انسان اور زمین کی حکومت (قسط پنجم)

رستم علی خان

حضرت آدم علیہ السلام نے وفات سے قبل شیث علیہ السلام سے فرمایا: اے میرے بیٹے! تم میرے بعد میرے جانشین ہو۔ تم تقویٰ اختیار کرو اور جب بھی اللہ تعالٰی کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ضرور لو کیونکہ میں نے ان کا نام ساق عرش پر اُس وقت لکھا ہوا دیکھا جبکہ میں روح اور مٹی کی درمیانی حالت میں تھا۔ پھر میں نے تمام آسمانوں کا چکر لگایا تو میں نے اس ہستی کی شان محبوبیت کا بارگاہ رب العزت میں یہ عالم دیکھا کہ آپ کا نام پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کو اتنا پیارا ہے کہ میں نے آسمانوں میں کوئی ایسی جگہ نہیں دیکھی جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت میں کوئی محل کوئی بالاخانہ کوئی دریچہ ایسا نہ دیکھا کہ جس پر اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تحریر نہ ہو۔

اے میرے بیٹے! میں نے نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم حوروں کے سینوں پر فرشتوں کی آنکھوں کی پتلیوں میں شجر طوبٰی کے پتوں اور سدرۃ المنتہٰی پر لکھا دیکھا ہے۔ تم بھی کثرت کے ساتھ ان کا ذکر کیا کرو کیونکہ فرشتے بھی ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔
مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی وفات تک ان کی اولاد اور آگے اولاد کی اولاد وغیرہ کی تعداد چار لاکھ افراد تک پنہچ چکی تھی (واللہ اعلم الصواب)

حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کے بارے میں ، بہت سے دوسرے تاریخی حوادث اور واقعات کے مانند کوئی قطعی نظریه موجود نہیں ہے، کیونکه قابل اعتبار تاریخی کتابوں میں حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کے نام اور تعداد کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں – یہ شاید ان کے اور تاریخ کے درج اور تحریر میں آنے کے در میان زمانہ کا طولانی فاصلہ یا ان سب کے نام اہم نه ہونے کی وجہ سے تھا۔

قاضی ناصر الدین بیضاوی اپنی کتاب ” نظام التواریخ” میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوّا کے فرزندوں کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں : ” حوّا جب بھی حاملہ ہوتی تھیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو ایک ساتھـ جنم دیتی تھیں اور هر بطن کی ماده کو دوسرے بطن کے نر کے ساتھـ بیاها دیا جاتا تھا (یعنی ایک بطن کی ماده کودوسرے بطن کے نر سے شادی کی جاتی تھی)، وه اس سلسله میں آگے لکھتے ہیں : اماں حوا نے ایک سو بیس بطن سے فرزندوں کو جنم دیا اور قابیل چوتھے بطن کا بیٹا تھا- ہابیل کے ہلاک ہونے کے پانچ سال بعد ایک بطن سے آدام کا ایک بیٹا پیدا ہوا اور اس کے ہمراه بیٹی نہیں تھی (اور بعض روایات میں بیٹی کا بھی ذکر ملتا ہے) اس کا نام ” شیث” رکھا گیا اور فر مایا وه ہابیل کے بدلے میں ایک اور مبارک بیٹا ہے اور وه پیغمبر ہو گا…. اس نظریه کے مطابق حضرت آدم و حوا کے ٢٣٩ فرزند تھے-

اور امام ابن جریح (رح) نے اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک قول نقل کیا ہے جس کے مطابق آدم و حوا کے ہاں دو دو کر کے چالیس بچے پیدا ہوئے (یعنی بیس جوڑے) اور اس کے بعد انسانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوتا گیا اور وہ زمین میں بکھر گئے اور دور دور تک آباد ہوتے گئے۔

جیسا کہ پچھلی قسط میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں بیان کیا گیا ہے- اب مزید آگے بڑھنے سے پہلے ان میں ہونے والے نکاحوں کے بارے جو نظرئیات ہیں انہیں پیش کیا جائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں کے ازدواج کے بارے میں اسلامی دانشوروں کے درمیان دو نظریئے پائے جاتے ہیں:

