انسان اور زمین کی حکومت (قسط 33)

رستم علی خان

چنانچہ ناچار ہو کر حضرت ایوب کی بیوی نے اپنے سر کے تھوڑے بال اس عورت کو کاٹ کر دئیے اور ان کے عوض کھانا خریدا اور واپس ہو لیں- شیطان لعین صورت ایک مرد کے حضرت ایوب کے پاس آیا اور کہا کہ اے ایوب تیری بیوی کو گاوں میں ایک عورت نے چوری کرنے کے جرم میں پکڑ کر سر کے بال کاٹ دئیے ہیں- حضرت یہ سن کر بہت غمگین اور پریشان حال ہوئے اور روتے رہے- کہتے ہیں ایوب اس بارے میں جیسا روئے تھے اپنی بیماری کے اٹھارہ برسوں میں کبھی ایسا نہ روئے تھے مگر شیطان کے تہمت دینے کی وجہ سے اپنی بی بی پر روئے اور عہد کیا کہ میں اگر اس بیماری سے ٹھیک ہوا تو رحیمہ کو سو درے (لکڑی کا سوٹا) ماروں گا- اور بعضے علماء مورخین نے بال کاٹنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ یوں روایت کی ہے کہ آپ کی بیوی گاوں سے محنت مزدوری کر کے کچھ کھانے کو لے آتیں تھیں- ایک دن واپسی آتے ہوئے راہ میں انہیں شیطان ملا جو ایک حکیم کی صورت تھا- شیطان بولا بی بی تم کون ہو، کہاں سے آتی ہو اور کہاں جاو گی اور یہ کہ ایسی پریشان خاطر کیوں ہو؟ کہنے لگیں کہ شوہر میرا سخت بیمار ہے حس و حرکت کی طاقت اس میں نہیں ذی فرش ہے اس لئیے پریشان حال ہوں-

پس شیطان لعین نے ان نے کہا ایک دوا میں تم کو بتاتا ہوں اگر اسے استمعال میں لاو تو بہت جلد بھلا چنگا ہو گا- وہ یہ کہ اگر سور کا گوشت شراب کے ساتھ استمعال میں لاو گی تو بہت جلد صحت یاب ہو گا اور مرض اس کا جاتا رہے گا بہت اچھی دوا ہے بہت جلد کام کرے گی-

چنانچہ بی بی رحیمہ جلدی جلدی واپس ہوئی اور جا کر حضرت ایوب سے کہا کہ آج ایک شخص پیر مرد سے میری راستے میں ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے آپ کا سارا احوال بیان کیا تب اس نے آپ کے واسطے ایک دوائی بتائی ہے کہ اگر استمعال کرو گی تو بہت جلد بھلے چنگے ہو جائیں گے- تب حضرت ایوب نے پوچھا کہ بتاو تو بھلا اس نے کیا دوا بتائی ہے- تب بی بی آپ کی کہنے لگیں کہ اگر آپ سور کا گوشت شراب کیساتھ استمعال کریں گے تو بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے- اس وقت حضرت اپنی بی بی سے بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ تم مجھے گنہگار کرنا چاہتی ہو- اس سے تو میں بیمار ہی بھلا ہوں اگر اللہ کی طرف سے شفاء ہوئی تو مجھے کسی دوا کے بغیر ہی عطا خر دے گا- اور تب قسم کھا کے بولے کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو تجھے اس بات کے لئیے سو لکڑی ماروں گا- کیونکہ تو نے ایسی بات کہی جو اللہ کی بارگاہ میں مجھے رسوا کروانے والی تھی-

بعد اس کے اللہ کی درگاہ میں عرض کی یا اللہ میں نے اتنا عرصہ اس بیماری میں صبر اور برداشت کیا اب اور نہیں کر سکتا مجھے اس بلا سے نجات عطا فرما- یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوب علیہ السلام نے اتنا عرصہ صبر کیا تو آخری درجے میں کیوں روئے ؟

اس کے جواب میں کئی روایات بیان کی گئی ہیں- بعضوں نے کہا کہ حضرت ایوب کے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپ کے دو شاگرد تھے ہمیشہ آپ کی عیادت و تیماداری کو آیا کرتے تھے- ایک روز کہنے لگے، کہ ایوب اگر کوئی گناہ یا خطا نہ کرتے تو اللہ ان کو تکلیف اور بیماری میں کیوں گرفتار کرتا- حق تعالی عادل ہے بےگناہ کی پکڑ نہیں کرتا پس ممکن ہے ایوب بھی کسی گناہ کی سزا بھگت رہے ہوں-

اور تب حضرت ایوب یہ سن کر بہت روئے اور کہنے لگے کہ الہی تجھے ہی معلوم ہے میرے گناہوں کی خبر سو اگر یہ میرے کسی جرم یا خطا کی سزا ہے تو میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں مجھے معاف فرما دے-

اور دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک دن دو کیڑے ان کے زخم میں سے گر پڑے آپ نے پھر ان دونوں کو پکڑ کر اسی گھاو میں واپس رکھا اور کہا کہ اپنی جگہ پر رہو- تب وہ ایسا کاٹنے لگے کہ تکلیف کی شدت بہت بڑھ گئی اور ایسی تکلیف ابتداء بیماری سے لے کر اٹھارہ برس تک کبھی نہ ہوئی تھی- تب آپ تکلیف اور درد کی شدت سے بلبلا اٹھے اور بارگاہ ربی میں فریاد کی کہ الہی مجھے سخت تکلیف پنہچی ہے اور بیشک تو ہی ہے مہربان اور رحم کرنے والا.

