انسان اور زمین کی حکومت (قسط ہشتم)

رستم علی خان

جب قوم نے غضب الہی کو للکارا اور نبی اللہ کا مذاق بنایا کہ وہ اپنے وعدوں میں اگر سچا ہے تو کہاں ہے عذاب لے کیوں نہیں آتے- تو اللہ کو قوم کی سرکشی پر غیض آیا اللہ بارک وتعالی نے ان پر آسمان سے بارش روک دی اور ان کی کھیتیاں بانجھ ہو گئیں ان کا املاک تباہ ہونے لگا مال مویشی بھوک پیاس (قحط سالی) کی وجہ سے ہلاک ہونے لگے ان کے باغات اجڑ گئے اور ان کی بیویاں بانجھ ہو گئیں اور ان کے نسل مٹنے لگی- تب حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کو سمجھایا کہ اگر تم بت پرستی اور شرک کا راستہ چھوڑ کر ایک اللہ کو معبود برحق مان لو اور اس سے ڈرو اور توبہ کر لو تو وہ تم پر اپنی رحمت کی بارش کرے گا اور وہ بارش ایسے ہو گی کہ گویا سارا آسمان برس رہا ہے- لیکن چونکہ وہ باران رحمت ہو گا تو اس سے تمہیں کوئی نقصان یا ایذا نہ پنہچے گی بلکہ تم خوشحال ہو جاو گے- تمہارے کھیت پھر سے ہرے ہو جائیں گے- تمہارے مال مویشیوں میں برکت دے گا- تمہارے باغات پہلے سے بھی ذیادہ پھل دیں گے اور بڑھیں گے- اور تمہاری مدد کے لئیے تمہیں اولاد سے نوازے گا تمہاری بیویاں جو بانجھ پن کی وجہ سے نسل نہیں بڑھا سکتیں ان سے عذاب اٹھا لیا جائے گا اور وہ پھر سے بچے جننے لگیں گی۔

مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا؛ کہ آخر تمہیں کونسی چیز حق تسلیم کرنے سے روکتی ہے کیا تم اپنے اللہ کی قدرتوں کو نہیں دیکھتے جس نے اوپر تلے آسمان بنائے- زمین کو تمہارے لئیے بچھایا- چاند سورج ستارے بنائے- دن اور رات کا نظام بنایا- جس نے تمہیں بنایا اور تمہاری شکلوں کو ماں کے پیٹ میں ٹھیک فرمایا- تو تم کیوں اس کے سوا شیطان کا کہا مانتے ہو جو بیشک تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے-

اور یہ قحط سالی کاسلسلہ چالیس سال تک چلا ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی اور ان کی نسل بہت کم رہ گئی- مویشی ہلاک ہوتے ہوتے بہت کم رہ گئے- باغات اجڑ گئے- زمینیں (بارش نہ ہونے کی وجہ سے) بنجر ہو گئیں –
اس دوران حضرت نوح علیہ السلام انہیں مسلسل سمجھاتے رہے اور توبہ کی تلقین کرتے رہے کہ اس کے بعد یہ عذاب تم سے ہٹا لیا جائے گا-

تب شیطان ان کے پاس آیا اور کہا کہ یہ عذاب جو تم پر نازل ہوئے ہیں یہ نوح اور اس کے حواریوں کی وجہ سے ہے- وہ تمہارے خداوں کو جھوٹا اور غلط کہتے ہیں – اس لئیے تمہارے خدا تم سے ناراض ہیں – اگر تم چاہتے ہو کہ سب پہلے جیسا ہو جائے تو اپنے خداوں کی خوشی کے لئیے نوح اور اس کے متبعین کو یا تو قتل کر دو یا پھر انہیں یہاں سے نکال باہر ہی کرو (جلا وطن کر دو)- اور

اگر تم ایسا کر سکو تو تمہارے خدا تم سے خوش ہو جائیں گے اور تم پر اپنا کرم کریں گے-
گمراہی میں ڈوبی قوم نہ سمجھ سکی کہ شیطان تو ان کا دشمن ہے اور انہیں غلط مشورہ ہی دے گا- وہ لوگ مشورہ کرنے لگے کہ واقعی ہمارے خدا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں اور اب ان کی خوشی کے لئیے ہمیں چاہئیے کہ نوح اور اس کے متبعین کو یا تو قتل ہی کر دیں یا یہاں سے نکال باہر کریں ۔

