انسان اور زمین کی حکومت (قسط 104)

رستم علی خان

چنانچہ جمجاہ نے کہا اے نبی اللہ اس عذاب کے بعد مجھے وہاں سے نکال کر ایک درخت آتشی کے پاس اندر دوزخ میں لے گئے- اور اس درخت کا نام شجرہ زقوم بیان ہوا ہے- پس جو کوئی بھی کھانے کو مانگتا اسے زقوم کھانے کو دیا جاتا-  جب میں نے بھی کھانے کو مانگا تو مجھے بھی وہی کھانے کو دیا- پھر جب میں نے اسے تھوڑا سا چکھا تو میرا حلق بند ہو گیا- نہ وہ نیچے اترتا اور نہ ہی واپس اوپر آتا- سانس میرا اس کی وجہ سے رک گیا- اس کے کانٹوں کی وجہ سے گلے میں درد اور سوزش ہونے لگی- چنانچہ مارے درد اور سوزش کے میں چلانے لگا اور پانی کی فریاد کرنے لگا کہ مجھ کو کہیں سے گھونٹ بھر پانی دے دو کہ میں اس کو اندر ہی نگل سکوں- پس مجھے ایک لوٹا بھر کر پانی پینے کو دیا- میں نے مارے درد اور سوزش کے نہ دیکھا کہ اس کے اندر کیا ہے اور پکڑتے ہی اسے پینے لگا- لیکن ابھی ایک گھونٹ بھی نہ بھری تھی کہ میرا سارا حلق اس پانی کی تپش سے جل گیا اور جدھر جدھر کو بدن میں وہ پانی جاتا جسم کا گوشت پوست اس سے گل کر گر گیا اور ہڈیاں ٹوٹنے لگیں- اور اے نبی اللہ وہ پانی پانی نہ تھا بلکہ اہل دوزخ کا جلا ہوا گوشت چربی اور پیپ وغیرہ تھی- اور اس کی تپش سے بڑھ کر اس کی بدبو تھی کہ دماغ اس بدبو سے پھٹ جائے اور سانس بند ہو جائے- پس بعد اس کے ایک آواز ہیبت ناک آئی کہ میرا گوشت پوست دوبارہ سے ٹھیک ہو گیا اور میں جیسا تھا ویسا ہی بن گیا-

بعد اس کے میرے پاوں کے تلوے سے سر تک آگ لگ گئی اور میں پوری طرح جلنے لگا- اور پکارنے لگا کہ اے میری قوم مجھ کو کچھ پہننے کو دو کہ آتش دوزخ سے نجات پاوں اور تلوے میرے جلتے ہیں سو مجھ کو نعلین دو کہ آگ سے بچوں- تب مجھے نعلین آتشیں لا کر دئیے گئے اور پہننے کو دوزخ کی آگ کا بنا لباس دیا گیا- اے نبی اللہ جب میں نے وہ نعلین اپنے پیروں میں پہنے تو ان کی تپش اور حدت سے میرا دماغ تک کھولنے لگا اور جس طرح ہانڈی میں سالن ابلتا ہے اسی طرح میرا دماغ اس کی حدت سے ابلنے لگا اور تمام جسم کا گوشت جلنے لگا اور پانی کیطرح بہنے لگا- اور میرا مغز میرے منہ اور کان ناک سے بہہ نکلا- اور جب میں فریاد اور زاری کرتا تو ایک ہیبت ناک آواز مجھے جھڑک دیتی کہ اے بدبخت سزا اپنے عملوں کی چکھ، یہاں اب سوا عذاب دوزخ کے تجھے کچھ نہیں ملنے والا- کیونکہ تو نے دنیا میں خدا کو نہیں مانا اور اللہ کے سوا غیروں کو پوجا اور خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات کو نہ مانا اور عذاب سے نہ ڈرا اور مسلمانوں کو ایذا پنہچاتا رہا پس اب ان عملوں کی سزا یہاں بگھت اور کافروں کا یہی ٹھکانہ ہے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے- اور ایسی ایسی باتیں اور جھڑکیاں ہر وقت اہل دوزخ کو سنائی جاتی ہیں- اور اہل دوزخ کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کو سوا آگ کے دوسری کوئی چیز نہیں ہے-

