انسان اور زمین کی حکومت (قسط چہارم)

رستم علی خان

اللہ تعالی نے سب کو جنت سے ایک ساتھ نکالا لیکن انہیں زمین پر ایک دوسرے سے الگ یعنی ایک دوسرے سے لمبے فاصلوں پر اتارا- سزا کے طور پر ان سے جنت کی ساری مراعات چھین لی گئیں ان میں جدائی ڈال دی گئی- حضرت اماں حوا کو جدہ میں جب کہ حضرت آدم کو ہند (سری لنکا) میں اتارا گیا اور سانپ کو گھسٹنے کے لئیے جنگلوں میں جب کہ مور کو صحرا میں اتارا گیا- حضرت آدم کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ رو رو کر بارگاہ الہی میں گریہ زاری کرتے اور تب انہیں غلطی معاف کروانے کا طریقہ نہیں پتا تھا تو بس روتے رہتے اور روایات میں ہے کہ زمین پر سب سے پہلے گھاس اور ایک درخت جس کا نام جائفل ہے یہ دونوں حضرت آدم کے آنسووں سے اگے تھے-

آدم و حوا کو بہکانے کے جرم میں شیطان کو بھی سزائیں دی گئیں

ابلیس لعین کو تمام روئے زمین اور آسمان اول کی بادشاہت سے محروم کر دیا گیا-

ابلیس کی صورت مسخ کر دی گئی

ابلیس قربت الہی سے محروم ہوا

اس کا عزازیل نام تبدیل ہو کے ابلیس ہوا

ابلیس بدبختوں اور کفار کا پیشوا ہوا

ابلیس معرفت الہی کی دولت سے ہمیشہ کے لئیے محروم کر دیا گیا

ابلیس کے لئیے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئیے بند کر دیا گیا

ابلیس نیکی سے ہمیشہ کے لئیے محروم کیا گیا

ابلیس تمام دوزخیوں کا خطیب ہوا

حضرت آدم علیہ السلام اتنا روے کہ زمین ہری ہو گئی تب زمین کے اس حصے نے بارگاہ ربی میں حضرت آدم علیہ السلام کی سفارش پیش کی کہ جس طرح اس نے اپنے آنسووں سے میرا سینہ ہرا کیا تو بھی اس کا سینہ ہرا کر دے اور جس طرح اس نے مجھے زرخیز کیا تو بھی اسے کر دے اور جیسے اس کے آنسووں نے مجھے نرم کیا تو بھی اس کے لئیے اپنی رحمت کو نرم فرما دے تب اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل امین کو پہلی وحی دے کر زمین پر بھیجا کہ جاو آدم سے کہو ہم سے ایسے معافی طلب کرے ہم معاف کرنے والے ہیں – حضرت جبرائیل نے حضرت آدم کو وہ کلمات سکھائے تب اللہ سے یوں دعا کی

ترجمہ "اے میرے رب میں نے ظلم کیا اپنے نفس پر اور اگر تو نہیں بخشے گا اور رحم نہ کرے گا تو بیشک ہم تباہ ہو جائیں گے”
اللہ نے دعا قبول فرمائی اور حضرت اماں حوا سے دوبارہ ملوایا اور تب تک دو سو سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور وہ بیت اللہ والی جگہ پر ملے اور وہیں میدان حشر لگے گا-

پھر اللہ نے ان کے کھانے کے لئیے آسمان سے بیج بیجھے کہ زمین میں ہل چلاو اور اسے نرم کرو اور اس میں یہ بو دو پھر اپنی رحمت سے بارش نازل فرمائی اور کھیتی سے کئی گنا بڑھا کے اناج پیدا کیا اور زمین پر نسل آدم کے آباد ہونے رہنے کھانے کے تمام اسباب مہیا فرمائے-

