انسان اور زمین کی حکومت (قسط 21)

رستم علی خان

پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو جناب ابراہیم کو اللہ نے ایک اور بڑی آزمائش سے گزارا- کہتے ہیں جب حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی تب حضرت ابراہیم کی عمر چھیاسی برس تھی- حضرت اسماعیل جب پیدا ہوئے تو اللہ نے حضرت ابراہیم کو حضرت سارہ سے اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت بھی عطا کی-  بعد اس کے جب حضرت اسماعیل کی پیدائش ہوئی تو اللہ کی طرف سے وحی نازل کی گئی کہ حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ کی پہاڑیوں پر چھوڑ آئیں-

تب مکہ مکرمہ کی وادی خشک پہاڑوں اور ریتلے میدانوں کے سوا کچھ نہیں تھی- وہاں نہ کوئی آدمی تھا نا پانی نہ خوراک یہاں تک کہ ضروریات زندگی کی کوئی بھی چیز میسر نہ تھی- جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دونوں ماں بیٹے کو چھوڑا اور ان کے پاس کجھوروں کا ایک تھیلا اور پانی کا ایک مشکیزہ رکھا- اور جب واپسی کے لئیے مڑے تو حضرت بی بی حاجرہ نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور فرمایا کہ ہمیں اس بے آب و گیاہ ویرانے میں اکیلے چھوڑ کر مت جائیں-یہاں نہ تو پانی ہے نا کوئی ہمسایہ نہ ساتھی ہم اکیلے کیسے رہیں گے اور تین مرتبہ یونہی کہا؛ تب حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ یہی حکم ہے- پوچھا کیا یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ اللہ کی طرف سے ہے- تب بی بی حاجرہ نے فرمایا تو پھر آپ بے غم ہو کر جائیں اللہ ہمیں کچھ نہیں ہونے دے گا-
جب آپ وہاں سے واپس ہوئے تو چلتے چلتے ثنیہ (گھاٹی) پر پنہچے جہاں سے وہ لوگ نظر نہیں آ رہے تھے- تب آپ نے کعبتہ اللہ کی طرف منہ پھیرا اور دعا کی-

اے رب میں نے اپنی اولاد میدان میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر میں لا بسائی ہے- اے پروردگا’ تاکہ یہ نماز پڑھیں- سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ تیری طرف جھکے رہیں- اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ تیرا شکر کریں-

حضرت اسماعیل کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور خود اس مشکیزے میں سے پانی پی لیتی تھیں- حتی کہ جب مشکیزے کا پانی ختم ہو گیا تو انہیں پیاس لگی اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی- انہوں نے اپنا لعاب دہن بچے کے منہ میں ڈالنا شروع کر دیا- لیکن گرمی کی شدت سے جلد ہی ان کے منہ سے لعاب دہن بھی ختم ہو گیا-

تب ماں کو اپنی فکر بھولی اور حضرت اسماعیل کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور تب وہ بےچینی سے اٹھیں اور ادھر ادھر پانی کے لئیے نظر دوڑائی تو انہیں سب سے قریب "صفا” کی پہاڑی نظر آئی تو ڈوڑتی ہوئ اس پر چڑھ گئیں کہ دیکھیں شائد کوئی انسان نظر آئے تو وہ مدد لے سکیں- پہاڑی پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا پھر وہاں سے دوسری پہاڑی "مروہ” کی طرف دوڑیں اور جب وادی کے نشیب میں پنہچیں تو اپنی قمیص کا دامن جو زمین سے لگتا تھا اٹھا لیا جیسے ایک پریشان حال آدمی دوڑتے ہوئے کرتا ہے- اور پھر کوہ مروہ پر چڑھ کے نظر دوڑائی کہ کوئی نظر آتا ہے- اور دوبارہ واپس کوہ مروہ کی طرف دوڑیں اور حضرت اسماعیل کی طرف بھی دیکھتی جاتیں کہ کوئی درندہ یا موذی جانور آپ کو نقصان نہ پنہچا دے-