اے نبی اللہ اس کے بعد مجھے ایک پہاڑ پر لے جایا گیا- اس پہاڑ کا نام سکرات ہے- لمبائی اس پہاڑ کی تین ہزار برس کی راہ ہے- اور اس کے اندر کئی کنویں آتش کے ہیں- اور جتنے عذاب اب تک مجھ پر گزرے تھے وہ سب اس پہاڑ پر پائے- اور اس میں کئی طرح کے زپریلے کیڑے اور سانپ اور بچھو تھے- اور کچھ کیڑے اس قدر ہیبت ناک تھے کہ جب وہ اپنے دانت بجاتے تو ان کی کٹاکٹ کی آواز سو برس کی راہ تک جاتی تھی- اور جب وہ اہل دوزخ کو اپنے دانتوں سے کاٹتے تو ہڈیاں تک اپنے دانتوں سے کاٹ لیتے- اور ایسے ایسے سانپ بچھو کہ جب کسی کو کاٹتے تو فورا خاک ہو جاتا یا پانی ہو کر بہہ جاتا پھر دوبارہ سے ایک ہیبت ناک آواز سے اپنی اصل حالت میں آتا اور یونہی یہ سلسلہ چلتا رہتا- اور اگر ان کے دانتوں کے زہر کا ایک قطرہ زمین پر گر جاوے تو تمام زمین جل کر خاک ہو جاوے- الغرض مجھ پر ہر روز تین مرتبہ اس پہاڑ پر سکرات موت ہوتی تھی- پس اسی وجہ سے اس پہاڑ کا نام سکرات ہے کہ جو کوئی بھی وہاں جاتا ہے بار بار موت کی تلخی کو محسوس کرتا ہے-

حضرت عیسی نے فرمایا اے جمجاہ اس کے بعد تجھ پر کیا گزرا- جمجاہ نے جواب دیا کہ اے نبی اللہ پھر مجھے اس کوہ سکرات سے نکال کر ایک پل کیطرف لیجایا گیا جس کا نام پل صراط ہے- اور وہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا بال سے باریک اور دو دھاری تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے- اور اس پل کے نیچے ایک بہتی ہوئی آگ کا چشمہ ہے- پس جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے اور گناہوں سے بچتے ہیں ان کے پاس ان کے عمال کا نور ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ اس پل کو بآسانی پار کر لیتے ہیں- چنانچہ جب مجھے اس پل پر لیجایا گیا تو میں مارے خوف کے کانپنے لگا اور میری ہمت نہ پڑی کہ اس پر قدم رکھوں- پھر مجھے پیچھے سے دروغہ دوزخ نے مجھے جھڑکی دی اور آگے بڑھنے کا حکم دیا- اس کی ہیبت ناک آواز سے میں آگے بڑھا اور قدم رکھتے ہی اس چشمہ  آتش میں جا گرا اور وہاں سے سیدھا اہل دوزخ کے پاس جا پنہچا- حضرت عیسی نے پوچھا اے جمجاہ اس چشمہ کا کیا نام ہے- تب حضرت نے پوچھا اے جمجاہ تجھ پر وہاں کیا کیا عذاب گزرے سو بیان کر-

تب جمجاہ کہنے لگا اے نبی اللہ اس چشمہ آتش میں گرتے ہی میرے جسم کا سارا گوشت اور ہڈیاں تک پگھل کر پانی بن گئیں- اور جو جو عذاب میں نے پہلے جھیلے تھے سب عذاب مجھے چھوٹے لگنے لگے اور دوزخ کا عذاب ان سب کے مقابلے عذاب اکبر تھا اور باقی تمام عذاب اصغر تھے- اے پیغمبر خدا اگر سو برس تک اس عذاب کی ہیبت کو بیان کروں تو بھی کم ہے کہ وہ اس قدر ہولناک عذاب ہے اور آگے اس میں کئی عذاب ہیں- حضرت عیسی دوزخ کے بارے سنکر بےتحاشہ رونے لگے اور اللہ سے دوزخ کے ہولناک عذابوں سے پناہ مانگنے لگے-

