انسان اور زمین کی حکومت (قسط 30)

رستم علی خان

 حضرت یوسف نے بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں بتایا کہ وہ ان کے بھائی ہیں اور بھائیوں کے مکر و فریب سے انہیں کنوئیں میں پھینکنے اور مصر تک پنہچنے کے متعلق بتایا اور انہیں اس کا زکر اپنے دوسرے بھائیوں سے کرنے سے منع کیا کہ وہ یوسف علیہ السلام ہیں۔

جب ان کے جانے کا وقت قریب ہوا تو حضرت یوسف نے چاہا کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس ہی روک لیں اور انہیں دوسرے بھائیوں کے ساتھ نہ جانے دیں – لیکن مصر کے اس وقت کے قانون کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام بنا کسی وجہ کے بنیامین کو اپنے پاس نہ رکھ سکتے تھے لیکن وہ اسکے ساتھ رہنا چاہتے تھے- چنانچہ اللہ پاک کے حکم سے انہوں نے ایک تدبیر اختیار کی اور نوکروں سے کہہ کر بنا کسی کو پتا چلے اپنا پانی پینے کا خاص پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا۔ یہ خاص پیالہ تھا جس سے آپؑ پانی پیتے تھے اور اسی سے ماپ کر لوگوں کو غلہ بھی دیتے تھے۔

آپ نے وعدے کے مطابق انہیں اس بار پہلے کی نسبت زیادہ غلہ دیق اور سرمایہ بھی نہ لیا اور مہمان نوازی بھی پہلے سے بڑھ کر کی- بعد اس کے جب وہ روانہ ہو گئے اور ابھی شہر سے دور نہ گئے تھے کہ انہوں نے اپنے پیچھے آواز سنی کہ کوئی انہیں پکار رہا ہے جب دیکھا تو وہ شاہ مصر حضرت یوسف کے سپاہی تھے- جب وہ ان کے قریب آئے تو کہنے لگے کہ اے قافلے والو تم تو چور ہو- انہوں نے پوچھا کہ یہ تم بھلا کیا کہتے ہو ہم کیونکر چور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہم چوری کرنے والے نظر آتے ہیں – سپاہیوں نے کہا بلاشبہ تمہی چور ہو اور تم لوگ بادشاہ کا خاص پیالہ چرا لاۓ ہو اور ہم تلاشی لینے آۓ ہیں ۔ یہ الزام سن کر وہ لوگ حیران رہ گئے اور کہا کہ خدا گواہ ہے کہ ہم ملک میں فساد برپا کرنے نہیں آۓ اور نہ ہی چوری کی ہے ہم تو قحط کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور ہمارا مقصد صرف اناج حاصل کرنا ہے تم بیشک تلاشی لو اگر کسی نے ایسی حرکت کی تو اسکے ساتھ جو چاہے سلوک کرو- حضرت یوسف چونکہ کنعان کے قانون سے واقف تھے سو انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ ہم تمہارے مطابق اسے سزا دیں گے سو تم بتاو اگر تم میں سے کوئی چور ہوا تو اس کی کیا سزا مقرر ہو-؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو چوری کرنے والا ایک سال تک اس کا غلام رہے گا جس کی اس نے چوری کی ہو گی اور وہ اس سے جیسا چاہے سلوک کرے اور ہمارے یہاں تو جو چوری کرے اس کے لئیے یہی سزا مقرر ہے-

چنانچہ انہوں نے ترکیب کے مطابق پہلے دوسرے سب بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی اور آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں سے پیالہ ڈھونڈھ نکالا- اور یوں گویا ہوئے کہ لو دیکھو پیالہ تمہارے بھائی کے سامان سے مل گیا- تب انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اس نے چوری کی ہو اور اس سے پہلے اس کے دوسرے بھائی نے بھی چوری کی تھی- اس کے بارے روایت ہے کہ حضرت یوسف جب چھوٹے تھے تو اپنی پھوپھی کے پاس رہتے تھے- جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو آپ کے والد حضرت یعقوب نے چاہا کہ آپ کو اپنے پاس رکھیں جب آپ حضرت یوسف کو لینے گئے تو آپ کی پھوپھی نے حیلے کئیے لیکن جب حضرت یعقوب نہ مانے تو اس نے حضرت ابراہیم کا آزار بند (جو ورثے میں اس کے حصے آیا تھا) حضرت یوسف کی کمر سے باندھ کر بھیج دیا- بعد میں آ کے کہا کہ یوسف چور ہے اس نے میرے گھر چوری کی ہے- اور تلاشی لے کر آپ کی کمر سے وہ آزار بند نکال لیا- اور ان کے قانون کے مطابق جناب یوسف کو ایک سال کے لئیے مزید اپنے پاس رکھنا چاہا- یہ الگ بات کہ وہ ایک سال کی مدت سے پہلے انتقال کر گئیں تو حضرت یوسف اپنے والد کے پاس آ گئے-

