انسان اور زمین کی حکومت (قسط 26)

 رستم علی خان

حضرت یعقوب علیہ السلام نے مزید سات سال کا عرصہ بکریاں چرائیں اور اس طرح آپ کا نکاح دونوں بہنوں سے ہو گیا-
اس وقت کی شریعت کے مطابق یہ جائز تھا اور ایسا تورات کے نزول تک ہوتا رہا- اب شریعتِ محمدیہ میں کوئی بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اور قرآن مجید چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے اور اسمیں کسی وقت بھی کوئی ترمیم و تنسیخ نہیں ہو سکتی۔ غرض حضرت یعقوب علیہ السلام کی کل بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں، روبیل، شمعون، لاوی، یھودا، دان، نیفتالی، جاد، اشیر، ایساخر، زاہلون، یوسف اور بنامین۔ اور ایک بیٹی بھی تھی جسکا نام دینا تھا۔ ان میں سے یوسف علیہ السلام اور بنیامین "راحیل ” کی اولاد تھے۔

لیہ اور راحیل کے علاوہ زلفا اور بلہا بھی آپ کے حلقہ زوجیت میں آئیں۔ مؤخر الذکر دونوں ازدواج پہلی بیویوں کی خالہ زاد تھیں۔ تورات کے باب پیدائش میں ازدواج اور اولاد سے متعلق تفصیل اس طرح ہے کہ پہلے لیہ سے چار بیٹے تولد ہوئے اور راحیل سے کوئی اولاد نہ تھی۔ تب راحیل نے اپنی کنیز بلہا آپ کی زوجیت میں دے دی۔ جن سے دو بیٹے تولد ہوئے۔ اس دوران لیہ سے مزید اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے بھی اپنی کنیز زلفا کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے حلقہ زوجیت میں دے دیا۔ ان سے بھی دو بیٹے ہوئے اس کے بعد لیہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ آخر میں راحیل سے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹے تولد ہوئے یہ دونوں بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی بن یامین تھے۔ اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے ۱۲ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب سے چھوٹے فرزند بن یامین کے علاوہ تمام اولاد فِدان اِرام میں پیدا ہوئی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے ماموں’’لابان‘‘ کے پاس سے جب فلسطین واپس آئے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بہت سا مال و متاع دے کر رخصت کیا۔ بن یامین کی پیدائش فلسطین میں ہوئی۔ واللہ اعلم الصواب

اللہ پاک نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بہت مال اور اولاد سے نوازا اور پھر وہ اپنے مال اور آل اولاد کےساتھ اپنے علاقے کنعان کیطرف واپس لوٹے لیکن انکے دل میں اب بھی وہ خیال تھا کہ شاید حضرت عیصؑ کا غصہ نہ گیا ہو اور وہ مجھکو مار ڈالے ۔ اتفاقا” حضرت عیص علیہ السلام بھی شکار کو نکلے ہوۓ تھے اور راستے میں ہی ملاقات ہو گئی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے قافلے کو سمجھا دیا تھا کہ اگر انکا بھائی پوچھے کہ یہ مال مویشی اور قافلہ کسکا ہے تو کہہ دینا کہ عیص کا ایک غلام ہے جسکا نام یعقوب ہے یہ سب اسکا ہی ہے اور خود وہ قافلے میں چھپ گئے۔ جب بکریوں کے ساربان حضرت عیصؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ بکری خانہ کسکا ہے اور انہیں وہی جواب ملا جو حضرت یعقوب علیہ السلام نے سمجھا رکھا تھا یہ سن کر وہ آبدیدہ ہو گئے اور کہنے لگے یعقوب میرا غلام نہیں میرا بھائی ہے اور مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ سنا تو ان کے دل سے ڈر جاتا رہا اور وہ سامنے آ کر اپنے بھائی سے بغل گیر ہوۓ اور پھر گھر تشریف لاۓ۔

