انسان اور زمین کی حکومت (قسط 35)

رستم علی خان

مزید آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑی سی بات اس پر ہو جائے کہ ذوالقرنین کے بارے محققین علماء اکرام اور مفسرین کی کیا رائے ہے- ذوالقرنین کون؟ ذوالقرنین کی شخصیت کی تعیین کے لیے یہ بات تو بہرحال یقینی ہے کہ یہود کو اس کے متعلق علم تھا اور اس بادشاہ کا ذکر ان کی کتابوں میں موجود تھا تبھی تو انہوں نے قریش مکہ کو یہ سوال بتایا تھا اور جو کچھ قرآن سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک مقتدر اور نامور بادشاہ تھا اللہ سے ڈرنے والا اور منصف مزاج تھا اس کی سلطنت خاصی وسیع تھی اور ذوالقرنین کے لغوی معنی تو ”دو سینگوں والا” ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے بلکہ اسے اس لحاظ سے ذوالقرنین کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت کا علاقہ کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک مینڈھا ہو اور اس کے سر پر دو سینگ ہوں۔

قرآن و حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ذوالقرنین کا اصل نام کیا تھا؟ وہ کس علاقہ کا بادشاہ تھا؟ کس قوم سے تعلق رکھتا تھا؟ اور کس دور میں یہ بادشاہ گزرا ہے؟ مغربی جانب اس نے کہاں تک اور کون کون سے ممالک کومسخر کیا تھا؟ اور مشرقی سمت میں کہاں تک پہنچا تھا؟ اس کا تیسرا سفر کون سی جانب تھا؟ سدّ ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے؟ لہذا ان سب امور کی تعیین میں مفسرین میں بہت اختلاف واقع ہوا اور ایسی مؤرخانہ تحقیق کا کتاب و سنت میں مذکور نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن کسی تاریخی واقعہ کو ذکر کرنے کے باوجود بھی ایسے امور کو زیر بحث نہیں لاتا جن کا انسانی ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو یا اس پر کسی شرعی حکم کی بنیاد نہ اٹھتی ہو یہ ذوالقرنین کا واقعہ یہود کی الہامی کتاب تورات میں مذکور نہیں بلکہ تورات کی شروح و تفاسیر، جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں تالمود کہتے ہیں مذکور ہے۔ جیسے ہمارے مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں کئی ایسے واقعات درج کر دیئے ہیں جن کا قرآن اور حدیث میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ بات تو مسلّم ہے کہ ذوالقرنین کوئی ایسا بادشاہ تھا جس کی تعیین علمائے یہود کے دماغوں میں موجود تھی۔ اسی کے متعلق انہوں نے سوال کیا تھا اور اسی شخصیت کے متعلق قرآن نے جواب دے دیا اور جتنا جواب انھیں درکار تھا اتنا جواب قرآن نے انھیں دیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کے اطمینان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے اس جواب کے بعد یہود نے یا یہود کے کہنے پر کفار مکہ نے ذوالقرنین کے بارے میں کوئی مزید سوال نہیں کیا۔ تاہم ہمارے مفسرین نے مندرجہ بالا تاریخی سوالات کا حتی الامکان جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔

ذوالقرنین: سکندر اعظم ؛

بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندر اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں۔ مگر بہت سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر اعظم نبی نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ زمین کی مشرقین اور مغربین تک نہ پہنچ سکا۔ اور تیسری وجہ یہ کہ اس نے ایسی کوئی قابل ذکر دیوار نہیں بنائی جس کا زکر قرآن میں آتا ہے-