الغرض جب وہ لوگ جناب بنیامین کو گرفتار کرنے لگے تو بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑی عمر کے شخص ہیں اور اس سے بہت پیار کرتے ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اسے جانے دیں ۔ کہ وہ پہلے ہی اس کے ایک بھائی کے صدمے سے نابینا ہو چکے ہیں اب کہیں اس صدمے سے ایسا نہ ہو کہ ہم انہیں کھو بیٹھیں کہ ہم تو پہلے ہی بڑی مشکل سے اور پکے عہد کے بعد انہیں لائیں ہیں اور ہم آپ کو رحم اور مہربانی کرنے والا دیکھتے ہیں پس ہمارے ساتھ رحم والا معاملہ کیا جائے اور ہم تمام کے تمام بھائی جو کہ ایک بڑی جماعت ہیں اس کی سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔

تب حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ میں نا انصافی کرنے والوں میں سے نہیں اور اگر میں اس کی بجاۓ کسی اور کو گرفتار کرونگا تو یہ ناانصافی ہو گی اور بے گناہ کو پکڑیں گے تو یہ ظلم ہو گا۔ پس جس نے جرم کیا ہے سزا بھی وہی بھگتے گا-
بعد اس کے تمام بھائی فیصلہ کرنے لگے کہ ہم نے اپنے والد سے پکا عہد کیا ہے کہ بنیامین کو ساتھ لئیے بنا واپس نہ آئیں گے اور اللہ کو گواہ رکھ کر یہ عہد کیا ہے سو ہم بنیامین کو لئیے بنا ہر گز یہاں سے نہ ہلیں گے چاہے ہمیں اس کے لئیے ان لوگوں سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے اور اس کے لئیے مشورے کرنے لگے۔

بعد اس کے وہ بیٹھ کر مشاورت کرنے لگے کہ ہم بنیامین کو لئیے بنا ہر گز نہ ٹلیں گے چاہے ہمیں اس کے لئیے ان لوگوں سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے پھر چاہے ہم مارے ہی کیوں نہ جائیں – اور قریب تھا کہ اس پر عہد باندھتے ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا؛ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ایک بڑی فوج ہیں اور ہم ان کا مقابلہ ہر گز نہ کر سکیں گے تو تم اپنے باپ کو وہ دکھ کیوں دیتے ہو جسے وہ ہرگز سہہ نہ سکیں گے- (یعنی اگر تم ان سے جنگ کرو گے تو وہ یقینا تمہیں مار دیں گے اور حضرت یعقوب جو ابھی تک یوسف کے غم سے نہیں نکلے تمام بیٹوں کا دکھ تو انہیں مار ہی ڈالے گا) اور ہم اپنے وطن سے بھی دور ہیں کہ کسی کو مدد کے لئیے ہی بلا سکیں –

تو ابھی واپس چلو اور جو کچھ یہاں ہوا ٹھیک ٹھیک والد سے جق کر بیان کرو پھر جو فیصلہ وہ کریں اس پر عمل کرنا اگر واپس آنا ہوا تو اپنے ساتھ زیادہ لوگ لائیں گے تاکہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں –

