انسان اور زمین کی حکومت (قسط 13)

رستم علی خان

قوم عاد کے ساتھ ایک اور شخص کا تذکرہ بھی تاریخ میں ملتا ہے جس کا نام شداد لعین تھا- جس نے آسمان کی جنت کے مقابلے زمین پر جنت بنائی تھی اور نبی وقت کی بات کو نہ مانا اور اللہ کو چیلنج کیا تھا- کچھ احوال اس کے بارے بھی بیان کرتے چلیں  شداد کا شجرہ نسب یوں تھا ؛ شداد بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوحؑ۔

اکثر مورخین حضرات نے شداد لعین کا ذکر بھی حضرت ہودؑ کے ساتھ کیا ہے چونکہ وہ بھی قوم عاد سے تھا۔ اور قوم عاد ہی کی طرف حضرت ہودؑ کو بھیجا گیا تھا۔ جیسا کہ طبقات ناصری میں ہے۔ کہ شداد ایک سرکش آدمی تھا جس کا نسب یہ ہے۔ شداد بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوحؑ ۔

حقیقت یہ ہے کہ عاد کے دو بیٹے تھے۔ ایک کانام شدید اور دوسرے کا نام شداد تھا۔ اور یہ دونوں ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔ ان دونوں کا مسکن شام تھا۔ شدادکا باپ بھی بادشاہ تھا۔ جس وقت عاد نے وفات پائی تو مملکت دونوں بھائیوں کی میراث ٹھہری شدید تو تقریباً سات سو برس تک بادشاہی کر کے مر گیا۔ بعدہ شداد ملعون پوری دنیا کا مالک بن بیٹھا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ دو سو ستر بادشاہ اس کے زیر دست اور فرمانبردار تھے۔ اور اسے مال و خراج دیتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ شداد کے زیر حکم ہزار ملک اور ایک ہزار بڑے شہر تھے۔ شداد کو دین سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جہاں تک اس کی بادشاہی کا تعلق تھا اسی کا حکم چلتا تھا۔ اور شب و روز اس کو حکومت ہی سے کام تھااور وہ اسی خوشی میں خوش رہتا تھا۔ اس کے ماننے والے اگرچہ کفر و شرک میں مبتلا تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ہودؑ نے اس کو دعوت اسلام دی ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس وقت کے پیغمبر نے دعوت اسلام دی۔ یہاں میں وضاحت کر دوں کہ طبقات ناصری ، قصص الانبیاء جہانگیر بکڈپو اور تاریخ ابن خلدون میں حضرت ہودؑ کا ذکر ہے جبکہ بعض مستند کتابوں میں اس وقت کے پیغمبر کا ذکر ہے ۔ پیغمبر کا نام نہیں لکھا ۔

اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف پیغمبر بھیجا مگر وہ ایمان نہیں لایا۔ جب پیغمبر نے دعوت اسلام دی تو شداد ملعون نے کہا کہ اگر میں تیرے رب پر ایمان لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا۔ حضرت ہود ؑ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ تجھ کو اس کے عوض بہشت جاودانی عنایت کرے گا۔ اور ہمیشہ تجھ پر اپنا فضل و مہربانی مرحمت فرمائے گا۔ حضرت ہودؑ نے اس کو اچھی اچھی باتیں بتائیں جو آخر میں اسکے واسطے نجات کا سبب بن سکتی تھیں ۔ مگر اس ملعون نےان بھلی باتوں پر کچھ بھی احساس و خیال نہ کیا مزید کہنے لگا اے ہودؑ تو مجھے بہشت کی طمع دلاتا ہے میں نے بہشت کی صفت سنی ہے میں بھی اس دنیا میں مثل اس بہشت کے بہشت بناؤں گا۔ اور دن رات عیش و عشرت کروں گا۔ مجھے تیرے خدا کی بہشت کی کچھ حاجت نہیں ۔

