ہوتا تھا اور جیسا اس دن سے ہوتا آیا ہے جب سے میں نے حکم دیا تھا کہ میری قوم اسرائیل پر قاضی ہوں ‘‘ ( کتاب سموئیل باب ۷ آیت ۱۰، ۱۱ بزبان ناتن ؑ )

اسکی حقیقت یہ ہے کہ خدا نے وعدہ کیا تھا کہ بنی اسرائیل امن و امان کے ساتھ اس جگہ رہیں گے اور شریروں کے ہاتھوں ان کو
کوئی اذیت نہ پہونچیگی، یہ جگہ یروشلم تھی جہاں بنی اسرائیل آباد ہوئے مگر یہ وعدہ ان کے لئے پورا نہ ہوا کیوں کہ اس جگہ پر ان کو بے انتہاں ستایا گیا شاہ بابل نے تین مرتبہ ا ن کو شدید اذیت دی، قتل کیا، قید کیا ا ور جلا وطن بھی کیا اسی طرح دوسرے بادشاہوں نے بھی ان کو اذیت پہونچائی۔

(۳) داؤد ؑ کی نسل میں سلطنت باقی رکھنے کی پیشین گوئی

’’ اور جب تیرے پورے دن ہو جائیں گے اورتو اپنے باپ دادا کے ساتھ سو جائیگا تو میں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیرے سلب سے ہوگی کھڑا کرکے اس کی سلطنت کو قائم کرونگا وہی میرے نام کا ایک گھر بنائے گی اور میں اس کی سلطنت کا تخت ہمیشہ قائم کرونگا ‘‘۔( کتاب سموئیل، ب ۷، آیت ۱۲ )

گویا خدا کا یہ تھا کہ داؤد کے گھرانے سے بادشاہت اور سلطنت قیامت تک نہیں نکلے گی مگر یہ پیشین گوئی بھی پوری نہ ہوئی چوں کہ اولادِ  داؤد کی بادشاہت عرصۂ دراز ہوا ختم ہوچکی ہے۔

(۴) ہیکل کی بنیادوں پر دوسری تعمیر نہیں ہو سکتی 

’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا جو گرایا نہ جائیگا ‘‘ ( خود ہی گر جائیگا )( انجیل متیٰ، ب ۲۴، آیت ۲)
یہ پیشین گوئی بھی غلط ثابت ہوئی۔ نیوٹن نے کتب مقدسہ کی پیشین گوئیوں پر تفسیر لکھی انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ عمرؓ دوسرے عظیم خلیفہ تھے جنہوں نے تمام روئے زمین پر فساد پھیلایا ان کا دورِ حکومت ساڑھے دس سال ہے اس عرصے میں تمام ممالک عرب و شام و ایران اور مصر پر ان کا تسلط ہو گیا تھا چناچہ ۶۳۷ ء میں انہوں نے عیسائیوں سے صلح کرلی تھی جو طویل محاصرے سے تنگ آچکے تھے تو عمر نے پادری سے مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ کی درخواست کی پادری نے یعقوبؑ کے حجرے اور ہیکل سلیمانی کے مقام کی نشاندہی کی چناچہ اس مقام پر عمر نے مسجد تعمیر کی۔

نیوٹن کے بیان میں اگر چہ کچھ غلطیاں ہیں مگر اس نے یہ اعتراف کیاہے کہ ہیکل سلیمانی کی جگہ عمر نے سب سے پہلے مسجد تعمیر کرائی جس کی توسیع اموی خلیفہ عبد الملک نے کی جو آج تک موجود ہے۔

(۵) عیسیٰ ؑ کا نام مسیح یا عما نویل 

عیسٰی ؑ کے بارے میں بھی بائیبل کی پیشین گوئی سچ ثابت نہیں ہوئی، انجیل میں ہے ’’ کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام  عمانویل رکھے گی ‘‘ ( انجیل، ب ۱، آیت ۲۳ )

چناچہ مسیح ؑ کو نہ تو فرشتوں نے ہی یہ نام عطا کیا اور نہ کبھی ان کے شاگردوں نے اس نام سے انہیں یاد کیا بلکہ ان کا نام یسوع رکھا گیا۔

(۶) مسیح ؑ قبر سے کتنے دن بعد غائب ہوئے 

متیٰ کی انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح نے بعض فقیہوں اور فریسیوں ( یہودی مذہبی رہنما ) کے اس مطالبہ پر کہ ہم تجھ سے ایک نشانی ( معجزہ)

دیکھنا چاہتے ہیں جواب دیا ’’ اس زمانے کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ ( یونس ؑ ) نبی کے نشان کے علاوہ اور  نشان ان کو نہ دیا جائیگا کیو ں کہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہیگا‘’ (متیٰ، ب ۱۲، آیت ۳۸ تا ۴۱ )

اس پیشین گوئی سے یہ بات واضح ہوئی کہ مسیح قبر میں یوناہ نبی کے مانند تین رات دن قبر میں رہیں گے لیکن یوحنا کی انجیل کے مطابق یسوع کو جمعہ کی دن دوپہر میں سولی دی گئی۔ ( ب، ۱۹، آیت ۱۴، ۵۱ ) پھر شام کے وقت ان کی لاش کو لیا گیا اور دفن کیا گیا ( مرقس، ب ۱۵، آیت، ۴۲، ۴۷ ) گویا اناجیل کے بیان کے مطابق یسوع کو جمعہ کی رات کو زمین میں اتارا گیا اور چاروں اناجیل اس بات پر متفق ہیں کہ مسیح کی لاش اتوار کی صبح قبر سے غائب تھی، اس سے معلوم ہوا کہ یسوع جمعہ کی رات ہفتہ کا دن اور رات قبر میں رہے اور پیشین گوئی تین رات و دن کی تھی، تو یہ پیشین گوئی بھی غلط ثابت ہوئی۔

(۷) نزول عیسیٰ کے متعلق پیشین گوئی 

’’ کیوں کہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں فرشتوں کے ساتھ آئگا اس وقت ہر ایک کو اس کے کلاموں کے مطابق بدلہ دیا جائگا، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے موت کا مزہ نہ چکھیں گے ‘‘ ( متیٰ، ب ۱۶، آیت ۲۷ )

یہ پیشین گوئی بھی اپنی حقیقت پر نہ رہی کیوں کہ تمام کھڑے ہونے والوں میں سے ہر ایک نے موت کا مزہ چکھ لیا اور گلی سڑی ہڈیاں بن گئے مٹی ہو گئے اور ان کو موت کا مزہ چکھے ہوئے تقریبا انیس(۱۹) سو سال ہو گئے مگران میں سے کسی ایک نے بھی ابن آدم کو اس کی بادشاہت میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ بائبل میں نہ جانے کتنی ایسی پیشین گوئیاں ہیں کہ ان کی میعاد متعینہ گزر گئی لیکن وہ پوری ثابت نہ ہو سکیں۔

تبصرے بند ہیں۔