جب اللہ پاک نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو پیغمبری عنایت فرمائی تو کنعان میں بہت مخلوق خدا پر ایمان لائی اور ہدایت پائی عیصؑ کو بھی انکی پیغمبری کی دلیل پہنچی اور انکو بھی اسکا یقین ہو گیا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کیساتھ کنعان میں بودوباش اختیار کی اور حضرت عیصؑ یہاں سے رخصت ہو کر اس جگہ پہنچے جسے آج روم کے نام سے جانا جاتا ہے انکے ایک بیٹے کا نام روم تھا اور یہ بستی اسی کے نام سے آباد ہوئی انہوں نے وہیں جا کر انتقال فرمایا ، انکی اولاد میں سے حضرت ایوب علیہ السلام کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہوا اور باقی تمام پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہوۓ۔

قرآنِ حکیم میں آپ کے جلیل القدر نبی ہونے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ آپ اہلِ کنعان کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ محققین کے مطابق آپ کے زمانے میں کنعان کا بادشاہ سلجم ابنِ دارا تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے سلجم اور اس کی قوم کو حق و معرفت کی راہ اپنانے کی دعوت دی۔ لیکن سرکشوں نے اسے قبول نہ کیا اور بالآخر وہ لوگ زلزلے کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو گئے۔
قرآنِ حکیم میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ’’اَسباط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے (سورۃ آلِ عمران – 84)۔

سبط اس درخت کو کہتے ہیں، جس کی بہت سی شاخیں ہوں۔ قبائل بنی اسرائیل کی ابتداء آپ کی اولاد سے ہوئی اور بنی اسرائیل میں انبیاءؑ کا جو سلسلہ قائم ہوا وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے۔ لفظ ’’اَسباط‘‘ اسی طرف اشارہ ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک سو سینتالیس برس کی عمر میں مصر میں وفات پائی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے آپ کے جسد خاکی آپ کی وصیت کے مطابق کنعان لے جا کر حضرت سارہؓ حضرت ربقہ اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت تھی اور بعد ان کے چھوٹے بھائی بنیامین سے اور یہ دونوں آپ کی دوسری بیوی راحیلہ کی اولاد تھے اور سب سے چھوٹے بھی تھے-

حضرت یوسف علیہ السلام كے واقعہ كو بیان كرنے سے پہلے چند چیزوں كا بیان كرنا ضرورى ہے:

بے ہدف داستان پردازوں یا پست اور غلیظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ایک عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت یوسف علیہ السلام او ران كے واقعات كے حقیقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،یہاں تک كہ انھوں نے اسے ایک رومانى فلم بنا كر پردہ سیمیں پر پیش كرنا چاہا ہے ،لیكن قرآن مجید نے كہ جس كى ہر چیز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظر سے پیش كرتے ہوئے اعلى ترین عفت وپاكدامنی، خوداری، تقوى ،ایمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہیں اس طرح سے كہ ایک شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سكتا۔

اسى بنا پر قرآن نے اسے ”احسن القصص” (بہترین داستان) جیسا خوبصورت نام دیا ہے اور اس میں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتیں بیان كى ہیں۔

جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے کئی بیٹے تھے جن میں سے آپ کو حضرت یوسف اور ان کے بھائی بنیامین سے سب سے زیادہ محبت تھی- اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ دونوں بیٹے آپ کی عزیز از جان بیوی حضرت راحیلہ سے تھے- اور دوسرا حضرت یوسف بے انتہا حسین اور خوب صورت تھے، دوسرے چھوٹے ہونے کی وجہ سے باپ کو بہت ہی پیارے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کسی وقت بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔

آپ کے حسن و جمال کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حسن کو تین حصوں میں بانٹا ایک حصہ یوسف علیہ السلام کی والدہ کو عطا فرمایا- ایک حصہ خود حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا کیا اور باقی کا ایک حصہ حسن پوری کائنات میں بانٹا-

