انسان اور زمین کی حکومت (قسط 18)

رستم علی خان

آزر کی بیوی نے اپنے بچے کا نام ابراھیم تجویز کیا آپ کا نسب نامہ یوں بنتا ہے- ابراہیم بن تارخ بن ساروغ بن راغو بن فالح بن عابر بن شالح بن ارفحشند بن سام بن نوح علیہ السلام- قرآن میں حضرت ابرہیم کے والد کا نام آزر بیان ہوا ہے بعض مفسرین کے مطابق نام تارخ ہی تھا آزر ان کا لقب یا عرف تھا واللہ اعلم الصواب-

حضرت ابرہیم کی پرورش انہی پہاڑوں کے درمیان ہونے لگی جب ان کی ماں انہیں دیکھنے جاتی دودھ وغیرہ پلانے تو حیران ہوتیں کہ حضرت ابراہیم کے پاس شہد وغیرہ رکھی ہوتی جس سے وہ جلد ہی سمجھ گئیں کہ یہ عام بچہ نہیں ہے بلکہ یہی ہے جو نمرود کا تاج و تحت توڑے گا-

جب آپ کی عمر گیارہ سال کے قریب ہوئی تو عام بچوں کی حضرت ابراہیم کے ذہن میں بھی بہت سوال اٹھتے لیکن یہ سوال عام یا روز مرہ کی نوعیت کے نہیں ہوتے تھے بلکہ بڑی خاص نوعیت کے ہوتے- کہ اللہ تعالی نے شروع سے انہیں عقل سلیم عطا فرمائی تھی اور جوانی میں منصب رسالت عطا کیا- اسی طرح ایک بار آپ نے اپنی ماں سے جب وہ ان سے ملنے آئی تھی پوچھا کہ ماں تمہارا رب کون ہے ؟ ماں نے جواب دیا کہ تمہارا باپ یعنی آزر، پھر پوچھا اور اس کا رب ؟ تو کہا کہ اس کا رب نمرود بادشاہ، آپ نے پھر پوچھا کہ نمرود کا رب ؟ تو ماں لاجواب ہوئی اور گھر چلی آئی-

کچھ عرصے بعد حضرت ابراھیم نے رات کو غار سے باہر نکل کر دیکھا تو آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور ان میں سے ایک ستارہ ان سے الگ قطب شمال کی طرف تھا اور وہ بڑا تھا ان سے اور چمک بھی زیادہ تھی تب آپ نے اسے دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ یہ رب ہو گا کیونکہ یہ سب سے الگ ہے اور یہ بڑا ہے باقیوں سے ہر چیز میں- لیکن جب صبح کے وقت دیکھا تو وہ غروب ہو چکا تھا- تب فرمایا کہ نہیں ایسی چیز رب کیسے ہو سکتی ہے کہ جسے زوال ہو اور جس کا عروج رات کی سیاہی کے باعث ہو-
دوسری رات جب چاند دکھا تو کہا ہاں یہ ہو گا رب کیونکہ اس کی بڑائی بھی ان سے زیادہ ہے اور یہ ہے زیادہ چمکنے والا-
جب صبح ہوئی تو اسے بھی غروب پایا تو فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا کوئی رب کیسے ہو گا جس کا عروج تھوڑی دیر کا ہو اور جو جلد غروب ہو جانے والا ہو-