حضرت ھود نے فرمایا کہ اگر تو نہ سمجھا تو حق تعالی تجھ پر عذاب نازل کرے گا اور تجھے کافروں والی موت دے گا- تب اس ملعون نے کہا اے ھود اگر تیرا رب سچا ہے اور وہ مجھے موت دے سکتا ہے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایسے موت دے کہ نہ دن ہو اور نہ رات ہو نہ مجھے زمین پر مارے اور نہ ہی آسمان پر- پھر اگر تو سچا ہے تو تیرا رب مجھے موت دے کے دکھائے میری مقرر کردہ شرطوں پر-

تب نبی اللہ نے جواب دیا کہ میرا کام تو حق بیان کرنا تھا جو میں نے ٹھیک ٹھیک کر دیا- اب تیرا معاملہ میں اللہ پر چھوڑتا ہوں وہ بہتر جانتا ہے تیرے انجام کے بارے اور بیشک وہ چاہے تو تجھے تیری مقرر کردہ شرائط میں موت دے سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے بہترین حکمت والا ہے۔

اس مکالمہ کے بعد اس ملعون نے اسی وقت ہر ملک کے بادشاہوں وزیروں اور اکابروں کو خطوط لکھے جو اس کے زیر تابع تھے۔اور اس میں لکھا کہ تمہارے ملک میں جس جگہ زمین ہموار اور میدان مسطح نشیب و فراز اس میں نہ ہو اس کی جلد ہم کو اطلاع دو۔ہم اس جگہ پر بہشت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اس کے بعد فوراً ہی اپنے قاصد ہر جگہ بھیجے تاکہ وہاں سے سونا چاندی اور جواہرات لیکر جلد آئیں ۔ نیز ان قاصدوں سے یہ بھی کہہ دیا کہ جتنے بھی مشک و عنبر اور مروارید ہاتھ آئیں وہ سب کے سب بہم ساتھ آویں۔

بہت شدید جستجو کے بعد خطہ عرب میں ایک قطعہ زمین جس کی مسافت چالیس فرسنگ کی تھی ملی۔ اس کے بعد فوراً امیر و امراء کو حکم ہوا کہ تین ہزار استاد پیمائش کریں اور ہر ایک استاد کے ساتھ سوسو بہترین کاریگر ہوں ۔ حکم مقرر کر دیا گیا اور سارے ملک کا خزانہ وہاں لا کر جمع کریں ۔ سونا ،چاندی ،جواہرات اور خوشبو, مشک, عنبر سب جہاں سے بھی ملیں جمع کریں ۔ اور ملک میں بکریوں کی ہڈیوں کو بطور سکہ جاری کیا۔

سب سے پہلے چالیس گز زمین نیچے سے کھود کر سنگ مرمر سے بنیاد بہشت کی رکھو چنانچہ اس کے حکم کے مطابق بنیاد درست کی گئی۔ اور اس کی دیواریں چاندی اور سونے کی اینٹوں سے اٹھائی گئیں ۔ چھت اور ستون زبر جد اور زمرد سبز سے بنائے گئے۔ اور اس پوری عمارت کے لیے “کہگل” مشک و زعفران سے تیار کی گئی۔ اور سنگریزوں کے بجائے اس میں لعل اور موتی ڈالے گئے۔ تین سو سال میں یہ عمارت مکمل ہوئی۔ درخت اس میں نصف چاندی کے اور نصف سونے کے بنائے تھے۔ اور پتیاں ان درختوں کی زمرد سبز سے جڑی تھیں ۔اور ڈالیاں اس کی یاقوت سرخ سے تھیں۔ اور میوے انواع و اقسام کے اس درخت پر لگائے تھے۔ اور بجائے خاک کے اس میں مشک و عنبر و زعفران سے پر کیے تھے۔ اور بجائے پتھر کے اس کے صحن میں موتی اور مونگا ڈالتے تھے۔ اور نہریں اس میں شیر و شراب و شہد کی جاری کی تھیں ۔ اور بہشت کے دروازے پر چار میدان بنوائے تھے۔ اور اشجار میوہ دار اس میں لگائے تھے۔ اور ہر میدان میں ایک ایک لاکھ کرسیاں سونے چاندی کی بچھی تھیں ۔ شداد نے سارے ملک کے خوبصور ت لڑکےاور لڑکیاں دیکھ کر اس میں جمع کیے کہ مانند حور و غلمان کے بہشت میں اس کی خدمت میں رہیں ۔ چالیس ہزار خزانے چاندی اور سونے کے بہشت کے خرچ کے واسطے تھے۔ وزیروں کو ہر ملک میں بھیجا کہ ورم بھر چاندی کسی ملک میں نہ چھوڑنا۔ سب اس بہشت میں لا کر جمع کرو۔