حضرت نوح علیہ السلام کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے اللہ کے سامنے دعا کی کہ؛ اے اللہ میں نے اس قوم کو ہر طرح سے دن میں اور رات کو بھی تنہائی میں اور کھلے عام بھی ترتیب سے بھی اور ترغیب سے بھی سمجھایا- لیکن یہ کسی طور حق پر آنے کے نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ہر گز اپنے خداوں کو نہ چھوڑیں گے اور نہ "ود، سواع، یعوق، یغوث اور نسر” ہی کو چھوڑیں گے- اے اللہ تو انہیں نیست و نابود فرما اور زمین کو کافروں کے شر سے پاک فرما- اور اے اللہ ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ کہ پھر سے زمین پر نافرمانی کریں اور خرابی (شرک و بت پرستی) پیدا کریں اور جو تجھ پر ایمان لائے ان کی حفاظت فرما-
حکم ہوا اے نوح ایک کشتی تیار کرو-

حضرت نوح علیہ السلام اب عذاب کی کیفیت سے تو واقف تھے نہیں کہ جو عذاب یا طوفان آنے والا ہے وہ کس نوعیت کا ہو گا- تب حکم ہوا کہ اے نوح جیسا ہم تم کہیں ویسی کشتی بناو- اور کافروں کے لئیے اب دعا نہ کرنا کہ ان میں سے کوئی ہدایت لانے والا نہیں ہے-

(یہاں ایک بات سمجھانا ضروری سمجھیں گے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے تو وہ کیوں انسان کو ہدایت نہیں دیتا- بیشک سب اللہ کے اختیار میں ہے اور حدیث قدسی ہے کہ انسان کا دل ہماری دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہیں اسے بدل سکتے ہیں – رہی بات ہدایت کی تو اللہ نے انسان کو بنانے کے بعد اسے عقل و شعور عطا کیا اور ساتھ ہی دو راستے دئیے ایک ہدایت کا اور دوسرا گمراہی کا- اور انسانوں کو سمجھانے اور سکھانے کو انبیاء بیجھے اور کتابیں نازل فرمائیں – اب ایک صاحب عقل آدمی اللہ کی قدرت پر غور کرے تو یقینا اللہ کو خالق و مالک ماننے پر مجبور ہو جائے گا سوائے ان لوگوں کے جن کی عقل پر پردہ پڑا ہو اور وہ نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے نہ سمجھتے ہیں -)

اللہ تبارک وتعالی حضرت نوح کو کشتی بنانے کے بارے وحی کرتے رہے اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متبعین جب کشتی بنا رہے تھے تو گمراہ قوم بجائے اس کے کہ ایک لمحہ کے لئے حضرت نوح کی دعوت کو غور سے سنتے، اسے سنجیدگی سے لیتے اور کم ازکم انہیں یہ احتمال ہی ہوتا کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت نوح کے بار بار کے اصرار اور تکرار دعوت کا سر چشمہ وحی الٰھی ہی ہو اور ہو سکتا ہے طوفان اور عذاب کا معاملہ حتمی اور یقینی ہی ہو، الٹا انہوں نے متکبر اور مغرور افراد کی عادت کا مظاہرہ کیا اور تمسخر و استہزاء کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی قوم کا کوئی گروہ جب کبھی ان کے نزدیک سے گزرتا اور حضر ت نوح اور ان کے اصحاب کو لکڑیاں اور میخیں وغیرہ مہیا کرتے دیکھتا اور کشتی بنانے میں سرگرم عمل پاتا تو مذاق اڑاتا اور پھبتیاں کستے ہوئے گزر جاتا-

کہتے ہیں کہ قوم نوح علیہ السلام کے اشراف کے مختلف گروہوں کے ہر دستے نے تمسخر اور تفریح وطبع کے لئے اپنا ہی ایک انداز اختیار کر رکھا تھا۔

ایک کہتا تھا؛ اے نوح(ع) ! دعوائے پیغمبری کا کاروبار نہیں چل سکا تو بڑھئی بن گئے، دوسرا کہتا تھا؛ کشتی بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ کشتی کے لئے دریا بھی بناؤ، کبھی کوئی عقلمند دیکھا ہے جو خشکی کے بیچ میں کشتی بنائے؟

ان میں سے کچھ کہتے تھے : اتنی بڑی کشتی کس لئے بنا رہے ہو اگر کشتی بنانا ہی ہے تو ذرا چھوٹی بنالو جسے ضرورت پڑے تو دریا کی طرف لے جانا تو ممکن ہو-