پھر دن کو نکلے تو آفتاب (سورج) کو دیکھا تو آنکھ دور تک دیکھنے لگی اس کی روشنی میں تو فرمایا ہاں یہی ہے میرا رب بیشک یہ بڑا ہے سب سے اور اس کا نور بھی تاحد نظر پھیلا ہوا ہے- پس جب شام ہوئی تو اس کی روشنی کم پڑھنے لگی اور بجھنے لگا-
تب فرمایا وہ رب کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کا نور دن کے ڈھلنے کے ساتھ ہی بجھنا شروع ہو جائے اور جو ایک مقرر وقت تک ضوفشاں رہے- پھر دل میں اللہ نے خیال پیدا کیا تو فرمایا کہ رب تو ایک ہے جو اس سارے نظام کو چلا رہا ہے اور جس کی ہر چیز تابع و فرمانبردار ہے۔  تب کہا کہ میں بیزار ہوں ان سے جنہیں تم زمین و آسمان میں پوجتے ہو (یعنی چاند ستارے سورج درخت آگ بت) اور شرک کرتے ہو- اور میرا اللہ تو وہ ہے جس نے ہر چیز کو جو زمین و آسمان میں ہے پیدا کیا- پھر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد آپ بحکم ربی شہر میں داخل ہوئے اور اپنے گھر گئے- تب سبھی لوگ نمرود مردود کی عبادت کرنے والے تھے اور اسے ہی معبود مانتے تھے اور وہ ظالم تھا-

ایک دن آپ نے اپنے باپ سے وہی سوال پوچھا کہ آپ کا رب کون ہے ؟ تو کہا کہ آزر کہ وہ ہمیں رزق اور خوراک دیتا ہے- آپ نے پوچھا تو پھر آزر کا رب کون ہے جو اسے دیتا ہے- تب باپ نے سوچ کر کہا کہ ہم سب کے بڑے خدا تو بت ہیں جو ہم پر رحمتیں نازل کرتے ہیں- تب آپ نے کہا کہ وہ رب کیسے ہو سکتے ہیں کہ جو بننے کے لئیے بنانے والے ہاتھوں کے مختاج ہوں- میں دیکھتا ہوں کہ تم سب صریح گمراہی میں مبتلا ہو کہ جو ایسوں کی پرستش کرتے ہو جو تمہیں کچھ نہیں دے سکتے بلکہ اپنے بننے کے لئیے تمہارے مختاج ہیں- جب کہ میرا رب تو وہ ہے جس نے اس ساری کائنات کو اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے بنایا اور وہی بندگی کے لائق ہے- بعد اس کے حضرت ابراہیم نے لوگوں کو دعوت دینا شروع کی اور سمجھانا شروع کیا کہ اللہ کے بندو اللہ سے ڈر جاو اور ان بتوں کو پوجنا چھوڑ دو یہ شیطان کے آلہ کار ہیں کہ وہ تمہیں حق سے ہٹا کر گمراہی کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے اور بیشک وہ تمہارا دشمن ہے- یہ بات سارے شہر میں پھیل گئی کہ ابراہیم نام کا ایک نوجوان ہے جو ہمارے خداوں کو جھوٹا کہتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا رب اور ہے جو ان سب سے بڑا ہے- اور یہی بات نمرود کے دربار میں بھی پنہچی تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں لانے کا حکم دیا- جب آپ وہاں پنہچے تو اس نے کہا کہ میں سنتا ہوں کہ تم ہمارے خداوں کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہو اور انہیں جھوٹا کہتے ہو اور اپنے کسی اور رب کا ذکر کرتے ہو- حضرت ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا بیشک تم جن کی عبادت کرتے ہو سوا اللہ کے میں بیزار ہوں ان سب سے- تب پوچھا اس نے کہ تیرا رب کیا کر سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے-

تب ملعون نے کہا کہ یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں اور دو قیدی طلب کئیے جن میں سے ایک کو پھانسی کی سزا ہو چکی تھی اور دوسرا رہا ہو گیا تھا- اس نے سزا والے قیدی کو رہا کر دیا اور جسے رہا ہونے والے کو وہیں مروا دیا- اور جاہل نے غلط مطلب سمجھا بات کا- تب حضرت ابراھیم نے خیال کیا کہ ایسے تو یہ زمین پر خرابی پیدا کرے گا- تب وحی ہوئی کہ اس سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ میرا رب سورج کو مشرق سے طلوع کر کے مغرب میں غروب کرتا ہے اور اگر تم رب ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق میں غروب کر دو اگر تم سچے ہو تو؛ جب حضرت ابراھیم نے ایسا کہا تو نمرود لاجواب ہوا اور کہا کہ بیشک میں ایسا نہیں کر سکتا کہ یہ میرے قبضہ قدرت میں نہیں ہے اور بعد اس کے کچھ عقل والے ایمان لائے حضرت ابراھیم پر۔ بعد اس کے حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنے گھر تشریف لے گئے آپ روززانہ کام کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے اور انہیں دین حق کی دعوت دیتے- اس سے کچھ لوگ حضرت ابراہیم پر ایمان لے آئے ۔ روایات میں ہے کہ ایک دن حضرت ابراھیم کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جب سب لوگ مر جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے تب اللہ انہیں دوبارہ زندہ کیسے کرے گا-

