انسانی زندگی پرعقیدہء آخرت کے اثرات 

عقیدہ کے لغوی معنی گرہ لگانااورپختہ عزم کرنے کے ہیں اوراصطلاح میں اللہ تعالی کی ذات و صفات پر پختہ یقین کرنے کے ہیں۔ حضرت محمدنے جن چھ باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے ان میں پانچواں جز عقیدۂ آخرت ہے۔حضرت عمرؓسے مروی حدیث میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن تومن باللہ،وملائکتہ، و کتبہ، و رسلہ، و الیوم الآخر وتومن بالقدر خیرہ و شرہ۔(مسلم:11)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو،اس کے رسولوں کو ،اور آخرت کو حق جانو اور مانواوراس بات کو بھی مانو کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے،چاہے وہ خیر ہو یا شر۔‘‘
عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس بات کا پختہ یقین رکھے کہ ایک دن لازماًایسا آئے گاجس میں تمام انسانوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی ۔جیسا کہ آپؐ نے حضرت عائشہؓکے سوال کے جواب میں فرمایا:
من نوقش الحساب ھلک۔(مسلم:2878)
’’جس سے حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوا ۔‘‘
دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے ،بلکہ ایک وقت مقررہ پر اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔فرمایا گیا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْْنَا لَا تُرْجَعُون۔(المومنون: 115)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘
چناں چہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اس دنیا کے خاتمے کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرا عالم پیدا کرے گا اور ان کا محاسبہ کرے گا اور اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالی کے حساب و کتاب کے بعد جو نیک قرار پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو برے اعمال کے ساتھ حاضر ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے ۔اور یہی انسان کی کامیابی و ناکامی کا پیمانہ ہے ۔
آخرت کا مفہوم
آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے جسے حیاتِ آخرت بھی کہتے ہیں۔حیاتِ آخرت کے بارے میں عموماًتین طرح کے عقیدے پائے جاتے ہیں:
ٌٌٌدہریوں کے مطابق:
مرنے کے بعد انسان فنا ہو جائے گا اس کے بعد نہ ہی کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ ہی جزا و سزا ،قرآن مجید نے ان کے اس عقیدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُم بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ۔(الجاثیہ: 24)
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے،یہیں ہمارا جینا اور مرنا ہے اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔درحقیقت اس معاملے میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ ہَؤُلَاء لَیَقُولُونَ۔إِنْ ہِیَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَی وَمَا نَحْنُ بِمُنشَرِیْنَ۔(الدخان: 34۔35)
’’یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں کہ (آخری چیز)یہی ہماری پہلی بار (دنیا سے ) مر جانا ہے اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے ‘‘۔
اہلِ تناسخ کے نزدیک:
انسان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پانے کے لیے دنیا میں بار بار جنم لیتا رہے گا۔اچھے اعمال کے نتیجے میں عمدہ اوصاف اور اعلیٰ حیثیت کا مالک بن کر جنم لے گا اور اگر اعمال برے ہیں تو حیوانات و نباتات اور کیڑے مکوڑے کی شکل میں دنیا میں آئے گا ۔گویا ان کے نزدیک موت کے معنیٰ فنا نہیں، بلکہ تبدیلیِ جسم کے ہیں۔
افسوس کہ نوع انسانی کی کثیر تعداد آج اسی طرح کے باطل عقیدہ میں گرفتار ہے اور بے راہ روی اور ضلالت و گمراہی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت کی زندگی کا عدم یقین زندگی کو بے لگام کردیتا ہے اور آخرت کی باز پرس کا احساس آزادانہ زندگی بسر کرنے کی آزادی سلب کر لیتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن نے کہاہے:
بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ فِیْ الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِیْد۔(السبا: 8)
’’(حقیقت یہ ہے کہ )آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں‘‘۔
انبیاء کے نزدیک :
جس کے ماننے والے اہلِ ایمان ہیں۔یہی وہ عقیدہ ہے جس کی درستگی ایمان کی تکمیل کرتی ہے۔یہ عقیدہ اپنے ماننے والوں پر حشر و نشر اور جزا و سزا کے یقین و تصدیق کو لازم کرتا ہے، جس کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے:
یَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَیْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُواْ للّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۔(ابراہیم: 48)
’’ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد و قھار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘
میدان حشر میں پیشی:
اس وقت تمام لوگوں کی پیشی اللہ رب العزت کے سامنے ہو گی اور حال یہ ہو گا کہ اگر کوئی انسان چاہے گا کہ وہ اللہ کے سامنے حاضر نہ ہو اور زمین و آسمان کے کسی گوشے سے کہیں نکل بھاگے تو ایسا کوئی راستہ نہیں پائے گا اور اسے چاہے نہ چاہے اللہ تعالیٰ کے سامنے لا کھڑاکیا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ما منکم من أحدالا سیکلمہ اللہ یوم القیامۃ لیس بین اللہ و بینہ ترجمان ۔(بخاری:6539 )
’’تم میں ہر فرد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس طرح کلام فرمائے گاکہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔‘‘