ایسی باتیں کرتے تھے اور قہقہے لگا کر ہنستے ہوئے گزر جاتے تھے یہ باتیں گھروں میں ہوتیں ۔ کام کاج کے مراکز میں یہ گفتگو ہوتیں گویا اب بحثوں کا عنوان بن گئی وہ ایک دوسرے سے حضرت نوح اور ان کے پیروکاروں کی کوتاہ فکری کے بارے میں باتیں کرتے اور کہتے : اس بوڑھے کو دیکھو! آخر عمر میں کس حالت کو جا پہنچا ہے اب ہم سمجھے کہ اگر ہم اس کی باتوں پر ایمان نہیں لائے تو ہم نے ٹھیک ہی کیا اس کی عقل تو بالکل ٹھکانے نہیں ہے-

دوسری طرف حضرت نوح علیہ السلام بڑی ا ستقامت اور پامردی سے اپنا کام بے پناہ عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ ان کے ایمان کانتیجہ تھا وہ ان دل کے اندھوں کی بےبنیاد باتوں سے بےنیاز اپنی پسند کے مطابق تیزی سے پیشرفت کر رہے تھے اور دن بدن کشتی کا ڈھانچہ مکمل ہو رہا تھا کبھی کبھی سراٹھا کران سے یہ پرمعنی بات کہتے: ”اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی جلدی ہی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے-

وہ دن کہ جب تم طوفان کے درمیان سرگرداں ہوکر، سراسیمہ ہو کر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی موجوں میں گھرے فریاد کرو گے کہ ہمیں بچالو جی ہاں اس روز مومنین تمہاری غفلت اور جہالت پر مذاق اڑائیں گے- اس روز دیکھنا کہ کس کے لئے ذلیل اور رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کسے دائمی سزا دامن گیر ہوتی ہے-

اس میں شک نہیں کہ کشتی نوح کوئی عام کشتی نہ تھی کیونکہ اس میں سچے مومنین کے علاوہ ہر نسل کے جانور کو بھی جگہ ملی تھی اور ایک مدت کے لئے ان انسانوں اور جانوروں کو جو خوراک درکار تھی وہ بھی اس میں موجود تھی ایسی لمبی چوڑی کشتی یقینا اس زمانے میں بے نظیر تھی یہ ایسی کشتی تھی جو ایسے دریا کی کوہ پیکر موجود میں صحیح و سالم رہ سکے اور نابود نہ ہو جس کی وسعت اس دنیا جتنی ہو، اسی لئے مفسرین کی بعض روایات میں ہے کہ اس کشتی کا طول ایک ہزار دو سو ذراع تھا اور عرض چھ سو ذراع تھا (ایک ذراع کی لمبائی تقریباََ آدھے میڑ کے برابر ہے-)

اور بعض روایات میں یوں لکھا ہے کہ کشتی بنانے کے لئیے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار تختے نکالو ہر نبی کے نام کا ایک تختہ اور جب کشتی تیار ہوئی تو اس میں چار تختوں کی جگہ رہ گئی تو حکم ہوا کہ چار تختے ان چار یاروں کے نکالو کہ جو میرے محبوب پیغمبر اور آخری نبی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار یار اور بعد آپ کے امت کے امیر اور خلیفہ راشدین ہونگے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے؛ یہ صورت حال یونہی تھی یہاں تک کہ ہمارا حکم صادر ہوا اور عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے پانی تنور کے اندر سے جو ش مارنے لگا-

اس بارے میں کہ طوفان کے نزدیک ہونے سے تنور سے پانی کا جوش مارنا کیا مناسبت رکھتا ہے مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔

موجودہ احتمالات میں سے یہ احتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تنور اپنے حقیقی اور مشہور معنی میں آیا ہے اور ہو سکتا ہے اس سے مراد کوئی خاص تنور بھی نہ ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس سے یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہوکہ تنور جو عام طور پر آگ کا مرکز ہے جب اس میں سے پانی جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان کے اصحاب متوجہ ہوئے کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور انقلاب قریب تر ہے یعنی کہاں آگ اور کہاں پانی- بالفاظ دیگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ زیر زمین پانی کی سطح اس قدر اوپر آ گئی ہے کہ وہ تنور کے اندر سے جو عام طور پر خشک، محفوظ اور اونچی جگہ بنایا جاتا ہے، جوش مار رہا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ کوئی اہم امر درپیش ہے اور قدرت کی طرف سے کسی نئے حادثے کاظہور ہے۔ اور یہی امر حضرت نوح اور ان کے اصحاب کے لئے خطرے کا الارم تھا کہ وہ اٹھ کر کھڑے ہوں اور تیار رہیں –