بعد اس کے حضرت نے پوچھا اے جمجاہ پھر تیرے ساتھ کیا معاملہ ہوا- جمجاہ نے کہا اے نبی اللہ اس کے بعد مجھے ایک کنویں کے پاس لیجایا گیا جس میں دہکتی ہوئی آگ تھی اور اس کنوئیں کی گہرائی سو برس کی مسافت ہے- اور اس میں آگ ابل رہی ہے- اور اس کنویں کے کنارے ایک تابوت آتشیں دھرا ہوا تھا- چنانچہ مجھے اس تابوت میں بند کر کے زنجیروں سے جکڑ کر اس کنویں میں ڈال دیا گیا- اور جن خداوں کی میں سوا اللہ کے پوجا کرتا تھا اور جن شیطانوں کے بہکاوے میں آ کر میں کفر و شرک اور گناہ کرتا تھا اور سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا تھا اور اپنی بادشاہت و سلطنت پر غرور کرتا تھا ان کو میرے اوپر متعین کیا گیا کہ آتشی کوڑوں سے مجھ کو ہمہ وقت مارتے رہیں اور کوئی ساعت بنا مار کے نہ گزرتی- اور مجھے کہا جاتا کہ یہی ہیں وہ جن کے بہکانے پر تو راہ راست چھوڑے ہوئے تھا اور خدا کے سوا ان کی پوجا کرتا تھا اور اب تیرا کو خیر خواہ اور پرسان حال نہیں- اور آج چار سو برس سے میں اسی تابوت میں بند ہوں- اور آج ایک آواز غیب کی آئی کہ جمجاہ کو سرراہ عیسی علیہ السلام کے ڈال دو کہ اس نے اپنی زندگی میں اچھے کام بھی کیے تھے- بہت غلام لونڈی آزاد کیے اور بھوکوں کو کھلایا اور ننگوں کو کپڑا دیا اور غریب غربا کی دیکھ کی اور مسافروں کا خیال کیا- پس اس سب کے عوض اس کو اس عذاب سے رہائی دی جائے-

تب حضرت عیسی نے پوچھا تو کس قوم سے تھا- اس نے کہا میں حضرت الیاس نبی کے زمانے میں تھا- تب حضرت نے پوچھا مجھ سے کیا چاہتے ہو- جمجاہ نے فریاد کی کہ اے نبی اللہ الامان الامان، آپ کوخدا کی قسم ہے کہ آپ اللہ سے مجھ بیچار و گنہگار کے حق میں دعا کریں کہ مجھے اس عذاب سے نجات بخشے اور دوبارہ زندہ کر کے اس دنیا میں بھیجدے میں اس کی عبادت کروں گا اور اسی سے مدد چاہوں گا تاکہ دنیا اور آخرت میں آپ ہی کا حق مجھ پر ثابت ہو-

تب حضرت عیسی نے اس کے حق اللہ سے دعا فرمائی تو ارشاد ہوا اے عیسی ہم نے روز ازل سے لکھا تھا کہ اس کو تمہاری دعا سے دوبارہ زندہ کریں گے اور عذاب سے نجات دیں گے بسبب اس کی سخاوت اور بندہ پروری اور دوستداری فقرا و مساکین کے پس اے عیسی ہم نے آپ کی دعا قبول فرمائی ان ہڈیوں کو حکم کرو تو یہ زندہ ہو جائیں گی- تب حضرت عیسی نے حکم دیا کہ "قم باذن اللہ” اٹھ جاو اللہ کے حکم سے- تب جمجاہ کی ہڈیاں تمام جمع ہوئیں پھر ان پر گوشت پوست چڑھا اور بال بنے اور اپنی اصلی ہیئت میں واپس ایک جسم کی صورت بنا اور اس میں جان آئی اور زندہ ہوا- پس جمجاہ نے زندہ ہوتے ہی حضرت عیسی کا کلمہ پڑھا اور ایمان کامل لایا- اور بعد اس کے جتنا عرصہ جئیا اللہ کی عبادت و زکر اور صیام و قیام میں گزارا اور کوئی کام دنیا کا نہ کیا اور بعد ایک مدت کے دوبارہ موت کا جام پئیا اور اللہ نے بسبب اس کی نیکیوں کے اس کی بخشش فرمائی اور جنت مقام کیا- بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے- اور یہاں تک تھا قصہ جمجاہ بادشاہ کا واللہ اعلم بالصواب

تبصرے بند ہیں۔