١- اس زمانہ میں چونکہ خدا کی طرف سے بھائی بہن کے درمیان ازدواج کے حرام ہونے کا قانون نافذ نہیں ہوا تھا اور انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بہن کے در میان ازدواج عمل میں آیا ہے-

٢- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ محرم کے ساتھـ ازواج کرنا قبیح عمل ہے، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کرنا ممکن نہیں تھا اور آدم علیه السلام کےفرزندوں نے زمین پر موجود دوسری مخلوق کی بیٹیوں سے شادی کی- جب اس کے بعد ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے درمیان ازدواجی زندگی عمل میں آگئی اور اس طرح انسانی نسل پھیل گئی-

یہ سوال قدیم زمانہ سے زیر بحث رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے کن سے ازدواج کیا ؟ کیا انہوں نے اپنی بہنوں کے ساتھـ ازدواج کیا ہے؟ کیا انہوں نے جنس ملک یا جن کی بیٹیوں سے شادی کی ہے ؟ کیا انہوں نے دوسرے انسانوں سے شادی کی ہے؟ اگر انہوں نے اپنی بہنوں سے شادی کی ہو تو تمام ادیان وشرائع کے مطابق بھائی بہن کے در میان ازدواج کے حرام ہونے کے پیش نظر اس ازدواج کی کیسے توجیہہ کی جاسکتی ہے؟

اس سلسله میں اسلامی دانشوروں کے در میان دونظریئے پائے جاتے ہیں اور ہر نظریه کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے کچھـ دلائل بیان کئے گئے ہیں –

١- انہوں نے اپنی بہنوں کے ساتھـ شادی کی ہے ـ چونکہ اس زمانہ (آغاز خلقت) میں خداوند متعال کی طرف سے بھائی بہن کے درمیان ازدواج کے حرام ہونے کا قانون اعلان نہیں ہوا تھا اور دوسری جانب سے انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے علاوه کوئی اور طریقہ نہیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بہن کے درمیان شادی انجام پائی ہے، کیو نکه قانون نافذ کرنے کا حق خداوند متعال کو ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :” ان الحکم الا لله ” حکم صرف خدا کی طرف سے جاری ہوتا ہے-
علامه طباطبائی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : حضرت آدم (ع) اور حوا(ع) کی خلقت کے بعد پہلے مرحلہ ازدواج، حضرت آدم(ع) وحوا(ع) کے بلافصل فرزندوں میں بھائی اور بہن کے درمیان انجام پایا ہے اور حضرت آدم علیه السلام کے بیٹوں نے ان کی بیٹوں سے شادی کی ہے، چونکه اس زمانه میں دنیا میں انسانی نسل انہی فرزندوں میں منحصر تھی— اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے (اگرچہ ہمارے زمانے میں یہ مسئلہ تعجب خیز ہے)

چونکہ یہ مسئلہ، ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرع بھی صرف خداوند متعال کا کام ہے، لہذا وه ایک دن کسی کام کو حلال اور دوسرے دن اسی کام کو حرام قرار دے سکتا ہے-

صاحب تفسیر نمونہ کے مطابق اس نظریہ کا قائل ہونا عجیب نہیں ہے : "کوئی حرج نہیں ہے کہ ضرورت کے پیش نظر عارضی طور پر اس قسم کا ازدواج اس زمانہ میں کچھـ لوگوں کے لئے جائز اور مباح ہو اور دوسرے لوگوں کے لئے عام طور پر ابدی حرام ہو-
اس نظریہ کے حامی اپنے لئے قرآن مجید کی آیات سے بھی دلیل لاتے ہیں کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : ” ان دونوں ( ادم وحوا) سے زمین پر بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے-