حضرت یوسف ابھی بچے ہی تھے کہ انہوں نے ایک رات خوب دیکھا کہ وہ ایک سونے کے بنے تحت پر بیٹھے ہیں اور آسمان سے گیارہ ستارے اور چاند سورج اتر کر انہیں سجدہ کر رہے ہیں- اس بارے میں مفسرین کرام کی محتلف آراء ہیں کہ تب آپ کی عمر سات سال تھی بعض نو کہتے ہیں اور بعض کے مطابق گیارہ سے بارہ سال تک تھی- واللہ اعلم الصواب-

آپ نے صبح اٹھ کر اپنے باپ سے اس خواب کا تذکرہ کیا یہ خواب سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام بہت خوش ہوئے چونکہ آپ خواب کی تعبیر سے آگاہی پا چکے تھے کہ میری تمام اولاد میں سے اللہ تعالی یوسف کو بڑا مرتبہ اور منصب نبوت عطا فرمانے والا ہے- لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ اس وجہ سے فکر مند بھی ہوئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے بھائیوں میں سے کسی کو اس بارے خبر ہو جائے اور شیطان اسے بہکائے اور وہ یوسف کو نقصان نہ پنہچا دیں- چنانچہ آپ نے حضرت یوسف کو سختی سے منع کردیا کہ اپنے اس خواب کا تذکرہ کسی اور سے نہ کرنا اور اپنے دوسرے سوتیلے بھائیوں کو تو یہ خواب بلکل بھی نہ سنانا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر تجھے کوئی نقصان پہچا دیں اور شیطان تو انسان کا ہے ہی کھلا دشمن- اور بعد اس کے آپ حضرت یوسف علیہ السلام سے اور بھی زیادہ محبت و شفقت سے پیش آنے لگے اور ان کے بارے زیادہ فکرمند رہنے لگے-

ادھر بھائیوں نے جب دیکھا کہ باپ کا پیار یوسف سے بہت بڑھ رہا ہےجب کہ ہم لوگ ایک مضبوط جماعت ہیں اور بڑے بھی ہیں باپ کو تو یہ چاہئیے کہ ہم سے زیادہ محبت کرے کہ ہم اس کے سارے کام کرتے ہیں اس کے مال مویشی اور زمین عراضی سب سنبھال رہے ہیں- مانا کہ یوسف چھوٹا اور پیارا ہے لیکن ایسی بھی کیا بات کہ ہمارا باپ ہم پر توجہ ہی نہیں دیتا اور نہ یوسف کو ہی ہم سے کھیلنے دیتا ہے- اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا باپ غلط کرتا ہے-

اور پھر لگے سوچنے کہ کوئی ایسی تدبیر ہاتھ آئے کہ ہمارا باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے- تب ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ایسا تو ایک ہی صورت ممکن ہے کہ یوسف یہاں نہ رہے کیونکہ جب تک وہ موجود ہے ہمارا باپ اسی سے زیادہ محبت و شفقت رکھے گا-

تب انہوں نے پوچھا کہ اس کا کیا حل کیا جائے- تب ایک نے مشورہ دیا کہ ایسا کرو کہ یوسف کو قتل کر دو بعد میں ہم باپ سے بہانہ کر دیں گے اور اللہ سے بھی توبہ کر لیں گے اور اپنے گناہ کی معافی طلب کر لیں گے- تب دوسرا بولا کہ نہیں نہیں یہ سراسر غلط بات ہے ہم کسی کا ناحق خون نہیں بہا سکتے بیشک ہم ایک مضبوط جماعت ہی کیوں نہ ہیں لیکن ہم اللہ کے قہر سے ہر گز نہیں لڑ سکیں گے اگر وہ نازل ہو گیا تو اور یقینا اس کا قہر بڑا بھاری ہو گا- تو تم یوں کرو کہ یوسف کو کہیں چھوڑ آو جہاں سے وہ واپس نہ آ سکے یا اسے کسی کنوئیں میں پھینک دو تاکہ کوئی قافلہ اسے نکال کر یہاں سے دور لے جائے اور باپ سے کوئی بہانہ کر دینا تو بس ایسا کرو اگر کرنا ہی ہے تو اس سے تمہاری یوسف سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور تم کسی ناحق کو مار کر ظالم کہلانے سے بھی بچ جاو گے- تب ان سب نے اس بات سے اتفاق کیا اور حضرت یوسف کو اپنے ساتھ اکیلے باہر لے جانے کی تدبیر کرنے لگے۔