اسی طرح دوڑتے دوڑتے سات چکر پورے کئیے تو آپ کو جہاں حضرت اسماعیل کو لٹا کے آئیں تھیں ادھر سے کسی کی آواز آئی تو حضرت حاجرہ نے خود سے کہا "چپ” اور پھر سنا آواز کو تو پکارا کہ تو نے آواز دی ہے تو تو مدد بھی کر سکتا ہے اور دوڑی ہوئی حضرت اسماعیل کے پاس واپس پنہچیں تو دیکھا کہ انہوں نے جہاں بیتابی سے ایڑیاں رگڑیں ہیں وہاں سے پانی جاری ہو رہا ہے-
تب اس کے گرد ریت سے دیواریں بنانے لگیں اور اسے خوض کی شکل دی اور چلو سے بھر بھر کر مشکیزا بھرنے لگیں جب پانی پھیلنے لگا تو آپ کو خوف ہوا کہ کہیں اس تپتی ہوئی ریت میں جذب ہو کر پانی ختم نہ ہو جائے تب اسے حکم دیا "زمزم” ٹھہر جا اور وہیں اس خوض میں ٹھہر گیا- تب حضرت حاجرہ نے بھی پئیا اور حضرت اسماعیل کو بھی پلایا- پھر ایک فرشتہ آیا اور حضرت بی بی حاجرہ سے کہا کہ آپ غم نہ کریں یہاں اللہ کا گھر بیت اللہ بنے گا جسے یہ بچہ اور اس کے والد (حضرت ابراہیم علیہ السلام) مل کر بنائیں گے پس اللہ اپنے لوگوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔

اس وقت بیت اللہ کی زمین ایک بلند ٹیلے کی صورت تھی سیلاب کا پانی آتا تو دائیں بائیں سے گزر جاتا- اسی طرح وقت گزرتا رہا؛ یہاں تک کہ بنو جرہم کا ایک قبیلہ وہاں سے گزرا- وہ کداء کی طرف سے آئے اور مکہ کے نشیبی حصہ میں ٹھہرے، انہیں اپنے سر پر ایک پرندہ منڈلاتا ہوا نظر آیا تو کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر منڈلاتا ہے اور ہم تو جب یہاں سے گزرتے ہیں یہاں پانی نہیں ہوتا-
انہوں نے دو آدمیوں کو حقیقت معلوم کرنے کے لئیے بھیجا تو انہوں نے آ کر بتایا کہ وہاں پانی ہے- تب وہ لوگ زمزم کے پاس گئے تو وہاں حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو دیکھا- تب انہوں نے اجازت چاہی کہ کیا ہم یہاں خیمہ زن ہو سکتے ہیں ؟

حضرت بی بی حاجرہ نے کہا کہ ااجازت ہے لیکن پانی کی ملکیت پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا- یہ اس لئیے کہا تاکہ تمام مخلوقات آزادانہ پانی پی سکیں- عربوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے جن لوگوں کے پاس پانی کے کنوئیں ہوتے تھے وہ پانی فروخت کیا کرتے تھے اس لئیے حضرت حاجرہ نے باور کروا دیا کہ یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو گا-

انہوں نے کہا ٹھیک ہے- بعد اس کے انہوں نے اپنے اپنے گھر والوں کو بھی وہاں بلا لیا اور وہاں کافی سارے گھر بس گئے- آب زمزم کے خوض کو بڑھا کر دیا گیا تاکہ سب آسانی سے پانی لے سکیں اور جانوروں کے لئیے بھی پانی بھرا جا سکے اور اس کے گرد پتھروں کے کنارے بنا کے اسے ایک بڑے خوض کی شکل دے دی گئی-

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اللہ تعالی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحمت نازل فرمائے کہ اگر وہ زمزم کو بہنے دیتیں یا فرمایا اگر اس سے چلو نہ بھرتیں تو وہ ایک بہتے چشمے کی صورت اختیار کر لیتا-حضرت اسماعیل وہیں رہے اور بنو جرہم کے لوگوں سے عربی زبان سیکھی اور باقی علوم بھی سیکھنے لگے-