٢- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت آدم(ع) کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ محارم سے ازدواج کرنا ایک قبیح، برا اور شرعاً حرام کام ہے، لہذا آدم کے بیٹوں نے جنسی بشر کی کچھـ ایسی بیٹوں سے شادی کی جو دوسری نسلوں سےتعلق رکھتی تھیں اور گزشتہ نسلوں سے زمین پر باقی رہی تھیں – جب بعد میں ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے در میان ازدواجی زندگی تشکیل پائی اس نظریہ کی بھی بعض روایتیں تائید کرتی ہیں ، کیونکہ حضرت آدم (ع) کے فرزند زمین پر سب سے پہلے انسان نہیں تھے، بلکہ اس سے پہلے بھی کچھـ انسان زمین پر زندگی کرتے تھے – لیکن یہ قول بظاہر قرآن مجید کی آیات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق انسانی نسل صرف ان دو(آدم و حوا) کے توسط سے وجود میں آئی ہے –پس حقیقت میں اس قسم کی روایتیں قرآن مجید تناقص رکھتی هیں اور ہم انہیں قبول نہیں کرسکتے ہیں برھانکم ان کنتم صدقین’۔

عقل سے کسی شے پر (جواز یا عدم جواز کا) حکم لگانے کیلئے کوئی اقداری ترتیب پہلے سے فرض کرنا لازم ہوتی ہے، یہ عقل کی ایک حد ہے جسے پہچاننا ضروری ہے۔ ملاحدہ کی چال یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماقبل عقل اقداری ترتیب کو عقل کے ہم معنی کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یوں وہ اہل مذہب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم تو ایمان لاتے ہو ہم نہیں ۔
حقیقت میں اخلاقیات کیلئے الہامی بنیاد ختم کرنے کے بعد انسان ایک صحرا میں آکھڑا ہوتا ہے جہاں اسکی عقل اسے کوئی راہ سجھانے سے قاصر ہوتی ہے، عقل کو یہاں ہر جہت یکساں معلوم ہوتی ہے۔ نبی ہی خدا کی لٹکائی ہوئی وہ واحد رسی ہے جسے پکڑ کر انسان صحیح سرے لگتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں کے ازدواج کے بارے میں اسلامی دانشوروں کے درمیان دو نظریئے پائے جاتے ہیں:

١- اس زمانہ میں چونکہ خدا کی طرف سے بھائی بہن کے درمیان ازدواج کے حرام ہونے کا قانون نافذ نہیں ہوا تھا اور انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بہن کے در میان ازدواج عمل میں آیا ہے-

٢- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ محرم کے ساتھـ ازواج کرنا قبیح عمل ہے، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کرنا ممکن نہیں تھا اور آدم علیه السلام کےفرزندوں نے زمین پر موجود دوسری مخلوق کی بیٹیوں سے شادی کی- جب اس کے بعد ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے درمیان ازدواجی زندگی عمل میں آگئی اور اس طرح انسانی نسل پھیل گئی-

یہ سوال قدیم زمانہ سے زیر بحث رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے کن سے ازدواج کیا ؟ کیا انہوں نے اپنی بہنوں کے ساتھـ ازدواج کیا ہے؟ کیا انہوں نے جنس ملک یا جن کی بیٹیوں سے شادی کی ہے ؟ کیا انہوں نے دوسرے انسانوں سے شادی کی ہے؟ اگر انہوں نے اپنی بہنوں سے شادی کی ہو تو تمام ادیان وشرائع کے مطابق بھائی بہن کے در میان ازدواج کے حرام ہونے کے پیش نظر اس ازدواج کی کیسے توجیہہ کی جاسکتی ہے؟

اس سلسله میں اسلامی دانشوروں کے در میان دونظریئے پائے جاتے ہیں اور ہر نظریه کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے کچھـ دلائل بیان کئے گئے ہیں:

١- انہوں نے اپنی بہنوں کے ساتھـ شادی کی ہے ـ چونکہ اس زمانہ (آغاز خلقت) میں خداوند متعال کی طرف سے بھائی بہن کے درمیان ازدواج کے حرام ہونے کا قانون اعلان نہیں ہوا تھا اور دوسری جانب سے انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے علاوه کوئی اور طریقہ نہیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بہن کے درمیان شادی انجام پائی ہے، کیو نکه قانون نافذ کرنے کا حق خداوند متعال کو ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :” ان الحکم الا لله ” حکم صرف خدا کی طرف سے جاری ہوتا ہے-
علامه طباطبائی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : حضرت آدم (ع) اور حوا(ع) کی خلقت کے بعد پہلے مرحلہ ازدواج، حضرت آدم(ع) وحوا(ع) کے بلافصل فرزندوں میں بھائی اور بہن کے درمیان انجام پایا ہے اور حضرت آدم علیه السلام کے بیٹوں نے ان کی بیٹوں سے شادی کی ہے، چونکه اس زمانه میں دنیا میں انسانی نسل انہی فرزندوں میں منحصر تھی— اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے (اگرچہ ہمارے زمانے میں یہ مسئلہ تعجب خیز ہے)

چونکہ یہ مسئلہ، ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرع بھی صرف خداوند متعال کا کام ہے، لہذا وه ایک دن کسی کام کو حلال اور دوسرے دن اسی کام کو حرام قرار دے سکتا ہے-

صاحب تفسیر نمونہ کے مطابق اس نظریہ کا قائل ہونا عجیب نہیں ہے : "کوئی حرج نہیں ہے کہ ضرورت کے پیش نظر عارضی طور پر اس قسم کا ازدواج اس زمانہ میں کچھـ لوگوں کے لئے جائز اور مباح ہو اور دوسرے لوگوں کے لئے عام طور پر ابدی حرام ہو-
اس نظریہ کے حامی اپنے لئے قرآن مجید کی آیات سے بھی دلیل لاتے ہیں کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : ” ان دونوں ( ادم وحوا) سے زمین پر بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائے-

٢- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت آدم(ع) کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ محارم سے ازدواج کرنا ایک قبیح، برا اور شرعاً حرام کام ہے، لہذا آدم کے بیٹوں نے جنسی بشر کی کچھـ ایسی بیٹوں سے شادی کی جو دوسری نسلوں سےتعلق رکھتی تھیں اور گزشتہ نسلوں سے زمین پر باقی رہی تھیں – جب بعد میں ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے در میان ازدواجی زندگی تشکیل پائی اس نظریہ کی بھی بعض روایتیں تائید کرتی ہیں ، کیونکہ حضرت آدم (ع) کے فرزند زمین پر سب سے پہلے انسان نہیں تھے، بلکہ اس سے پہلے بھی کچھـ انسان زمین پر زندگی کرتے تھے – لیکن یہ قول بظاہر قرآن مجید کی آیات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق انسانی نسل صرف ان دو(آدم و حوا) کے توسط سے وجود میں آئی ہے –پس حقیقت میں اس قسم کی روایتیں قرآن مجید تناقص رکھتی هیں اور ہم انہیں قبول نہیں کرسکتے ہیں برھانکم ان کنتم صدقین’۔

عقل سے کسی شے پر (جواز یا عدم جواز کا) حکم لگانے کیلئے کوئی اقداری ترتیب پہلے سے فرض کرنا لازم ہوتی ہے، یہ عقل کی ایک حد ہے جسے پہچاننا ضروری ہے۔ ملاحدہ کی چال یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماقبل عقل اقداری ترتیب کو عقل کے ہم معنی کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یوں وہ اہل مذہب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم تو ایمان لاتے ہو ہم نہیں ۔
حقیقت میں اخلاقیات کیلئے الہامی بنیاد ختم کرنے کے بعد انسان ایک صحرا میں آکھڑا ہوتا ہے جہاں اسکی عقل اسے کوئی راہ سجھانے سے قاصر ہوتی ہے، عقل کو یہاں ہر جہت یکساں معلوم ہوتی ہے۔ نبی ہی خدا کی لٹکائی ہوئی وہ واحد رسی ہے جسے پکڑ کر انسان صحیح سرے لگتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت شیث ولی عہد ہوئے اور اللہ کے احکامات کو عام کرتے اور عبادت الہی میں وقت صرف کرتے-