تب ان کے سب سے بڑے بھائی روبیل (روبن) نے کہا کہ ہم نے اپنے والد سے پختہ اقرار لیا تھا کہ بنیامین کو واپس لائیں گے اور اب ہم عہد شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں اس سے پہلے بھی ہم یوسف کے معاملے میں والد کو دکھ پہنچا چکے ہیں اسلئے میں تو ہر گز والد کے پاس واپس نہ جاؤنگا جب تک بھائی کو ساتھ نہ لے جاؤں گا یا والد مجھے واپس آنے کی اجازت دے دیں اور اللہ تعالیٰ اس معاملے میں میری مدد نہ کر دے۔ تم سب والد کے پاس واپس جاؤ اور وہ بات بتاؤ جو تم نے خود دیکھی یعنی یہ کہ اس کے سامان سے چوری کی چیز ملی ہے اور اگر انہیں ہم پر یقین نہیں تو وہ بیشک قافلے والوں سے پوچھ لیں جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے اور یہ خبر مصر میں بھی مشہور ہو چکی ہے یعنی ہم بالکل سچے ہیں۔

جب وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور بنیامین کی داستان سنائی تو ان کے پرانے زخم بھی تازہ ہو گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کا دکھ بھی ستانے لگااور مسلسل رونے کیوجہ سے آپکی بینائی جاتی رہی تھی اب بیٹوں کو ڈر ہوا کہ کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جائیں اس لئیے کہا کہ آپ بیشک قافلے والوں سے پوچھ لیں ہم جھوٹ نہیں کہتے-

حضرت یعقوب نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور فرمایا کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ بنیامین نے چوری کی ہے کیونکہ یہ اسکی عادت ہی نہیں ہے اور قریب ہے کہ میرا اللہ پاک میرے بیٹوں یوسف، بنیامین اور روبیل (روبن) کو میرے پاس واپس لے آۓ وہی علم و حکمت والا ہے- اور فرمایا کہ تم واپس جاو اور ان سے بات کرو اور خبردار نرمی سے بات کرنا اور لڑائی مت کرنا اور نصیحت فرمائی کہ پہلے کی طرح الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور شہر میں ایک ساتھ داخل مت ہونا یہی میرے رب کا حکم ہے-
چنانچہ وہ باپ کے حکم سے واپس ہوئے اور شہر کے قریب پنہچ کر وہاں سے دوسرے بھائی کو بھی ساتھ لیا- اور جب وہ حضرت یوسف کے پاس پنہچے تو دیکھا کہ بنیامین ان کے ساتھ تحت پر بیٹھے ہیں تب انہوں نے باپ کی بیماری کا بتایا اور کہا کہ اے شاہ مصر ہم آپ کو مہربان دیکھتے ہیں تو آپ ہمارے بھائ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ہمیں خوف ہے کہ ہم اپنے باپ کو نہ کھو دیں جو بوڑھے اور نابینا ہیں یوسف کے غم نے انہیں ایسا کر دیا ہے اور ہم کمزور جماعت ہیں کہ آپ سے لڑ بھی نہیں سکتے-

تب حضرت یوسف نے ان سے اپنے بارے ساری سچائی بیان کی اور فرمایا کہ بیشک تم نے حسد کر کے مجھے مارنا چاہا جب کہ میں بے قصور تھا لیکن میرے اللہ نے مجھے عزت و مقام عطا کیا آج تم کمزور ہو اور میں ایک طاقتور حکومت رکھتا ہوں مگر میں تمہیں معاف کرتا ہوں اور بیشک میرا اللہ درگزر کو پسند کرتا ہے-

اور انہیں اپنی قمیص دی کہ یہ لے جا کر ہمارے والد کے چہرے پر ڈال دو تو اللہ انہیں بینائی عطا کرے گا اور انہیں عزت و احترام کے ساتھ میرے پاس مصر لے آو۔

اب تم لوگ میرا یہ کرتا لے کر گھر جاؤ۔ اور ابا جان کے چہرے پر اس کو ڈال دو تو ان کی آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔ پھر تم لوگ سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مصر چلے آؤ۔

بڑا بھائی یہودا کہنے لگا کہ یہ کرتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا بکری کے خون میں رنگ کر میں ہی اُن کے پاس لے گیا تھا۔ تو جس طرح میں نے اُنہیں وہ کرتا دے کر غمگین کیا تھا۔ آج یہ کرتا لے جا کر ان کو خوش کردوں گا۔ چنانچہ یہودا یہ کرتا لے کر روانہ ہوا-

تو ادھر کنعان میں بیٹھے ہوئے اپنے بیٹوں کا انتظار کرتے حضرت یعقوب اپنے لوگوں سے فرمانے لگے کہ دیکھو اگر تم مجھے یوں نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے یا اپنے بیٹوں کے غم میں دیوانہ اور خبطی ہو گیا ہے، تو مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے-