یہ لمحہ ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے کہ دنیا میں تو انسان اپنے حقوق کی وصولیابی کے لیے یا پھر دوسروں کے حقوق پر نا حق دست درازی کے لیے اپنے حمایتیوں کا سہارا لیتا ہے ،ا پنی پارٹی کے افراد اور ان کی قوت و استحکام پر نظر رکھتا ہے ، ضرورت پڑنے پر اپنے سفارشیوں کو لا کھڑا کرتا ہے اور کبھی اپنے مضبوط جتھے کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن آخرت میں یہ سب کہاں؟بندہ ناچیز بے بس و مجبور تن تنہا حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا۔اسی لیے قرآن کریم نے انسانیت کو آ خرت کے اس مرحلے سے آگاہ کر دیا ہے اورفرمایا:
وَلَقَدْ جِءْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ۔(الانعام:94 )
’’تم یقیناہمارے پاس تنہا ہی آؤ گے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘
مطلب یہ کہ عقیدۂ آ خرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف میں دنیاکی یہ ساری چیزیں کام آنے والی نہیں ہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہر انسان کو بالکل یک و تنہا حاضر ہو کر حساب و کتاب چکانا ہوگا۔ یہ رشتہ داریاں اور آل و اولاد جن کی محبت انسان کو اکثر یاد خدا سے بھی غافل کر دیتی ہے اور کبھی نعوذ باللہ راہ حق سے موڑ کر باطل کی راہ پر ڈال دیتی ہیں، آخرت میں کچھ کام نہیں آئیں گی ۔اسی کو قرآن کہتا ہے:
لَن تَنفَعَکُمْ أَرْحَامُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔(الممتحنہ:3 )
’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری اولاد۔‘‘
ًبلکہ اس وقت ہر انسان کو صرف اپنا خیال ہوگا۔چناں چہ اس دن مجرم چاہے گاکہ اپنی اولاد،اپنی بیوی،اپنے بھائی،اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیہ میں دے کر عذاب سے چھو ٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے۔‘‘ (المعارج:11؍14)
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں عزیز ترین رشتہ دار حتیٰ کہ آل و اولاد جن کے لیے والدین ہر طرح کی قربانی دیتے ہیں، جن کی آسائشوں و لذتوں کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے بھی غافل ہو جاتے ہیں وہ بھی آگے بڑھ کر یہ کہنے والے نہیں ہوں گے کہ انہوں نے فلاں فلاں گناہ کے کام ہمارے لیے کیے تھے اس لیے اس کی سزا ہمیں ہی دیدی جائے ، بلکہ وہ تو یہی چاہیں گے کہ اپنے گناہوں کی سزا کسی پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں اور خود کو نجات دلا لیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا ہو گا، فرمایاگیا :
وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی۔وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی۔ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاء الْأَوْفَی ۔(النجم:39۔41)
’’ اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی،اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی،پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘
یہ بدلہ ظاہر ہے انسان کے اعما ل کی نوعیت کے مطابق کما حقہ دیا جائے گا،نہ ہی کسی ہر بغیر اعمال صالحہ کے نوازشیں ہوں گی اور نہ ہی کسی پر ذرہ برابر ظلم ہو گا ۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں انسان کو پہلے ہی متنبہ کر دیا ہے :
وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُواْ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُون۔(الانعام:132)
’’ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجے ہوں گے جیسا انہوں نے کیا ہو گا اور تمہارا رب جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے‘‘۔
آیت اپنے ما قبل سے واضح کر رہی ہے کہ اس کے مخاطب جن و انس کے گروہ ہیں،جن کے پاس انبیاء اور رسولوں کی آ مد برابر ہوتی رہی ۔انبیاء انہیں اپنی بعثت کے مقصد سے آگاہ بھی کرتے رہے ،اس کے باوجود اگر ان کے اندر عقائد و اعمال کی خرابیاں و بگاڑ پیدا ہوا تو وہ اپنے جرائم کے اعتبار سے سزاؤں کے سزاوار ہوں گے اور ان کی بد اعمالیوں کے مطابق ان کی درجہ بندی کرکے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا۔اس کے بر عکس جوعقائد و اعمال کی درستگی کے ساتھ حشر کے میدان میں قدم رکھے گا اورنیکیوں و بھلائیوں کا ذخیرہ اس کے ساتھ ہو گا، وہ اسی کے مطابق اجر و ثواب سے اپنا دامن بھر لے گا اور بحمداللہ اس کی عظیم تردائمی نعمتوں سے مالامال ہو گا ۔
انسان کو احساس ہونا چاہیے کہ درجہ بندی کرنے والی اور فیصلہ کرنے والی وہ ذات ہو گی جس کے پاس نہ صرف یہ کہ ہر انسان کا ریکاڈ موجود ہے بلکہ وہ بذاتِ خود بھی ہر فرد کے افعال پر بہت باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے ۔اس لیے اپنے عدل کے تقاضے کے مطا بق ا سی کے بقدرسزا سے دو چار کرے گا ۔
عقیدہ آخرت کاما حصل
خلاصہ یہ کہ عقیدہ آخرت کے اثرات انسان کی زندگی پر لا محالہ پڑتے ہیں۔جواب دہی کا احساس اسے نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے ،اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے،اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے اور اس کا ایمانی شعور اسے ہر سمت سے کاٹ کر اس شاہراہ پر ڈال دیتا ہے جو اسے رب ذو الجلال کی خوشنودی کی طرف لے جانے والی اور حزب اللہ میں شامل کرنے والی ہے۔لیکن اگر عقیدہ آخرت کمزور ہوا، (بعث بعد الموت)یعنی مرنے کے بعد اٹھائے جانے اورجزا و سزا کے نفاذ کا تصور ذہنوں سے محو ہو گیایا اسلامی عقیدہ کی گرفت ڈھیلی ہو گئی تو انسان فکری بگاڑ و عملی و اخلاقی فساد کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔اس کی ایمانی قوت کمزور پڑ جاتی ہے،بد اعمالیوں کا خوگر ہو جاتا ہے اورپھر وہ ایسی شاہراہ پر چل پڑتا ہے جو اسے شیطان کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر وہ حزب الشیطان میں شامل ہو جاتاہے ،جس کا انجام ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔آمین۔
****

تبصرے بند ہیں۔