بعض روایات میں ہابیل کی شہادت کے بعد قابیل کو فوری سزا دی گئی اور بعض روایات جن میں اہل کتاب (تورات) کی روایات زیادہ ہیں کہ اسے مہلت دی گئی اور وہ مصر میں جا کر آباد ہو گیا اور اس کا ایک بیٹا "خنوخ” ہوا اور خنوخ سے "عندر” عندر سے "محاویل” سے "متوشیل” اور متوشیل سے "لامک” پیدا ہوا- اس نے دو عورتوں سے شادی کی ایک کا نام "عدا” اور دوسری کا "صلا” تھا- عدا کے ہاں ایک بیٹا "اہل” پیدا ہوا جس نے سب سے پہلے خیموں میں رہائش اختیار کی اور مال جمع کیا- اس کے ہاں "نوبل” بھی پیدا ہوا اس نے سب سے پہلے "بین اور بانسری” بنائی-

اور صلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام "توبلقین” تھا سب سے پہلے اس نے تانبا اور لوہے کی چیزیں بنائیں – اور اس کے ہاں ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی جس کا نام "نعمی” تھا-

حضرت شیث علیہ السلام حضرت آدم کے بعد اللہ کے احکامات لوگوں کو سناتے اور انہیں اللہ کی طرف بلاتے-

روایات میں ہے کہ حضرت شیث نے بنو قابیل میں بھی دعوت و تبلغ کا کام کیا جس سے چند لوگ ان میں سے بھی احکام خداوندی کی پیروی کرنے والے ہوئے اور بعد میں شیطان نے بنو قابیل کو پھر بہکا کر ان کو شہید کروا دیا اور بعد اس کے بت پرستی کی ابتدا ہوئی جس کا زکر آگے آئے گا ان شآء اللہ-

اور حضرت شیث کی عمر ایک سو پینسٹھ سال تھی جب آپ کے ہاں "اخنوخ” (ادریس علیہ السلام) بیٹا پیدا ہوا اور بعد اس کے حضرت شیث اٹھ سو سات سال زندہ رہے اور ان کے اور بھی بیٹے بیٹیاں ہوئے- بعد آپ کے حضرت ادریس ولی عہد اور نبی ہوئے-
آپ کا نام ”اخنوخ”ہے۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں کے سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی۔ اس سے پہلے لوگ جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علم نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں ۔ یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کا بکثرت درس دیا کرتے تھے۔ اس لئے آپ کا لقب ”ادریس” ہو گیا۔ اور آپ کا یہ لقب اس قدر مشہور ہو گیا کہ بہت سے لوگوں کو آپ کا اصلی نام معلوم ہی نہیں ۔ قرآن مجید میں آپ کا نام ”ادریس” ہی ذکر کیا گیا ہے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اُٹھا لیا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب ِ معراج حضرت ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے مروی ہے۔وہ ہر روز پیرہن سیتے تھے ہر دم سینے میں تسبیح پڑھتے تھے اور کسی سے سلائی کی اجرت نہ لیتے تھے۔

ایک دن وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے کہ ملک الموت بہ آرزوۓ تمام امر الٰی سے آدمی کی صورت بن کر مہمان کے طور پر رات کو حضرت ادریس علیہ السلام کے دروازے پر آ پہنچے۔ آنحضرتؑ صائم الدہر تھے جب شام ہوتی افطار کے وقت آپکا کھانا بہشت سے آتا جسقدر چاہتے کھا لیتے باقی کھانا پھر بہشت میں چلا جاتا۔ اس دن کا کھانا جب آیا تو حضرت ادریس علیہ السلام نے وہ کھانا اس مسافر کو پیش کر دیا لیکن مسافر نے کچھ نہ کھایا اور قدم پر قدم رکھ کر عبادت کرتا رہا۔ حضرت ادریس علیہ السلام انکا یہ حال دیکھ کر معتجب ہوۓ کہ یہ کون شخص ہے۔