آخر یہ نوبت پہنچی کہ ایک عورت بڑھیا غریب و مسکین یتیم کہ اس کی بیٹی کے گلو بند میں ایک ورم چاندی تھی۔ ظالموں نے اسے بھی نہ چھوڑا آخر وہ لڑکی رو پیٹ کر کہنے لگی کہ میں غریب فقیرنی ہوں سوائے ایک ورم چاندی کے اور کچھ نہیں ہے لہذا یہ ایک ورم چاندی مجھ کو بخش دو۔ مگر انہوں نے کچھ نہ سنا۔ تب اس غریبہ نے خدا کی درگاہ میں فریاد کی کہ یا الہیٰ تو اس کا انصاف کر اس ظالم کے شر سے مظلوم کو بچا۔ اوراسکے بے انصافی کا تو انصاف کر اور اسے دفع کر۔یہاں تک کہ تین سو برس میں اس کا سر انجام ہوا اس کا نام اس نے “ارم ذات العماد” رکھا۔ دس برس تک کافر شداد انتظار کرتا رہا کہ اپنی بنائی ہوئی جنت دیکھے ۔ لیکن خدا کو منظور نہ تھا۔ کہ وہ اپنی بنائی ہوئی بہشت میں جاوے۔

ایک روز کمال خواہش کے اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر بہشت دیکھنے کے لیے گیا۔ مگر جب وہ بہشت کے نزدیک جا پہنچا اور اس نے اپنے غلاموں کو چاروں میدانوں میں بھیجا اور ایک غلام کو ساتھ لے کر چاہا کہ بہشت میں جائیں وہیں بہشت کے دروازے پر ایک شخص کو کھڑا ہوا دیکھا۔ اس نے پوچھا تو کون ہے اس نے جواب دیا کہ میں ملک الموت ہوں ۔ شداد نے کہا تو یہاں کیوں آیا ہے۔ ملک الموت نے جواب دیا کہ میں یہاں تیری جان قبض کرنے آیا ہوں ۔ شداد نے اس سے کہا کہ تو ذرا مجھے مہلت دے تا کہ میں اپنی بنوائی ہوئی بہشت دیکھوں ۔ ملک الموت نے کہا کہ خدا کا حکم نہیں کہ تو اپنی بنوائی ہوئی بہشت دیکھے۔ کیونکہ تجھ کو دوزخ میں جانا ہے۔ اور ملک الموت نے کہا اوپر دیکھ- جب شداد لعین نے اوپر آسمان کو دیکھا تب سورج بلکل عین درمیان تھا کہ نہ ڈھل رہا تھا اور نہ طلوع ہونے والی سمت تھا- کہ نہ دن میں تھا اور نہ رات کی جانب- اور ایک شرط پوری ہوئی کہ نہ دن کو مارنا نہ رات کو-

پھر شداد نے کہا چھوڑ میں گھوڑے سے اتروں۔ ملک الموت نے کہا نہیں۔ تب اسی حالت میں اس کا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں رہا اور دوسرا پاؤں بہشت کے دروازے پر تھا۔ اور دوسری شرط بھی پوری ہوئی کہ نہ زمین پر تھا نہ آسمان پر اور اسی حال میں جان اس کی قبض کر لی گئی۔ شداد لعین دوزخی ہوا۔ اور ایک فرشتے نے آسمان سے ایک ایسی سخت زور سے آواز کی کہ اس کے سب ساتھی اس کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔ اور تمام کے تمام دوزخ میں چلے گئے۔ اور کوئی بھی اس بہشت کو نہ دیکھ سکا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام بہشت کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔

تبصرے بند ہیں۔