انسان اور زمین کی حکومت (قسط 36)

رستم علی خان

پھر ذوالقرنین وہاں سے ہندوستان کی طرف آئے اور اپنا ایک قاصد شاہ ہند کے پاس بھیجا کہ جا کے اسے خبر کرو کہ ہمارے ساتھ لشکر ہے بڑا اور ہم نہیں چاہتے کہ تم سے جنگ کریں اور لڑائی کی وجہ سے تمہارا ملک اور املاک برباد ہو جاوے- پس تمہیں لازم ہے کہ ہماری اطاعت میں آو اور خراج قبول کرو۔

تب اس قاصد نے جا کر شاہ ہند کو بادشاہ کا پیغام دیا اور کہا کہ آپ کو چاہئیے کہ ہمارے بادشاہ ذوالقرنین کی اطاعت قبول کریں اور اپنا ایک ایلچی اپنی طرف سے ان کے پاس بھیج دیں تاکہ ہمارے شہنشاہ کا استقبال کر کے اچھے سے انہیں یہاں لاوے-
تب شاہ ہند نے اپنا ایک ایلچی مع تحفہ و ہدیا دے کر ذوالقرنین کے پاس بھیجا کہ انہیں عزت و تکریم سے ہمارے پاس لے آئے- جب ایلچی نے وہ تمام تحفے ہدیے اور نذریں ذوالقرنین کی خدمت میں پیش کئیے تو ذوالقرنین نے حکم دیا کہ اسے لے جا کر رہنے کو اچھی سی جگہ دو اور بعد تین دن کے اسے میری خدمت میں دوبارہ حاضر کرنا- تب ملازموں نے اسے لے جا کر بحسب حکم اچھی طرح سے ایک جگہ میں رکھا اور بعد تین دن کے اسے دوبارہ ذوالقرنین کی خدمت میں حاضر کیا-

ذوالقرنین نے اسے دیکھ کر سر اپنا نیچا کیا اور ایلچی نے ذوالقرنین کو دیکھ کر انگلی اپنی ناک کے نتھنے میں ڈال کر پھر نکال لی اور بنا کچھ کہے بولے واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا- خواصوں نے جب یہ حال دیکھا تو ان سے نہ رہا گیا چنانچہ عرض کی حضور نے شاہ ہند کے ایلچی کو دیکھ کر سر اپنا نیچا کیا اور اس نے حضور کو دیکھ کر انگلی اپنی ناک کے سوراخ میں ڈال کر پھر نکال لی اور بغیر کہے سنے یونہی چلا گیا اس کا کیا بھید تھا-

تب ذوالقرنین نے کہا کہ میں نے اس کو دراز قد دیکھ کر سر اپنا فرو کیا تھا اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دراز قد آدمی بیوقوف ہوتے ہیں- اور آیا ہے کہ تمام دراز قد آدمی بیوقوف ہیں سوائے حضرت عمر کے اور تمام چھوٹے قد کے آدمی فتنے ہیں سوائے حضرت علی کے- اور اس نے جو اپنی ناک کے نتھنے میں انگلی رکھی تھی تو مطلب اس کا یہ تھا کہ وہ میرا طالع اسکندری دیکھ کر مرعوب ہوا ہے تو پس یہی گفتگو تھی جو ہمارے بیچ ہوئی-

تب ذوالقرنین نے اپنے خواصوں سے کہا کہ اسے پھر لے کر آو اور کھانے کو روٹی اور گھی دو وہ بزرگ آدمی ہے- چنانچہ مصاحبوں نے ایسا ہی کیا اسے لا کر کھانے کو گھی اور روٹی پیش کی ایلچی نے کھانے پر سوئی رکھ کر واپس بادشاہ کو بجھوا دی- ذوالقرنین نے اس سوئی کو سیاہ رنگ کر واپس اس کے پاس بھیجا- تب ایلچی نے ایک ٹکڑا آیئنے کا اس پر رکھ کر واپس کر دیا- خواصوں نے جب یہ سب دیکھا تو دوبارہ سے اس کے بارے دریافت کیا کہ آخر اس گفتگو میں کیا بھید تھا-