چنانچہ حضرت ایوب نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے تکلیف زیادہ ہوئی ہے اور ایسی پہلے کبھی نہ ہوئی پس مہربانی فرما مجھ پر بیشک تو ہی ہے رحم کرنے والا-

تب جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور پوچھا کہ اے ایوب کیوں روتا ہے ؟ بولے کہ ان کیڑوں کے کاٹنے سے بیتاب ہوا ہوں اور اب مزید تکیف برداشت نہیں کر سکتا- میں نے اٹھارہ برس میں ایسی تکلیف نہیں اٹھائی- تب جبرائیل نے کہا کہ آپ نے خود ہی تو خدا تعالی سے اس تکلیف کو مانگا تھا اور اب خود ہی سے کیڑوں کو اٹھا کر واپس زخم میں رکھا ہے اور اب تکلیف اٹھاتے ہو- اور خدا بے گناہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا اور نہ ہی کسی امر میں اختیار دیا ہے کہ مرضی کرتا پھرے- مگر جو جیسا خدا سے مانگتا ہے سو ویسا پاتا ہے-

اور بعضوں نے کہا ہے کہ ایک بار سوداگروں کے قافلے حضرت ایوب کے دروازے پر آئے اور پوچھا یہ مکان کس کا ہے اور یہاں کون رہتا ہے- لوگوں نے کہا کہ یہاں پیغمبر خدا ایوب رہتے ہیں- تب وہ بولے کہ اگر نیک بندہ ہے تو اس بلا میں کیوں گرفتار ہے- ضرور کچھ بڑا گناہ کیا ہو گا ورنہ خدا عادل و منصف ہے بے گناہوں کی پکڑ نہیں کرتا-.

تب حضرت ایوب یہ سن کر زار زار رونے لگے اور کہا کہ یقینا وہ لوگ سچ کہتے ہونگے- مجھے تو معلوم نہیں کہ میں کونسا گناہ کیا ہے- تب آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے ایوب گھبرائیے مت اس بلا کے پیچھے اللہ کی رحمت ہے- تب ایوب نے جانا کہ یقینا مجھ پر اللہ کا عتاب نازل ہوا ہے اور پکارے کہ اے روح الامین تم کہاں ہو ؟ تب دوبارہ آواز آئی کہ میں روح الامین نہیں ہوں بس ایک فرشتہ ہوں فرشتوں میں سے میں ہی آپ کے پاس یہ عتاب کی خبر لایا تھا-

تب حضرت ایوب پکارے کہ اللہ مجھ پر رحم فرما اور مجھے اس بلا سے نجات دے کہ اٹھارہ برس سے اس میں مبتلا ہوں اب اور برداشت نہیں ہوتا-

تب جبرائیل امین بحکم ربی آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ایوب غم نہ کرو تمہاری آزمائش کا وقت ختم ہوا اور اب اللہ تمہیں پہلے سے کئی گنا بڑھ کر نوازے گا اور تم نے صبر کیا اور شکر کرنے والوں میں سے ہوئے اور کامیابی حاصل کی پس اب وقت آ گیا کہ پھر سے اللہ کی رحمت سے صحت و تندرستی اور حوشحالی کا وقت دیکھو- اور تب جبرائیل نے آپ کو اٹھنے کو کہا- تب حضرت ایوب بولے کہ اے جبرائیل بھلا بتاو تو میں کیسے اٹھوں کہ اس بیماری سے طاقت ہلنے اور حرکت کرنے کی بھی میں خود میں نہیں پاتا- تب جبرائیل نے کہا کہ اپنا پاوں زمین پر ماریں- چنانچہ پاوں مارنے سے زمین سے ایک چشمہ پانی کا نکلا تب کہا کہ اب اس میں غسل کریں اور پانی پئیں یہاں سے اللہ نے چاہا تو بھلے چنگے ہو جائیں گے-

چنانچہ حضرت ایوب نے اس پانی سے غسل کیا اور پئیا بھی تو اللہ کے حکم اور فضل سے بلکل بھلے چنگے ہوئے اور حسن ایسے جیسے چودھویں کا بے داغ چاند ہو اور ایک چادر بہشت سے لے آ کر آپ کو اوڑھا دی گئی- اور آپ وہاں سے اٹھ کر قریب کے ایک پل پر بیٹھ گئے-

تبھی آپ کی بی بی جو محنت مزدوری کرنے کے واسطے گاوں گئی تھی آپ کے لئیے کھانا لے کر آئی- جب اس نے درخت کے نیچے دیکھا تو حضرت ایوب کو نہ پایا تو بہت رنجیدہ اور غمگین ہوئی اور لگی آہ و زاری کرنے اور کہنے کہ ہائے افسوس صد افسوس اس ضعیف بیمار پر کہ اسے کوئی درندہ شیر یا بھیڑیا اٹھا کر لے گیا- اور کہتی کہ اگر مجھے خبر ہوتی ایسا ہونے کی تو کبھی اکیلا چھوڑ کر نہ جاتی اور اگر میں ساتھ ہوتی تو تمہارے ساتھ ہی جان دے دیتی اور اس محنت اور بلا سے چھٹکارہ حاصل کرتی- اور اگر مجھے تیری کوئی ہڈی ہی مل جاتی تو اسے گلے میں مانند تعویذ کے رکھتی اور یادگار رہتی میرے پاس آپ کی ہمیشہ- اب کہاں جاوں کس سے پوچھوں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس میدان میں کوئی انسان بھی نہیں کہ جس سے کچھ خبر گیری کر سکوں- الغرض روتی اور گریہ زاری کرتی اور اسی طرح میدان میں چاروں طرف دوڑتی اور نگاہ دوڑاتی پھرتیں کہ شائد کہیں نظر آ جائیں یا کچھ باقیات ہی مل جائیں-

تبصرے بند ہیں۔