ذوالقرنین: سائرس اعظم ؛

مولانا مودودیؒ نے بائیبل کے مطالعہ کے بعد جو تحقیق پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کا اطلاق ایرانی فرمانروا خورس پر ہی ہوسکتا ہے جس کا عروج 549ق م کے قریب شروع ہوا اس نے چندسال کے عرصہ میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (اشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق م میں بابل کو فتح کرلیا تھا جس کے بعد کوئی طاقت اس کی راہ میں مزاحم نہ رہی۔ اس کی فتوحات کاسلسلہ سندھ اور صغد(موجودہ ترکستان) سے لے کرایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا تھا اور شمال میں اس کی سلطنت کاکیشیا ( قفقاز) اور خوارزم تک پھیل گئی تھی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

صاحب تفسیر حقانی کی تحقیق یہ ہے کہ ذوالقرنین ایران کا نہیں بلکہ عرب کے کسی علاقہ کا بادشاہ ہوسکتا ہے اور یمن کے حمیری خاندان کا بادشاہ تھا۔ دلیل یہ ہے کہ ذوالقرنین عربی لفظ ہے۔ فارسی یا ایرانی نہیں۔ علاوہ ازیں یمن کے بادشاہ زمانہ قدیم میں ذو کے ساتھ ملقب ہوا کرتے تھے جیسے ذونواس، ذوالنون، ذورعین، ذویزن وغیرہ۔ ایسے ہی ذوالقرنین بھی تھے۔ ابو ریحان البیرونی اس کا نام ابو کرب بن عیربن افریقس حمیری بتاتے ہیں۔ اس کا اصل نام صعب تھا اور یہ تبع اول کا بیٹا تھا اور یہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوالمنار ابرہہ، اس کے بعد اس کا بیٹا افریقس، اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاذعار، اس کے بعد اس کا بھائی شرجیل، اس کے بعد اس کا بیٹا الہدہاد اور اس کے بعد اس کی بیٹی بلقیس بادشاہ ہوئی جو سیدنا سلیمان کے پاس حاضر ہوئی تھی-

والقرنین : سلیمان علیہ السلام ترميم

صرف ایک ہی اسلامی محقق محمد اکبر صاحب نے ذوالقرنین کو سلیمان علیہ السلام کا دوسرا نام کہا ہے- 2 ۔ اپنے جو دلائل ذوالقرنین کے سلیمان علیہ السلام ہونے کے بارے میں دیئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ سلیمان ہی زمین کی مشرقین اور مغربین کا سفر کرسکتے تھے کیونکہ ہوا اُن کے تابع تھی اور اُن کی صبح اور شام کی سیر ہی ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔
ذوالقرنین کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا تبھی اُن کو بذریعہ وحی کہا گیا کہ چاہے تو عذاب کرے چاہے تو چھوڑ دے ۔ اس لیے ذوالقرنین بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی تھے اور سلیمان بھی بادشاہ بھی تھے اور نبی تھے۔

سلیمان نے یاجوج ماجوج کی قوم سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی دیوار کا کوئی معاوضہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اُن کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اس میں بے شمار تانبا وغیرہ بھی شامل ہے۔ بہت بڑے بڑے کڑہاؤ بھی، یہی چیزیں دوسری جگہوں پر حضرت سلیمان پاس بتائی گئی ہیں۔ذوالقرنین اور سلیمان سے اللہ تعالیٰ کا طرز تخاطب ایک جیسا رہا ہے۔

قرآن میں سورۃ النمل کی آیت 16 کے مطابق سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان کا بھی علم دیا گیا تھا۔ سورۃ کہف آیت 93 کے مطابق ذوالقرنین جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو وہاں کے رہنے والوں کو ذوالقرنین کی فوج کی زبان نہیں آتی تھی، مگر اگلی آیت 94 میں انہوں نے ذوالقرنین سے دیوار کی تعمیر کی درخواست کی جسے ذوالقرنین نے سمجھا بھی اور اس کا جواب بھی دیا۔ حضرت سلیمان ہی ایسی شخصیت تھے جو حتیٰ کہ جانوروں کی زبان بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے اُ ن کے لیے اس قوم کی بات سمجھنا مشکل نہ تھا۔