حکم ہوا اے ابراھیم تین الگ الگ رنگ نسل کے پرندے لو اور انہیں بولیاں سکھاو کہ تمہاری آواز کو پہچانیں- تب حضرت ابراھیم نے ایسا ہی کیا اور حکم کے مطابق جب وہ آپ کی آواز کو پہچان کر آنے لگے تو اللہ نے فرمایا کہ اب ان تینوں کو ذبح کر دو اور ان کی بوٹیاں آپس میں ملا دو- اور پھر انہیں الگ الگ تین پہاڑوں پر ڈال دو- چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا- تب حکم ہوا کہ اب جیسے انہیں بلاتے تھے یعنی جو بولیاں سکھائیں تھیں ان کے مطابق انہیں آواز دو- حضرت ابراھیم نے ایسا ہی کیا- تو دیکھا کہ ایک ہوا ان کی بوٹیوں کو اڑائے پھر رہی ہے اور دیکھتے ہی وہ الگ الگ ہوئیں اور آسمانوں میں ہی وہ جڑنے لگیں پھر ان پر کھال اور پر آئے اور پھر جان پڑی اور وہ ایسے ہی اڑتے ہوئے حضرت ابراھیم کے پاس آئے- تب فرمایا اے ابراھیم اگر ہم چاہتے تو کسی بھی قبر سے مردہ کھڑا کر کے تمہارے سامنے لے آتے لیکن ایسے بھی تمہارے زہن میں خیال رہتا کہ ممکن ہے کہ پہلے سے ہی زندہ ہو- اس لئیے ہم نے تمہیں سامنے کی مثال دی تاکہ تم یقین کرنے والوں میں سے ہو- اور بیشک ہمارے لئیے پہلے پیدا کرنا مشکل تھا یا دوسری مرتبہ اور اللہ جیسے چاہتا ہے کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے-

حضرت ابراھیم کے ساتھ جو گروہ ایمان لایا وہ لوگ اللہ کو رب مان چکے تھے اور نمرود کا انکار کر چکے تھے- نمرود نے انہیں خوراک مہیا کرنے سے انکار کر دیا- ایک دن حضرت ابراھیم خود اس کے دربار میں گئے اور اس سے خوراک کا مطالبہ کیا تو ملعون نے کہا کہ پہلے مجھے رب کہو پھر خوراک لے جاو- تب آپ واپس آئے اور ایک تھیلہ لیا اور اس میں ریت بھری اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ تو سب سے بڑا رازق ہے اور لاشک رزق دینے والا ہے- یا اللہ ہمارے لئیے اسے رزق بنا دے اور تھیلا لے کے اپنے متبعین کے پاس پنہچے اور جب اسے کھولا تو وہ آٹا تھا- اور انہوں نے کھانا بنایا اور کھا کے رب کا شکر ادا کیا-

حضرت ابراھیم علیہ السلام ساتھ ساتھ لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتے اور بتوں سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے رہے-
ایک بار ان کے یہاں میلہ لگا جو شہر سے باہر لگتا اور سبھی لوگ اس میلے میں شریک ہوتے اور اپنے خداوں کی خوشنودی کی خاطر قربانیاں دیتے اور عبادت کرتے-  تب حضرت ابراھیم کے باپ نے ان سے بھی میلے میں چلنے کو کہا تو آپ نے ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں بیمار ہوں- چونکہ وہ لوگ علم نجوم یعنی ستاروں کے علم پر یقین رکھتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ ہمیں غیب کی باتیں بتاتے ہیں اس لئیے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے یہ بات کی کہ مجھے ستارے بتا رہے ہیں کہ میں بیمار ہونے والا ہوں- اس میں علماء نے بحث کی ہے کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام بیمار نہیں تھے تو انہوں نے جھوٹ کیوں کہا جب کہ جھوٹ بولنا غلط ہے- پھر ایک نبی اللہ ہو کے ستاروں کی طرف دیکھ کے یہ بات کہی گو کہ ستاروں پر یقین کیا-