اور شیطان سے بچ کے رہنے کا حکم دیا کہ وہ بیشک تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا-
نسل آدم کی ابتداء یوں تھی کہ ایک حمل میں اللہ کی طرف سے ایک لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتے اور ان کے نکاح یوں ہوتے کہ پہلے جوڑے سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے جوڑے کی لڑکی سے ہوتا اور اسی طرح دوسرے جوڑے کے لڑکے کا نکاح پہلے جوڑے کی لڑکی سے ہوتا اور پھر یہی طریقہ ہابیل و قابیل کی دفعہ طے پایا لیکن قابیل نہ مانا اور کہا کہ وہ اسی سے شادی کرے گا جو اس کے ساتھ پیدا ہوئی اور یہ قانون کے خلاف تھا۔

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب روئے زمین پر انسانی زندگی ابتدائی حالت میں تھی اور حضرت حواء کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک ساتھ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری مرتبہ پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ کر دیا جاتا تھا۔ ہابیل اور قابیل یہ دونوں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں ۔جب یہ جوان ہوئے تو دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح غازہ کے ساتھ جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا تو قابیل اس بات پر رضامند نہیں ہوا کیونکہ اقلیما، غازہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی۔جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔

حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہٰذا تم یہ بات مان لو۔ اقلیما تمہارے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس لئے وہ تیری بہن ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مگر قابیل اپنی بات پر اڑا رہا۔ با لآخر حضرت آدم علیہ السلام نے ان دونوں بھائیوں کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے حضور میں پیش کرو۔ جس کی قربانی مقبول ہوگی وہی اقلیما سے نکاح کا حق دار ہوگا۔ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ تھی کہ لوگ اپنی قربانیاں پہاڑ پر رکھ دیتے تھے اور آسمان سے آگ آکر انھیں کھا جاتی تھی۔

قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل جانور پالتا تھا۔ چنانچہ قابیل نے گندم کی بالیاں اور ہابیل نے ایک خوبصورت، موٹا تازہ مینڈھا قربانی کے لئے ایک پہاڑ پر رکھ دیا اور اللہ سے دعا مانگی یا الٰہی ہماری قربانی کو قبول فرما۔ آسمان سے آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔جس سے قابیل کے دل میں ہابیل کے لئے غصہ، حسد اور بغض پیدا ہوگیا اور وہ ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو میرے قتل کے لئے مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاﺅں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔اور تجھ پر دونوں طرف کا گناہ ہوگا اور تیرا ٹھکانہ دوزخ ہو گا

قربانی دے کر دونوں بھائی حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئے، آدم علیہ السلام نے فرمایا اے قابیل تیری بہن اقلیما اب ہابیل پر حلال ہوئی اور تجھ پر حرام۔ قابیل اب مایوس ہوچکا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اس لئے وہ ہابیل کو مارنے کی تدبیر میں رہنے لگا۔ اس دوران آدم علیہ السلام جب مکہ چلے گئے، تو ایک دن قابیل نے دیکھا کہ ہابیل سورہا ہے تو سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے ماروں کیونکہ اس زمانے تک کسی نے کسی کو نہیں مارا تھا۔جب شیطان نے دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر دوسرا پتھر زور سے اس کے سر پر دے مارا جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا۔ یہ ترکیب دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کے ساتھ یہ ہی کیا اور زمین پر سے ایک پتھر اٹھا کر ہابیل کے سر پر دے مارا، اور اپنے بے گناہ بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔

ہابیل کے قتل کے بعد قابیل یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوا کہ اب اس لاش کا کیا کرے۔یہ روئے زمین پر کسی انسان کا یہ پہلا قتل تھا، کیونکہ اس سے پہلے کوئی آدمی مرا ہی نہیں تھا۔ اس لئے قابیل حیران و پریشان تھا کہ بھائی کی لاش کو کیا کروں ، چنانچہ وہ کئی روز تک بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر پھرتا رہا۔اللہ تعالیٰ کو اپنے اس نیک بندے کی لاش کی بے حرمتی منظور نہ تھی چنانچہ اس جگہ پر دو کوّے آئے اور وہاں آکر آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ پھر زندہ کوّے نے اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین میں گڑھا کھود ا اور اس میں اس مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبادیا۔ کوّے کو دیکھ قابیل اپنے اوپر ملامت کرنے لگا کہ میں اس کوّ ے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اتنا بھی نہ کرسکا۔ اس طرح قابیل کو معلوم ہوا، کہ ہابیل کی لاش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردینا چاہیئے۔ چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو دفن کردیا۔