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر نناوے برس ہوئی اور تب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ برس تھی ایک رات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر تین مہمان آ گئے انبیاء کا وصف مہمان نوازی ہوتا ہے حضرت ابراہیم نے تھوڑی دیر بعد ان کے آگے ایک بھنا ہوا بچھڑا گائے کا لا کر رکھا تو دیکھا کہ وہ کھانے کو ہاتھ نہیں لگا رہے تو آپ کو خوف محسوس ہوا ان کو اجنبی جان کر- تب انہوں نے کہا کہ خوف نہ کریں ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور قوم لوط کی طرف آئے ہیں- تاکہ انہیں ہلاک کر دیں-(واضح رہے کہ قوم لوط کا واقع حضرت ابراہیم کی زندگی میں ہوا تھا جس کا تذکرہ آگے آئے گا ان شآء اللہ…ابھی اسے اس لئیے چھوڑ دیا کہ دو قصوں کو ایک ساتھ بیان کرنے سے سمجھنے میں مشکل درپیش ہو سکتی ہے)

حضرت سارہ جو اس وقت ان کے پاس کھڑی سن رہی تھیں کافروں کے انجام کے بارے سن کر خوشی سے ہنس پڑیں- حضرت سارہ ایک مومن عورت تھیں اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں اور ان سے دشمنی رکھنے والوں کے انجام ہلاکت کا جان کر جب خوش ہوئیں اور ہنسیں- تب انہوں نے آپ کو ایک بیٹے اسحق کی خوشخبری دی اور اسحق سے بیٹے یعقوب کی بشارت بھی دی-
روایات میں ہے کہ جب وہ تین فرشتے آئے (جو کہ حضرات جبرائیل و میکائیل، اسرافیل علیہم السلام تھے) تو حضرت ابراہیم نے باوجود اس کے کہ انہیں نہیں جانتے تھے ان کی تواضع کے لئیے اپنے گایوں کے ریوڑ میں سے ایک زبردست موٹے صحت مند بچھڑے کو ذبح کیا اور اسے بھون کر ان کے سامنے کھانے کو لا رکھا- اور جب دیکھا وہ نہیں کھاتے تو خوف محسوس کیا- اور تورات میں مذکور ہے کہ انہوں نے کھایا لیکن علماء کا بیان ہے کہ چونکہ فرشتوں میں کھانے کی خواہش نہیں پائی جاتی سو بس وہ ہاتھ منہ تک لے جاتے جبکہ کھانا ہوا میں غائب ہو جاتا اس وجہ سے حضرت ابراہیم کو خوف محسوس ہوا-

پھر جب انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور مقصد بیان کیا تو حضرت سارہ کو خوشی ہوئی کافروں کی ہلاکت پر- تب بحکم ربی انہیں ان کی ان دو باتوں کے لئیے اللہ نے اولاد کی بشارت دی اور پھر اس کی اولاد کی بشارت بھی سنائی- چونکہ آپ کو اولاد کا غم تو تھا کہ ایک بیٹا جو اللہ کے حکم پر مکہ مکرمہ چھوڑ آئے تھے اور اس کے بارے خبر بھی نہ تھی اور حضرت سارہ کو بھی اولاد نہ ہونے کا غم تھا-

لیکن جب فرشتوں نے آپ دونوں کو یہ بشارت سنائی تو حضرت ابراہیم نے پوچھا کیا یہ اللہ کی طرف سے ہے، فرشتوں نے عرض کی جی اللہ کی طرف سے ہی ہے- تب آپ نے شکر ادا کیا؛ لیکن حضرت ابراہیم کی بیوی حضرت سارہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اپنا منہ سر پیٹ لیا اور کہنے لگیں کہ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ میں بوڑھی بانجھ ہو چکیں ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے ہیں اب تو ہماری ہڈیوں میں دم نہیں رہا اب اللہ ہمیں کیسے اولاد سے نوازے گا ؟

تب فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کی قدرت پر تعجب کرتی ہو ؟ اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں بیشک وہ ہر تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