اس پر علما نے بحث کرتے ہوئے کہا ہے چونکہ حضرت ابراھیم نے ایک نیک اور بڑے مقصد کو تکمیل پنہچانے کے لئیے یہ بات کہی سو یہ جھوٹ جھوٹ بالصواب ہوا نہ کہ گناہ- اور بعض مفسرین کے نزدیک حضرت ابراھیم نے شرک بیماری کا تذکرہ فرمایا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مجھے تمہارے شرک کی بیماری پریشان کر رہی ہے-اور یہ بات ستاروں کی طرف دیکھ کر اس لئیے بیان فرمائی کہ وہ لوگ ستاروں پر یقین رکھتے تھے- واللہ اعلم الصواب-

جب وہ تمام لوگ میلے پر چلے گئے تو حضرت ابراھیم علیہ السلام ان کے بت خانوں میں گئے اور بتوں کے آگے مختلف چیزیں کھانے پینے کی رکھی ہوئی دیکھیں- اور فرمایا کہ تمہارے آگے اتنا کچھ کھانے کا پڑا ہے تو تم کھاتے کیوں نہیں- لیکن کوئی جواب نہیں ملا تو آپ نے دوبارہ فرمایا کہ تم بولتے کیوں نہیں- پھر کہا کہ بیشک گمراہ ہیں وہ لوگ جو تمہیں پوجتے ہیں سوا اللہ کے کہ تم تو اپنا بچاو بھی نہیں کر سکتے تو ان کا کیسے کرو گے- اور یہ کہہ کے کلہاڑے سے تمام بتوں کو توڑ دیا اور ایک بت کو رہنے دیا جو ان میں سب سے بڑا تھا- اور کلہاڑا اس کے کاندھے پر رکھ کر گھر تشریف لے آئے اور ویسے ہی چادر اوڑھ کر لیٹ رہے۔

بعد اس کے جب وہ لوگ میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے تمام بت ٹوٹے ہوئے ہیں اور بڑے بت کے کاندھے پر کلہاڑا رکھا ہے-
تب ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے کہ ایسا کس نے کیا ہے- تب کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ یقینا ابراہیم کا کام ہو گا کہ وہ ہمارے خداوں کے خلاف نہ صرف باتیں کرتا ہے بلکہ انہیں جھوٹا بھی کہتا ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار بھی کرتا ہے-

اُر کے کتبات میں تقریباً پانچ ہزار خداﺅں کے نام ملتے ہیں ۔ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ہر شہر کاایک خاص محافظ خدا ہوتا تھاجو رب البلد یا مہاد یوسمجھاجاتا تھا۔اُر کا رب البلد ”نَنَّار“(چاند دیوتا ) تھا۔دوسرا بڑا شہر ”لرسہ“تھا۔ اس کا رب البلد ”شماش“ (سورج دیوتا) تھا ۔ان بڑے خداﺅں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اورسیاروں میں سے تھے۔ ان دیوتاﺅں اور دیویوں کی شبیہیں بُتوں کی شکل میں بنائی گئی تھیں اورتمام مراسمِ عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔ نَنَّار کا بُت اُر میں سب سے اُونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا ۔مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اورانکی حیثیت دیوداسیوں (RELIGIOUS PROSTITUTES) کی تھی۔وہ عورت بڑی معزز خیال کی جاتی تھی جو خدا کے نام پر اپنی بکارت قربان کردے۔کم ازکم ایک مرتبہ اپنے آپ کو”راہِ خدا“ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ نجات خیال کیاجاتا تھا۔