جب حضرت آدم علیہ السلام مکّہ سے واپس آئے اور ہابیل کو نہ پایا تو اس کو بہت تلاش کیا، مگر وہ نہ ملا، لوگوں سے پوچھنے لگے، کسی نے جواب دیا کہ ہابیل کچھ دنوں سے نہ معلوم کہاں گیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ہابیل صدمے میں کھانا پینا اور سونا سب ترک کردیا اور شب و روز ہابیل کے غم میں رہنے لگے۔ ایک روز آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا کہ ہابیل الغیاث الغیاث، اے پد ر، اے پدر، پکار رہا ہے،حضرت آدم علیہ السلام نیند سے چونک کر اٹھے اور زار زار رونے لگے۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو ہابیل کی قبر پر لے گئے۔

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا نے قبر کھود کر ہابیل کو دیکھا کہ اس کا مغز نکلا ہوا ہے اوروہ خون سے آلودہ ہورہا ہے۔ یہ حال دیکھ کر آپ ؑ دونوں بہت روئے۔ اور ہابیل کی لاش کو ایک تابوت میں بند کرکے اپنے مکان میں لاکر دفن کردیا۔ اس وقت آپ ؑ کے ایک سو بیس بیٹے تھے جن میں سے سوائے ہابیل کے کوئی نہیں مرا تھا۔

روایت ہے کہ جب ہابیل قتل ہوگئے تو سات دن تک زمین میں زلزلہ رہا۔ قابیل جو بہت خوبصورت تھا بھائی کا خون بہاتے ہی اس کا چہرہ بالکل سیاہ اور بدصورت ہوگیا۔ آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ یمن کی سر زمین عدن میں چلا گیا، وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھالیا تھا کہ وہ آگ کی پوجا کرتا تھا لہٰذا تو بھی آگ کی پرستش کیا کر۔ چنانچہ قابیل پہلا شخص ہے جس نے آگ کی پرستش کی اورزمین پریہ پہلا شخص ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین پر خون ناحق کیا۔ یہ وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جائے گا۔حدیث میں ہے کہ زمین پر قیامت تک جو بھی خونِ ناحق ہوگا۔اس کے عذاب کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ قابیل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
اور قابیل کے بارے مختلف روایات ہیں جن میں سے ایک میں آتا ہے کہ قابیل کا انجام یہ ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا۔ اس کو پتھر مار کر قتل کردیا۔ اور یہ بدبخت آگ کی پرستش کرتے ہوئے کفر و شرک کی حالت میں مر گیا۔

حضرت ہابیل کی شہادت کے بعد حضرت آدم علیہ السلام بہت اداس رہنے لگے اور زیادہ وقت عبادت الہی میں بسر کرنے لگے- اسی طرح پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اللہ نے حضرت آدم و اماں حوا کو ایک اور بیٹا عطا فرمایا جن کا نام شیث علیہ السلام رکھا گیا- شیث سریانی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں اس کے معانی عطیہ خداوندی ہے- چونکہ ان کی ولادت حضرت ہابیل کی شہادت کے بعد ہوئی اس لئیے حضرت آدم نے انہیں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تحفہ سمجھا اور نام شیث رکھا- اور ان کی صفات حسنہ سے بہت خوش رہے-

روایات میں ہے کہ تمام بنی نوع آدم انہیں کی اولاد ہیں – آدم علیہ السلام کے دوسرے بیٹوں کا سلسلہ آگے نہ چل سکا قرآن کریم میں ان کا زکر نہیں ہے-