شاید غافل اور جاہل قوم نے بھی اپنے گھر وں کے تنور میں پانی کو جوش مارتے دیکھا ہو بہرحال وہ ہمیشہ کی طرح خطرے کے ان پر معنی خدائی نشانات سے آنکھ کان بند کیئے گزر گئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی غور و فکر کی زحمت نہ دی کہ شاید شرف تکوین میں کوئی حادثہ پوشیدہ ہو اور شاید حضرت نوح علیہ السلام جن واقعات کی خبر دیتے تھے ان میں سچائی ہو-

بعض نے کہا ہے کہ یہاں ”تنور“ مجازی اور کنائی معنی میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ غضب الٰھی کے تنور میں جوش پیدا ہوا اور وہ شعلہ ور ہوا اور یہ تباہ کن خدائی عذاب کے نزیک ہونے کے معنی میں ہے ایسی تعبیر فارسی اور عربی زبان میں استعمال ہوتی ہیں کہ شدت غضب کو آگ کے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے-

اس وقت نوح(ع) کو ”ہم نے حکم دیا کہ جانوروں کی ہر نوع میں سے ایک جفت (نر اور مادہ کا جوڑا) کشتی میں سوار کرلو “۔ تاکہ غرقاب ہو کر ان کی نسل منقطع نہ ہو جائے-

اور اسی طرح اپنے خاندان میں سے جن کی ہلاکت کا پہلے سے وعدہ کیا جا چکا ہے ان کے سوا باقی افراد کو سوار کرلو نیز مومنین کو کشتی میں سوار کرلو-

نوح علیہ السلام کا بیٹا اور بیوی بدکاروں کے ساتھ رہے جنہوں نے راہ ایمان سے انحراف کیا اور گنہگاروں کا ساتھ دینے کی وجہ سے حضرت نوح سے اپنا رشتہ توڑ لیا وہ اس کشتی نجات میں سوار ہونے کا حق نھیں رکھتے تھے کیونکہ اس میں سوار ہونے کی پہلی شرط ایمان تھی-

اللہ کا نام لے کر کشتی پر سوار ہو جاؤ-

بہرحال حضرت نوح (ع) نے جلدی سے اپنے وابستہ صاحب ایمان افراد اور اصحاب کو جمع کیا اور چونکہ طوفان اور تباہ کن خدائی عذابوں کا مرحلہ نزدیک آرہا تھا- انھیں حکم دیاکہ خدا کے نام سے کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کشتی کے چلتے اور ٹھہرتے وقت خدا کا نام زبان پر جاری کرو اور اس کی یاد میں رہو-

بالآخر آخری مرحلہ آپہنچا اور اس سرکش قوم کے لئے عذاب اور سزا کا فرمان صادر ہوا تیرہ وتار بادل جو سیاہ رات کے ٹکڑوں کی طرح تھے سارے آسمان پر چھا گئے اور اس طرح ایک دوسرے پرتہ بہ تہ ہوئے کہ جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی پے در پے سخت بادل گرجتے خیرہ کن بجلیاں پورے آسمان پر کوندتیں آسمانی فضا گویا ایک بہت بڑے وحشتناک حادثے کی خبر دے رہی تھی-

بارش شروع ہو گئی اور پھر تیز سے تیزتر ہوتی چلی گئی بارش کے قطرے موٹے سے موٹے وتے چلے گئے- جیسا کہ قرآ ن کہتا ہے؛
”گویا آسمان کے تمام دروازے کھل گئے اور پانی کا ایک سمندر ان کے اندر سے نیچے گرنے لگا-”
دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح اس قدر بلند ہو گئی کہ ہر طرف سے پرجوش چشمے ابل پڑے، یوں زمین و آسمان کا پانی آپس میں مل گیا اور زمین، پہاڑ، دشت، بیابان اور درہ غرض ہر جگہ پانی جاری ہو گیا بہت جلد زمین کی سطح ایک سمندر کی صورت اختیار کرگئی تیز ہوائیں چلنے لگیں جن کی وجہ سے پانی کی کوہ پیکر موجیں امنڈنے لگیں اس عالم میں ”کشتی نوح کوہ پیکر موجوں کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی-

پسر نوح(ع) ایک طرف اپنے باپ سے الگ کھڑا تھا نوح(ع) نے پکارا: ”میرے بیٹے، ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ ہو ورنہ فنا ہوجاؤ گے-