بائبل میں جو دعا سلیمان کے لیے کی گئی ہے وہ ویسی ہی بادشاہت کی ہے جیسی ذوالقرنین کو ملی تھی۔ بائبل سے حوالہ دیا ہے کہ سلیمان کے دور میں سر پر سینگوں والا تاج پہنا جاتا تھا اس لیے حضرت سلیمان کا دو سینگوں کا تاج پہننا کوئی بڑی بات نہیں۔

قرآن مجید میں ذوالقرنین کے بارے اللہ تعالی فرماتے ہیں؛

ترجمہ : اور سوال کرتے ہیں تجھ کو ذوالقرنین کے بارے تو کہہ جلد بیان کروں گا تم سے اس کے بارے کچھ ذکر تحقیق اللہ نے قوت دی تھی اسے بیچ زمین کے اور دی تھی اس کو ہر چیز سے راہ پس پیچھے چلا ایک راہ کے یعنی سرانجام سفر کا کرنے لگا یہاں تک کہ پنہچا سورج ڈوبنے کی جگہ پر تو پایا اس کو کہ وہ ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندی میں اور پایا اس کے پاس ایک قوم کو ہم نے (یعنی اللہ نے) کہا اے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے ان کو یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی- ذوالقرنین بولا جو شخص ظالم ہے پس البتہ عذاب کریں گے ہم اس کو پھر پھرا جاوے گا طرف پرودگار اپنے کے پس عذاب کرے گا اس کو عذاب جو سخت ہے اور جو شخص کہ ایمان لایا اور عمل کئیے اچھے پس اسی کے واسطے بطریق جزا کے نیکی ہے اور البتہ ہم اس کو کام اپنے سے فائدہ دیں گے (القرآن)

عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی زمین میں مع لشکر کے کئی برس رہے، لوگوں کو خدا کی طرف دعوت کرتے رہے- سب لوگ ان کے مطیع فرمان ہوئے ان کو نوازش فرمائی- اور جو باغی تھے ان کو جہنم واصل کیا-

سکندر ذوالقرنین کی نبوت اور بادشاہت میں اختلاف ہے- بعضوں نے کہا کہ پہلے بادشاہ تھے بعد اس کے نبی ہوئے- اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے نبی تھے بعد اس کے بادشاہت عطا ہوئی- اور بعض ان کو بادشاہ اور نبی مانتے ہیں کہ اگر نبی نہ ہوتے تو اللہ تعالی "قلنا یا ذوالقرنین” کہہ کر خطاب کیوں کرتے یعنی وہ نبی تھے پس ان کو نبیوں کی طرح مخاطب کر کے بات کی گئی-
اور بعضوں نے اس دلیل کے رد میں کہا ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ یہ الہامی وحی تھی جیسے اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی والدہ کو بواسط جبرائیل کے الہام فرمایا تھا کہ جب موسی کو تنور میں ڈالنے کا حکم دیا تھا-