چنانچہ ذوالقرنین نے کہا کہ میں نے اسے جو گھی اور روٹی بھیجی تو میں اس کی علم و حکمت کے بارے جاننا چاہتا تھا- کہ مرد علم و حکمت کے ساتھ ایسے ہی جیسے روٹی گھی کے ساتھ اور اس نے جو کھانے پر سوئی رکھ کر واپس بھیجی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ علم و حکمت میں پورا ہے جیسے یہ سوئی پوری ہے اپنے اندر ایک سرے سے دوسرے تک اس پر کوئی قلعی نہیں کی گئی- اور جو میں نے سوئی کو سیاہ رنگ کے بھیجا تو حکمت یہ تھی کہ میں اس کے علم کے بارے جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیسا ہے مطلب قلعی کیا ہوا پوشیدہ یا ظاہر- اور جو اس نے آئینہ رکھ کر واپس کیا تو مطلب اس کا یہ تھا کہ اس کا علم شفاف ہے مانند آئینے کے اور یہی وہ اشارتی گفتگو تھی جو ہمارے بیچ ہوئی اور میں نے دیکھا کہ دراز قد آدمی واقعی میں بیوقوف ہوتے ہیں- اور وہاں سے رخصت ہوئے اور مشرق کی سمت اپنا سفر جاری کیا۔

چنانچہ ذوالقرنین علیہ السلام نے اپنا سفر جاری رکھا اور چلتے چلتے آپ کا گزر ایک ایسی صالح قوم پر ہوا جو راہ حق پر گامزن تھی۔ اور ان کے جملہ امور حق پر مبنی تھے اور ان میں یہ اوصاف حسنہ بدرجہ کمال موجود تھے۔ روز مرہ کے امور میں عدل اور ہر چیزکی مساوی تقسیم انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔ آپس میں صلہ رحمی‘ حال و مال ایک، ان کی قبریں ان کے دروازوں کے سامنے‘ ان کے دروازے غیر مقفل‘ نہ ان کا کوئی امیر و قاضی‘ نہ ان میں امتیازی سلوک‘ نہ کسی قسم کا لڑائی جھگڑا‘ نہ گالی گلوچ اور نہ قہقہہ بازی، رنج و غم اور آفات سماویہ سے محفوظ‘ عمریں دراز، نہ ان میں کوئی مسکین اور نہ کوئی فقیر۔

حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کوان کے یہ حالات دیکھ کر تعجب ہوا- چنانچہ اس بستی میں قیام کیا اور ان لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئیے قوم کے چند بزرگوں کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ مجھ کو اپنے حالات سے مطلع کرو- کیونکہ میں تمام دنیا گھوما ہوں بے شمار بحری اور بری اسفار کئے ہیں۔ میں مغرب تک سفر کر چکا ہوں اس جگہ تک کہ جہاں سورج غروب ہوتا ہے- مگر تم جیسی صالح اور کوئی قوم نظر نہیں آئی۔

چنانچہ انہوں نے کہا کہ اے نیک بادشاہ بتاو تو تمہیں کس بات نے تعجب میں ڈالا ہے تم ہم سے اس بارے سوال کرو تو ہم تمہیں اپنے حالات بارے صحیح جواب دیں گے- چنانچہ حضرت ذوالقرنین علیہ السلام نے اس صالح قوم سے پوچھا۔ مجھے بتاو تو تمہاری قبریں تمہارے گھروں کے دروزاوں کے سامنے کیوں ہیں کیونکہ زیادہ تر تو قبروں کے لئیے الگ قبرستان ہوتا ہے- تو انہوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ ایسا ہم نے قصداََ کیا ہوا ہے اور یہ اس لیے کیا ہے کہ ہم موت کو نہ بھول جائیں بلکہ اس کی یاد ہمارے دلوں میں باقی رہے۔ جب گھر سے نکلیں یا گھر میں داخل ہوں تو یہ قبریں ہمیں موت کی یاد دلاتی رہیں کہ ہم نے ہمیشہ ان گھروں میں نہیں رہنا-

پھر پوچھا، تمہارے دروازے پر مقفل کیوں نہیں ہیں۔ جواب ملا، ہم میں سے کوئی مشتبہ نہیں بلکہ سب امانت دار ہیں۔ تو ہمیں یہ خوف نہیں کہ کوئی گھر میں گھس کر چوری کر لے گا- پھر پوچھا، آپ کے یہاں امراء کیوں نہیں ہیں یعنی کوئی صاحب حیثیت نہیں ہے بلکہ سب برابر ہیں۔ جواب آیا ہم کو امراء کی حاجت نہیں ہے۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے-