بعد اس کے تمام بھائی اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ابا جان ہم دیکھتے ہیں کہ آپ یوسف کو کہیں جانے نہیں دیتے اور نہ ہی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے دیتے ہیں- اور ہمیں لگتا ہے کہ وہ گھر میں اکیلا اکتا جاتا ہو گا کہ نہ تو کوئی کھیلنے والا اس کے ساتھ اور نہ دل بہلانے کا کوئی سامان اس لئیے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے چھوٹے بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ باہر بھیجیں تاکہ وہاں کھیلے اور مزے کرے اور ہمارے ساتھ بھاگے دوڑے جیسے ہم ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں- اور طرح طر کے میوے کھائے اور ان پرندوں کا بھنا ہوا گوشت کھائے جو ہم شکار کرتے ہیں- اسے اچھا لگے گا اور خوشی محسوس کرے گا-

تب حضرت یعقوب نے فرمایا کہ نہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم کھیل کود میں اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے میں مصروف ہو جاو اور اسے کوئی بھیڑیا اٹھا کر نہ لے جائے اور وہ ابھی بچہ ہے اپنا دفع بھی نہیں کر سکتا- اور نہ ہی میں اسے خود سے دور کرنے کا حوصلہ پاتا ہوں- (ایسا اس لئیے کہا کہ وہ لوگ یہی بہانہ کرنے والے تھے)

انہوں نے کہا ابا جان آپ دیکھتے ہیں کہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں اور اگر ہمارے ہوتے ہوئے کوئی بھیڑیا ہمارے چھوٹے بھائی کو اٹھا کر لے جائے تو ہم تو صریح گھاٹے میں ہیں- (یعنی اگر ہم بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھیڑیا یوسف کو لے جائے تو ہمارا ہونا کس کام کا اور ہماری طاقت اور ایکتا کیسی پھر تو گویا ہم مرے ہووں میں شمار ہوں گے)

حضرت یعقوب نے فرمایا نہیں میں یوسف کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا-

چانچہ وہ اس طرف سے مایوس ہو کر لوٹے اور سوچنے لگے اب کیا کریں- تب ایک صلاح گو نے صلاح دی کہ ابا جان یوسف کی بات ہر گز نہ ٹالیں گے پس اگر کسی طرح یوسف کو راضی کر لو تو پھر ممکن ہے جو تم سوچ رہے ہو ہو جائے-

تب وہ حضرت یوسف کے پاس گئے اور بڑے پیار سے کہا کہ اے برادر عزیز کیا تم گھر میں اکیلے تنگ نہیں ہو جاتے تم کل صبح کو ہمارے ساتھ میدانوں میں چلنا وہاں بڑے مزے ہوتے ہیں- وہاں ہم بہت سے کھیل کھیلتے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہیں- درختوں پر چڑھتے ہیں اور کئی مزے مزے کے کھیل کھیلتے ہیں- جب بھوک لگتی ہے تو بھیڑوں کا دودھ دوہتے ہیں ساتھ میں کبھی وہاں کے درختوں سے قسم قسم کے میوے اتار لیتے ہیں کبھی پرندوں کا شکار کر کے بھون لیتے ہیں اور کبھی جھیل سے مچھلیاں شکار کرتے ہیں- الغرض ہر وہ بہلاوہ جس سے بچے بہل سکتے ہیں انہوں نے حضرت یوسف کو دیا-