الغرض اللہ تعالی نے ذوالقرنین کو بادشاہت عطا کی تھی مشرق سے مغرب تک کی اور تمام ملکوں کی راہوں کو ان کے لئیے کھول دیا تھا اور تمام راہیں سمجھا دی گئیں تھیں- چنانچہ ذوالقرنین مشرق اور مغرب اور جزائر اور شہروں میں جا کر لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت کرتے اور اسی طرح سفر کرتے ہوئے زمین کہ مغرب تک جا پنہچے کہ جہاں سورج غروب ہوتا ہے- وہاں ایک شہر ایسا پایا کہ چار دیواری اس کی روئیں کی تھی اور شہر میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ تھا- چنانچہ ذوالقرنین نے اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پڑاو کیا اور شہر میں داخل ہونے کے لئیے تدبیریں سوچنے لگے- اسی طرح کچھ دن گزر گئے لیکن کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا- آخر کار انہوں نے اپنی حکمت سے دیوار پار کرنے اور شہر میں داخل ہونے کی ایک تدبیر تیار کی- انہوں نے ایک رسی اور کمند دیوار پر ڈال کے ایک آدمی کو اس کی مدد سے دیوار کے پار کر دیا کہ دیکھ کر آو کہ اس پار کیا ہے اور شہر میں داخل ہونے کا کوئی راستہ اگر ہے تو اس کے متعلق بھی پتا کرے- لیکن دیوار کے پار جانے والا شخص واپس لوٹ کر نہیں آیا تو ذوالقرنین نے دوسرے آدمی کو دیوار پر چڑھا دیا اور اس سے خاص طور پر کہا کہ شائد اس طرف بہشت ہے یا کچھ اور ہو گا لیکن جو بھی ہو تم اس طرف ہر گز نہ جائیو بلکہ بس دیکھ کر واپس آ جائیو اور ہمیں خبر کرو اس پار کی جو بھی تم ادھر دیکھو- چنانچہ جب وہ بھی چلا گیا تو پھر واپس نہ آیا- تب ذوالقرنین نے سمجھا کہ جو بھی اس پار جاوے گا واپس نہیں آئے گا اور دیوار کی دوسری سمت جانے کا ارادہ ترک کیا اور اس شہر پر سفر اپنا ختم کیا اور اس ملک کی حد بنا کر واپس ہوا اور مشرق کی سمت کے سفر کا قصد کیا۔

چنانچہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ذوالقرنین نے وہاں سے واپسی کا قصد کیا اور مشرق کی جانب کے سفر کو پھر گیا- راستے میں ایک جزیرے سے ان کا گزر ہوا اور وہ ایسا جزیرہ تھا کہ جہاں بنا کشتی کے جانا ممکن نہ تھا- جب ان شہر والوں کو ذوالقرنین اور اس کے لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے دریا کے کنارے رکھی تمام کشتیوں کو چھپا دیا- اور اس جزیرے میں رہنے والے زیادہ لوگ دانا اور حکیم تھے-

الغرض ذوالقرنین اپنے لشکر کے ساتھ چند دن کنارے پر پڑاو کئیے رکھا اور حکمت و دانائی سے ایک کشتی تیار کی اور دریا عبور کیا- اور اس بار خود بھی ساتھ گیا تاکہ حالات ادھر کے ٹھیک ٹھیک معلوم کر سکے- چنانچہ اس نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ دبلے پتلے ہیں اور کوئی شخص ان میں موٹا نہیں ہے- تب ذوالقرنین نے ان سے ان کے اتنے لاغر ہونے کی بابت دریافت کیا- انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے شہر کی غذا کی تاثیر ہے اور یہ کہ ہم غذا کو حکمت سے کھاتے ہیں اور خاصیت اس کی یہی ہے- اور ہم آرام طلبی اور کام چوری کو خود سے دور رکھتے ہیں-

الغرض ذوالقرنین نے کہا کہ میں یہاں کچھ عرصہ پڑاو کرنا چاہتا ہوں اور تم لوگوں کی طرز زندگی اور طرز معاشرت وغیرہ دیکھنا چاہتا ہوں اور تمہارے علم و حکمت سے مستفید ہونا چاہتا ہوں- تب وہاں کے لوگوں نے ذوالقرنین کی ضیافت کرنی چاہی اور اجازت ملنے پر اپنی حکمت سے جواہرات اور ہیرے موتی ایک خوان میں سجا کر اسے ڈھک دیا اور لے جا کر ذوالقرنین کے سامنے رکھا اور کہا کہ تناول فرمائیں اور خود الگ ہو کر کھڑے ہو گئے-