ذوالقرنین علیہ السلام نے پوچھا، تمہارے اوپر حکام کیوں نہیں ہیں۔ کہا کیونکہ ہم آپس میں جھگڑا نہیں کرتے جو حکام کی ضرورت پیش آئے۔ پھر پوچھا، آپ میں اغنیاء یعنی مالدار کیوں نہیں ہیں۔ جواب ملا، کیونکہ ہمارے یہاں مال کی کثرت نہیں ہے۔ ذوالقرنین علیہ السلام نے پوچھا، تمہارے یہاں بادشاہ کیوں نہیں ہے۔ قوم نے کہا ہمارے یہاں دنیوی سلطنت کی کسی کو رغبت ہی نہیں ہے۔ سب ایک اللہ کو بادشاہ مانتے ہیں سو کسی اور بادشاہ کی ضرورت ہی نہی نہ کسی کو خیال بادشاہت کا ہوا- پوچھا، تمہارے اندر اشراف کیوں نہیں- کہا کیونکہ ہمارے اندر تفاخرکا مادہ ہی نہیں۔ سب عاجزی پسند ہیں اور نہ کسی بات پر ایک دوسرے پر فخر کرتے ہیں-

پوچھا، تمہارے درمیان باہم اختلاف کیوں نہیں۔ جواب ملا کیونکہ ہم میں صلح کامادہ بہت زیادہ ہے۔ یعنی اگر کوئی بات ہو بھی جائئ تو صلح صفائی کر لیتے ہیں- پوچھا: تمہارے یہاں آپس میں صلح کاجھگڑا کیوں نہیں۔ جواب ملا، ہمارے یہاں حلم اور بردباری کوٹ کوٹ کربھر دی گئی ہے۔

پھر پوچھا، تم سب کی بات ایک ہے اور طریقہ راست ہے۔ کہا، یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم آپس میں نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ دھوکہ دیتے ہیں۔ اور نہ غیبت کرتے ہیں۔ ذوالقرنین علیہ السلام نے پھر پوچھا، تمہارے سب کے دل یکساں اور تمہارا ظاہر وباطن بھی یکساں ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ جواب ملا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کی نیتیں صاف ہیں حسد کرنے والا دغاباز کوئی نہ ہے- پھر فرمایا، تم میں کوئی مسکین و فقیر کیوں نہیں۔ جواب آیا، کیونکہ جو کچھ ہمارے یہاں پیدا ہوتا ہے ہم سب اس کو برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔

پھر پوچھا، تمہارے یہاں کوئی درشت مزاج اور تندخو کیوں نہیں ہے۔ جواب دیا، کیونکہ ہم سب خاکسار اور متواضح ہیں۔ پھر سوال کیا، تم لوگوں کی عمریں دراز کیوں ہیں۔ جواب دیا، کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کے حق کو ادا کرتے ہیں اور حق کے ساتھ آپس میں انصاف کرتے ہیں۔ ذوالقرنین علیہ السلام: تم باہم ہنسی مذاق کیوں نہیں کرتے۔ کہا، تاکہ ہم استغفار سے غافل نہ ہوں۔ پوچھا، تم غمگین کیوں نہیں ہوتے۔ جواب ملا، ہم بچپن سے بلا و مصیبت جھیلنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ہم کو ہر چیز محبوب و مرغوب ہو گئی ہے۔ پھر پوچھا، تم لوگ آفات میں کیوں نہیں مبتلا ہوتے جیسا کہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ کہا، کیوں کہ ہم غیر اللہ پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ ہم نجوم وغیر پر- ہمارا بھروسہ صرف اللہ پر ہے اور وہی سب سے بڑا کارساز ہے-

تب حضرت ذوالقرنین نے کہا بیشک تم لوگ راہ راست پر ہو اور وہی لوگ کامیاب ہیں جو اپنے تمام امور میں اللہ کے حکم کو آگے رکھتے ہیں اور تمہارا حسن سلوک اور اتحاد ہی تمہارے لئیے آسانیاں پیدا کئیے ہوئے ہے کہ تم میں کوئی حریص یا حاسد نہیں اور نہ ہی کوئی شان و شوکت اور بلند مرتبے کے فخر و غرور کا خواہاں ہے اور تم موت کو یاد رکھے ہوئے ہو سو تم فتنوں کے خوف سے پاک ہو- اور بیشک جو اللہ واحد پر ایمان رکھتے ہیں اللہ انہیں آفات سے محفوظ رکھتا ہے- اور بعد اس کے ان لوگوں سے رخصت چاہی اور آگے کا سفر شروع کیا۔

تبصرے بند ہیں۔