نَنَّار محض دیوتا ہی نہ تھا۔بکثرت باغ،مکانات اور زمینیں اسکے مندر کیلئے وقف تھیں۔بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔
حضرت ابراھیم کو پیش کرنے کا حکم جاری ہوا- تاکہ سب لوگ آپ کی گفتگو سن سکیں اور آپ کو دی جانے والی سزا دیکھ سکیں- کچھ لوگ حضرت ابراہیم کو پکڑ کر نمرود کے دربار میں لے آئے- تب ملعون نے پوچھا کہ اے ابراہیم تو نے ہمارے خداوں کو کس نے توڑا ؟ حضرت ابراھیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اگر جھوٹ بولا تو ایمان جائے گا اور اگر سچ بولا تو جان جاتی ہے تب آپ نے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا؛ کہ تم اپنے بتوں سےکیوں نہیں پوچھتے کہ انہیں کس نے توڑا- انہوں نے کہا اے ابراہیم تو جانتا ہے یہ نہیں بول سکتے- تب حضرت ابراہیم نے بڑے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دیکھو اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھا ہے تو یقینا اسی نے ان کا یہ حال کیا ہو گا- تب کافر کہنے لگے کہ اے ابراہیم تمہیں علم ہے کہ یہ حرکت نہیں کر سکتے- تب فرمایا کہ جب تم جانتے ہو کہ یہ اپنے حق کے لئیے بول نہیں سکتے چل پھر نہیں سکتے اور نہ ہی اپنا بچاو کر سکتے ہیں تو کیوں ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ اپنا برا بھلا روک سکتے ہیں تو تمہاری مدد کیسے کر سکتے ہیں- تب کفار لاجواب ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیم کے اس جواب پر انہیں صدیق (سچا) کہا-

روایات میں مذکور ہے کہ دو موقع ایسے ہیں کہ جہاں دو لوگ ایسی مشکل میں پھنسے کہ سچ بولتے تو جان جاتی اور جھوٹ بولتے تو ایمان تب ان شخصیات نے ایسے جواب دئیے کہ جانو ایمان بھی بچایا اور کافر بھی لاجواب ہوئے- پہلا موقع یہ تھا حضرت ابراہیم والا اور دوسرا موقع وہ تھا جب حضرت ابوبکر صدیق نبی کریم کے ساتھ جا رہے تھے تو آپ کے چہرے پر کپڑا تھا- کافروں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ سے پوچھا کہ اے ابو بکر یہ تمہارے ساتھ کون ہے- تب سیدنا ابوبکر کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر سچ کہوں تو نبی کریم کی جان کو خطرہ ہے اور جھوٹ کہوں تو ابوبکر کے ایمان کو- تب آپ نے درمیانی راہ نکالی اور فرمایا کہ یہ تو وہ شخص ہے کہ مجھے راستہ دکھاتا ہے- کافروں نے سمجھا کہ ابوبکر دنیا کے راستے کی بات کر رہے ہیں لیکن ابوبکر نے ہدایت کے راستے کی بات کی- تب اللہ کے نبی نے ابوبکر کو صدیق کہا-

جب کافر آپ کی کسی بات کا جواب نہ دے سکے تو ایک دوسرے سے لڑنے لگے کہ تم اپنے بتوں کو اکیلا کیوں چھوڑ گئے اور کیوں کوئی پہریدار نہ چھوڑا ان کے پاس- بجائے اس کے کہ وہ لوگ سمجھتے اور راہ حق پر آتے انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ کو سخت سزا دی جائے کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہی کیا ہوا ہے اسے ہمارے خداوں سے دشمنی تھی-  تب مشورے کے بعد طے پایا کہ ابراہیم کو نعوذ بااللہ آگ میں جلایا جائے اور یہی سزا بنتی ہے ان کی ہمارے بتوں کو توڑنے کے جرم میں تاکہ وہ عبرت پکڑیں وہ لوگ بھی جن کے دلوں میں ہمارے خداوں کے خلاف بیزاری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