ذوالقرنین نے انہیں بھی ساتھ شریک ہونے کی دعوت دی اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ بھی ساتھ میں تناول فرماویں تو- تب ان لوگوں نے کہا کہ یہ غذا ہمارے مطابق نہیں ہے یہ شاہی کھانا ہے اور خصوصی آپ کے لئیے آپ کی من پسند غذا تیار کی ہے- الغرض جب ذوالقرنین نے سرپوش کو خوان پر سے اٹھایا تو دیکھا کہ تمامی برتن جواہرات اور سونے چاندی ہیروں وغیرہ سے بھرے ہوئے ہیں اور کوئی برتن خالی نہیں یا ایسا کچھ نہیں جو کھانے کے قابل ہو- تب اچنبھے سے کہا کہ یہ کیا یہ بھلا ہم کیسے کھا سکیں گے یہ تو ہرگز ہماری غذا نہیں ہے- کہ بھلا کوئی ایسی چیزیں بھی کھا سکتا ہے-

چنانچہ ان لوگوں نے کہا اے ذوالقرنین بھلا بتاو تو اور تم ہمارے پاس کیوں آئے ہو- تم اسی سب کے لئیے تو یہاں تک آئے ہو اور تمہارا مقصد بھی تو یہی ہے کہ تم دنیاوی خزانوں کو اکٹھا کر سکو- لیکن یاد رکھو کہ دنیا کہ خزانوں کی بھوک کسی طور ختم نہیں ہوتی انسان کو جتنا بھی مل جائے اسے اتنے اور کی خواہش ضرور رہتی ہے اور اگر اتنا اور بھی اسے عطا ہو جائے تب بھی اس کی بھوک اور حوس ختم نہ ہو گی بلکہ جوں جوں خزانے بڑھتے جاویں گے توں توں اس کی حرص اور بھوک بھی بڑھتی جائے گی- اور یاد رکھو بیشک یہ حرص و حوس کے بھوکے کے لئیے بھلے ہی نفع دینے والے کیوں نہ ہوں لیکن اس وقت تمہارے واسطے ہرگز نافع نہیں ہیں- کہ پیٹ کی بھوک تو غذا سے مٹتی ہے چاہے وہ سادہ ہی کیوں نہ ہو-

چنانچہ ذوالقرنین نے معلوم کیا کہ یہ لوگ اہل علم اور عقل و دانائی والے ہیں- تو ان سے رخصت ہونے کا قصد کیا اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر تم لوگ مجھے کچھ نصیحت کر سکو تو- اور اپنے دبلے پتلے ہونے کا راز کہو- تب انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی شخص تب تک کھانا نہیں کھاتا جب تک کہ اسے بھوک نہ لگی ہو اور تھوڑی بھوک کے رہتے ہی کھانے سے ہاتھ روک لیتا ہے یعنی سیر ہو کر اور پیٹ بھر کر نہیں کھاتا کیونکہ بھرا ہوا پیٹ انسان کو سست اور کاہل بنا دیتا ہے- اور تب سوتے ہیں جب ہم پوری طرح سے تھکاوٹ محسوس کریں اور کم سوتے ہیں کہ زیادہ نیند بھی انسان کے جسم کو کاہل بنا دیتی ہے-
اور بےفائدہ باتوں اور شغل سے کنارہ کرتے ہیں کہ اس سے کام چوری اور عیاشی کی عادت لگنے کا خطرہ نہیں رہتا اور ہم میں سے ہر شخص اپنا کام خود کرنے کا عادی ہے اور ایک دوسرے پر حکم نہیں چلاتے اور نہ ہی کسی پر اپنا کام تھوپتے ہیں- اور دنیاوی مال اور خزانوں کی بھوک نہیں رکھتے کہ اس سے پریشانی کم ہوتی ہے ذہنی بوجھ اور فکر سے دور رہتے ہیں- اور اسی طرح چند باتیں اور کیں اور کہا کہ بس یہی راز ہے ہماری خوشحالی اور صحت کا اور ذوالقرنین سے کہا کہ اگر تم ایک صحت مند اور لمبی زندگی کے خواہاں ہو تو ان باتوں پر عمل کرنا-چنانچہ بعد ان باتوں کے ذوالقرنین ان لوگوں سے رخصت ہوا اور اپنے اگلے سفر کا قصد کیا-

تبصرے بند ہیں۔