حضرت یوسف نے کہا کہ میرا بھی بہت دل کرتا ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ جاوں لیکن ابا جان ہر گز اجازت نہ دیں گے- بھائیوں نے کہا کہ اگر تم ابا جان سے اجازت طلب کرو گے اور ضد کرو گے تو یقینا وہ تمہیں ہمارے ساتھ بھیج دیں گے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابا جان تم سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور تمہاری بات سے انکار نہ کریں گے-

چنانچہ حضرت یوسف نے حضرت یعقوب سے اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے کیوں مجھے آزمائش میں ڈالے جاتا ہے- مجھے ڈر ہے کہ کوئی چیز تمہیں نقصان نہ پنہچا دے اور پھر میں تمہارے بنا شام تک کا وقت کیسے کاٹوں گا- لیکن حضرت یوسف کی ضد کے آگے مجبور ہوئے اور جانے کی اجازت دے دی-

روایات میں مذکور ہے کہ حضرت یعقوب نے خود حضرت یوسف کو تیار کیا انہیں اچھے کپڑے پہنائے اور پوری طرح سے تیار کر کے بھیجا اور بار بار آپ کی پیشانی چومتے اور ہدایات کے طور پر فرمایا کہ اپنے بھائیوں سے دور نہ جانا اور ساتھ ساتھ رہنا کہ کوئی چیز تمہیں نقصان نہ پنہچا دے-

الغرض جب آپ وہاں پنہچے تو بھائیوں نے آپ کو مارنا شروع کر دیا اور لگے تھپڑ مارنے آپ کے گالوں پر اور رخسار سرخ ہو گئے اور بدزبانی کرنے لگے (گالیاں دینے لگے) حضرت یوسف بچے تھے سو اپنے بھائیوں کا یہ رویہ دیکھ کر رونے لگے اور اپنا قصور پوچھنے لگے کہ اے میرے بھائیو! بھلا مجھے کیوں مارتے ہو اور کیوں اس طرح کرتے ہو میں تو بےقصور ہوں اور تمہارے ساتھ کھیلنے اور مزے کرنے آیا ہوں-

تب وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں اس لئیے لائے ہیں کہ تمہیں کہیں دور پھینک آئیں کیونکہ تمہاری وجہ سے ابا جان ہم سے وہ محبت نہیں کرتے جس کے حقدار ہم ہیں اور وہ صرف تمیی سے پیار کرتے ہیں اور ہم تو تم سے بس جان چھڑانا چاہتے ہیں-
تب آپ اپنے ابا جان حضرت یعقوب کو یاد کرنے لگے اور انہیں پکارنے لگے (جیسے عموما بچے خوف و ہراس کے عالم میں کرتے ہیں) تب وہ اور بھی بری طرح آپ کو مارنے پیٹنے لگے یہاں تک کہ آپ کے خون نکلنے لگا- بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے

سب سے بڑے بھائی نے چاقو نکال لیا جس سے وہ شکار کو زبح کرتے تھے اور حضرت یوسف کو قتل کرنے کا قصد کیا-
تب ان میں سے ایک نے انہیں ان کا عہد یاد کروایا کہ کیا تم بھول گئے کہ تم نے کیا عہد کیا تھا اور کیا تم شمار ہونا چاہتے ہو ظالموں میں کسی کو ناحق قتل کر کے- سو پس وہی کرو جس کا ارادہ تھا اور اسے کسی کنوئیں میں ڈال دو تاکہ کوئی قافلہ اسے نکال کر یہاں سے دور لے جائے تو تمہیں تمہارا مقصد بھی حاصل ہو جائے گا کہ یوسف سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی اور تم قاتل کہلانے سے بھی بچ جاو گے-

چنانچہ سب نے اس بات پر اتفاق کیا اور حضرت یوسف کے کپڑے اتار کر ان کے آزار بند سے ان کے ہاتھ باندھے اور انہیں قریب کے ایک کنوئیں میں پھینک دیا۔

تبصرے بند ہیں۔