حضرت شیث کی پیدائش کے بعد حضرت آدم آٹھ سو سال زندہ رہے ۔ حضرت ابوذر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں پر 100 صحیفے اور 4 کتابیں نازل کئیے جن میں سے 50 صحیفے حضرت شیث علیہ السلام پر اترے جس سے ان کی نبوت ثابت ہوتی ہے-

حضرت آدم کا جب وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت شیث کو اپنا وصی خلیفہ اور جانشین بنایا- دن اور رات کو مختلف ساعتوں میں تقسیم کیا- اور ہر ساعت کی عبادت کی انہیں تعلیم دی- اور طوفان نوح سے بھی آگاہ فرمایا- حضرت آدم نے ان کی نسل میں خیر و برکت ہونے کی دعائیں مانگیں –

حضرت شیث علیہ السلام حسن صورت میں اور خوب سیرت میں حضرت آدم کے مشابہ تھے اور تمام بیٹوں میں ان کے محبوب نظر تھے-

حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں اپنا ولی عہد بنایا اور وصیت فرمائی کہ جب طوفان نوح حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں شروع ہو اور اگر تم اس زمانہ کو پاو تو میری ہڈیوں کو کشتی میں رکھوانا جو بحکم ربی غرق ہونے سے محفوظ ہو گی- یا اپنی اولاد کو وصیت کرنا کہ اس طرح عمل میں لائیں – حضرت شیث علیہ السلام اپنے والد سے اکثر بہشت کا زکر اور وہاں کی نعمتوں کا ذکر شوق سے سنتے اور آسمانی صحیفوں کا مضمون بھی دریافت کرتے تھے- اور اکثر اوقات سب سے الگ ہو کر عبادت و ریاضت میں وقت گزارتے-

جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت شیث(علیہ السلام) کو بلوایا اور فرمایا: بیٹا تم جو کچھ دیکھ رہے ہو خدا نے اپنی قدرت کے ذریعہ ہمیں عطا فرمایا ہے اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنا جانشین مقرر کروں اور اسکی امانتوں کو تمہارے حولے کروں ، میرے سر کے نیچے میرا وصیت نامہ ہے جس میں حکمت(أَثَرُ الْعِلْمِ) اور اسم اعظم ہے جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں تو اسے لے لو اور کسی کو اس کے بارے میں اطلاع نہ دینا اس وقت تک جب تک تم پر بھی میری طرح کا وقت نہ آجائے اس وقت یہ کس کو دینا ہے اس میں غور اور فکر کرنا، اس میں ان تمام مسائل جس کی تمہیں ضرورت ہوگی چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی سب موجود ہے۔

پھر حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا مجھے یہ خواہش ہورہی ہے کہ میں جنت کے میوے کو کھاؤ تم پہاڑ پر جاؤ اور جو بھی فرشتہ تمہیں دکھے اس سے کہو: میرے والد مریض ہے اور آپ سے کہ رہے ہیں کہ انہیں جنت کے میوے ہدیہ کریں ، حضرت شیث(علیہ السلام) پہاڑ پر جانے لگے راستہ میں جناب جبرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ دیکھا، جناب جبرائیلچعلیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو سلام کیا اور پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں ؟ حضرت شیث علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ جناب جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: میں روح الأمین جبرائیل ہوں، حضرت شیث علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے آپ کو سلام کہا ہے اور کچھ جنت کے میوں کی درخواست کی ہے، جناب جبرائیل(علیہ السلام) نے فرمایا: آپ کے والد پر سلام ہو! اے شیث(علیہ السلام) آپ کے والد اس دنیا سے گذر چکے ہیں ! اس کے بعد دونوں ملکر حضرت آدم(علیہ السلام) کے جنازے پر آئے۔

تبصرے بند ہیں۔