اگلے دن حضرت ادریس علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اے مسافر تو میرے ساتھ چل کر خدا کی قدرت صحرا میں جا کر دیکھو تب دونوں بزرگ گھر سے میدان کیطرف نکلے، جاتے جاتے ایک گیہوں کے کھیت میں جا پہنچے حضرت ملک الموت نے کہا کہ چلو چند خوشے گیہوں کے لیکر دونوں کھاتے ہیں ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کہ عجب ہے رات کو تو نے حلال کھانا نہ کھایا اور اب حرام کھانا چاہتا ہے پھر وہاں سے دونوں بزرگ دوسرے باغ میں پہنچے اور وہاں بھی انگور دیکھ کر حضرت عزرائیلؑ نے کھانے کا قصد کیا حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کہ تصرف ملک غیر میں حرام ہے پھر جاتے جاتے ایک بکری دیکھ کر حضرت عزرائیلؑ نے کھانے کا ارادہ کیا پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ بیگانی بکری کو ذبح کر کے کھانا ممنوع ہے۔

اسی طرح تین روز تک دونوں باہم گفتگو کرتے رہے جب حضرت ادریس علیہ السلام کو لگا کہ یہ شخص بنی آدم سے معلوم نہیں ہوتا یہ کون شخص ہے، اور فرمایا کہ خدا کے واسطے ظاہر تو کرو کہ تم کون ہو۔ مسافر بولا میں عزرائیلؑ ہوں ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا کیا سب مخلوقات کی جان تم ہی قبض کرتے ہو، انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے فرمایا تم شائد میری جان قبض کرنے آۓ ہو، انہوں نے کہا نہیں ، میں تو تمہارے ساتھ خوش طبعی کرنے آیا ہوں ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ تین دن سے تو میرے ساتھ ہے کیا اس عرصے میں بھی تو نے کسی کی جان قبض کی ہے، وہ بولے: قال کلھا بین یدی کانما بیدیک خیر، ترجمہ: کل جان قبض کرنا ہمارے ہاتھ میں ایسا ہے جیسا تمہارے دونوں ہاتھ کے نیچے روٹی رکھی ہوئی ہے یعنی جسکی اجل آتی ہے اللہ پاک کے حکم سے میں ہاتھ بڑھا کر اسکی جان قبض کر لیتا ہوں اور بولا اے حضرت ادریس علیہ السلام میں چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ رشتہ برادری کا کروں۔

حضرت ادریس نے فرمایا کہ میں تجھ سے رشتہ برادری کا کروں گا لیکن ایک بار موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں ، کیسا ہوتا ہے؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ۔ ملک الموت نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اُسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی اور آپ زندہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اب مجھے جہنم دکھاؤ تاکہ خوف ِ الٰہی زیادہ ہو۔ چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنم کو دیکھ کر آپ نے داروغہ جہنم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو، میں اس دروازے سے گزرنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے۔ پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ، وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازوں کو کھلوا کر جنت میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ملک الموت نے کہا کہ اب آپ اپنے مقام پر تشریف لے چلئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ تو موت کا مزہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھَا کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب میں جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کے لئے خداوند ِ قدوس نے یہ فرمایا ہے کہ وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ کہ جنت میں داخل ہونے والے جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی بھیجی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے ہی اذن سے جنت میں داخل ہوئے۔ لہٰذا تم انہیں چھوڑ دو۔ وہ جنت ہی میں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں کے اوپر جنت میں ہیں اور زندہ ہیں ۔ ( خزائن العرفان، ص ۵۵۶۔۵۵۷، مریم:۵۶۔ ۵۸)

حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور ان کو ملنے والی نعمتوں کا مختصر اور اجمالی تذکرہ قرآن مجید کی سورہ مریم میں ہے:

ترجمہ: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھا لیا یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔ (پا16، سورہ مریم: 56-58)

تبصرے بند ہیں۔