چونکہ جب آپ نے اپنے بیٹوں کو مصر واپس روانہ کیا تو ان سے کہا کہ واپس جاو ممکن ہے اللہ میرے تینوں بیٹوں کو مجھ سے ملوا دے اور یوسف بھی وہیں کہیں مل جائے تمہیں اور خبردار اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا کہ یہ کافروں کا کام ہے- تب آپ کے لوگوں نے کہا یعقوب دیوانہ ہو گیا ہے جو ابھی تک یوسف کو نہیں بھولا اور ابھی بھی اس کے خیالوں میں یوسف زندہ ہے جبکہ اسے بھیڑیا کھا گیا تھا تو کیسے ممکن ہے بھلا کہ یوسف زندہ ہو-

چنانچہ جب یہودا مصر پہنچا اور کرتا اپنے والد کے چہرے پر ڈال دیا تو اُن کی آنکھوں میں بینائی آگئی۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا دیکھا میں نہ کہتا تھا مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے جبکہ تم لوگ کہتے یہ اس کے دماغ کے خیال ہیں جو خوشبو بن کر آتے ہیں – اور میں اپنے اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے-

بعد اس کے آپ کے بیٹوں نے اپنی غلطی پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا اور حضرت یعقوب سے ان کے گناہوں کی معافی کی درخواست کی کہ اگر وہ معاف فرما کر دعا کر دیں گے تو یقینا اللہ بھی معاف کر دےگا- چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے تہجد کے وقت کے بعد اپنے سب بیٹوں کے لئے دعا فرمائی اور یہ دعا مقبول ہوگئی۔ چنانچہ آپ پر یہ وحی اتری کہ آپ کے صاحبزادوں کی خطائیں بخش دی گئیں۔

پھر مصر کو روانگی کا سامان ہونے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد اور سب اہل و عیال کو لانے کے لئے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں بھیج دیں تھیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا تو کل بہتر یا تہتر آدمی تھے جن کو ساتھ لے کر آپ مصر روانہ ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر جانے سے صرف چار سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چار ہزار لشکر اور بہت سے مصری سواروں کو ساتھ لے کر شہر سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا اور صدہا ریشمی جھنڈے اور قیمتی پرچم لہراتے ہوئے قطاریں باندھے ہوئے مصری باشندے جلوس کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند ”یہودا” کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے۔ جب ان لشکروں اور سواروں پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ فرعونِ مصر کا لشکر ہے؟ تو یہودا نے عرض کیا کہ جی نہیں ۔ یہ آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو اپنے لشکروں اور سواروں کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں آپ کو متعجب دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی ذرا سر اٹھا کر فضائے آسمانی میں نظر فرمایئے کہ آپ کے سرور و شادمانی میں شرکت کے لئے ملائکہ کا جمِ غفیر حاضر ہے جو مدتوں آپ کے غم میں روتے رہے ہیں ۔ ملائکہ کی تسبیح اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور طبل و بوق کی آوازوں نے عجیب سماں پیدا کردیا تھا۔

جب باپ بیٹے دونوں قریب ہو گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ذرا توقف کیجئے اور اپنے پدر بزرگوار کو اُن کے رقت انگیز سلام کا موقع دیجئے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان لفظوں کے ساتھ سلام کہا کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مُذْھِبَ الْاَحْزَانِ” یعنی اے تمام غموں کو دور کرنے والے آپ پر سلام ہو۔ پھر باپ بیٹوں نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ معانقہ کیا اور فرط مسرت میں دونوں خوب روئے۔ پھر ایک استقبالیہ خیمہ میں تشریف لے گئے جو خوب مزین اور آراستہ کیا گیا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر جب شاہی محل میں رونق افروز ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے سہارا دے کر اپنے والد ِ محترم کو تختِ شاہی پر بٹھایا۔ اور اُن کے اردگرد آپ کے گیارہ بھائی اور آپ کی والدہ سب بیٹھ گئے اور سب کے سب بیک وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ اُس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ِ بزگوار کو مخاطب کر کے یہ کہا-

رجمہ کنزالایمان: اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بیشک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔ (پ۱۳،یوسف:۱۰۰ )

تبصرے بند ہیں۔