پیغمبر بزرگوار حضرت نوح(ع) نے نہ صرف باپ کی حیثیت سے بلکہ ایک انتھک پر امید مربی کے طور پر آخری لمحے تک اپنی ذمہ داری سے دست برداری نہ کی، اس امید پر کہ شاید ان کی بات سنگدل بیٹے پر اثر کرجائے لیکن افسوس کہ برے ساتھی (شیطان) کی بات اس کے لئے زیادہ پرتاثیر تھی لہٰذا دلسوز باپ کی گفتگو اپنا مطلوبہ اثر نہ کر سکی، وہ ہٹ دھرم اور کوتاہ فکر تھا اسے گمان تھا کہ غضب خدا کا مقابلہ بھی کیا جاسکتا تھا اس لئے اس نے پکار کر کہا :” ابا میرے لئے جوش میں نہ آؤ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جس تک یہ سیلاب نھیں پہنچ سکتا-

نوح(ع) پھر بھی مایوس نہ ہوئے دوبارہ نصیحت کرنے لگے کہ شاید کوتاہ فکر بیٹا غرور اور خودسری کے مرکب سے اتر آئے اور راہ حق پرچلنے لگے۔ انہوں نے کہا؛ میرے بیٹے آج حکم خدا کے مقابلے میں کوئی طاقت پناہ نہیں دے سکتی، نجات صرف اس شخص کے لئے ہے رحمت خدا جس کے شامل حال ہو- پہاڑ تو معمولی سی چیز ہے خود کرہ ارض بھی معمولی سی چیز ہے- سورج اور تمام نظام شمسی اپنے خیرہ کن عظمت کے باوجود خدا کی قدرت لایزال کے سامنے ذرہ بے مقدار سے زیادہ حیثیت نھہیں رکھتا-

اسی دوران ایک موج اٹھی اور آگے آئی، مزید آگے بڑھی اور پسر نوح کو ایک تنکے کی طرح اس کی جگہ سے اٹھایا اوراپنے اندر درھم برھم کردیا؛ اور باپ بیٹے کے درمیان جدائی ڈال دی اور اسے غرق ہونے والوں میں شامل کردیا-

اے نوح علیہ السلام تمہارا بیٹا تمہارے اہل سے نہیں ہےجب حضرت نوح(ع) نے اپنے بیٹے کو موجوں کے درمیان دیکھا تو شفقت پدری نے جوش مارا انہیں اپنے بیٹے کی نجات کے بارے میں وعدہ الھی یاد آیا انہوں نے درگاہ الھی کا رخ کیا اور کہا؛ پروردگار! میرا بیٹا میرے اہل اور میرے خاندان میں سے ہے اور تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے خاندان کو طوفان اور ہلاکت سے نجات دے گا اور تو تمام حکم کرنے والوں سے برتر ہے اور تو ایفائے عہد کرنے میں محکم تر ہے-

یہ وعدہ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو سورہٴ هود میں موجود ہے جہاں فرمایا گیا ہے:

”ہم نے نوح(ع) کو حکم دیا کہ جانوروں کی ہر نوع میں سے ایک جوڑا کشتی میں سوار کرلو اور اسی طرح اپنے خاندان کو سوائے اس شخص کے جس کی نابودی کے لئے فرمان خدا جاری ہو چکا ہے-

حضرت نوح(ع) نے خیال کیا کہ ”سوائے اس کے کہ جس کی نابودی کے لئے فرمان خدا جاری ہو چکا ہے، اس سے مراد صرف ان کی بے ایمان اور مشرک بیوی ہے اور ان کا بیٹا کنعان اس میں شامل نھیں ہے لہٰذا انہوں نے بارگاہ خداوندی میں ایسا تقاضاکیا لیکن فورا ًجواب ملا (ہلا دینے والا جواب اور ایک عظیم حقیقت واضح کرنے والا جواب )”اے نوح !وہ تیرے اہل اور خاندان میں سے نہیں ہے، بلکہ وہ غیرصالح عمل ہے-

وہ نالائق شخص ہے اور تجھ سے مکتبی اور مذہبی رشتہ ٹوٹنے کی وجہ سے خاندانی رشتے کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
”اب جبکہ ایسا ہے تو مجھ سے ایسی چیز کا تقاضا نہ کر جس کے بارے میں تجھے علم نھیں ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جا-

حضرت نوح (ع) سمجھ گئے کہ یہ تقاضا بارگاہ الٰھی میں صحیح نہ تھا اور ایسے بیٹے کی نجات کو خاندان کی نجات کے بارے میں خدا کے وعدے میں شامل نھیں سمجھنا چاہئے تھا لہٰذا آپ نے پروردگار کا رخ کیا اور کہا-

”پروردگار!” میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس امر سے تجھ سے کسی ایسی چیز کی خواہش کروں جس کا علم مجھے نہیں ، اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور اپنی رحمت میرے شامل حال نہ کی تو میں زیاں کاروں میں سے ہوجاؤں گا۔

تبصرے بند ہیں۔