انسان اور زمین کی حکومت (قسط 41)

رستم علی خان

دوسری طرف مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کے بعد حضرت یونس ؑ نے یہ سمجھا کہ وہ مرچکے ہیں مگر پاؤں پھیلایا تو اپنے آپ کو زندہ پایا- یعنی جب اپنی ٹانگوں کو حرکت دی تو وہ ہلیں تب جانا کہ ابھی زندہ ہیں-

بعد اس کے حضرت یونس علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا اور عاجزی سے اور روتے ہوئے توبہ استغفار کی، کیونکہ وہ وحی الہی کا انتظار اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لئے بغیر اپنی قوم سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے تھے۔ جس وجہ سے وہ ان تمام حالات اور مصائب میں پھنس چکے تھے- پھر مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس ؑ نے روتے ہو اللہ سے اپنی خطا کی یوں معافی مانگی۔

فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿ الانبیاء ۔87﴾

(آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا )

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کی پرسوز آواز کو سنا اور دعا قبول کی تو مچھلی کو حکم ہوا کہ حضرت یونس ؑ کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ،اُگل دے۔چنانچہ مچھلی نے دریا کے کنارے حضرت یونس ؑ کو اُگل دیا۔ حضرت یونس کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بارے مختلف روایات ہیں- بعض کے مطابق تین دن رہے اور بعد تین دنوں کے توبہ قبول ہوئی اور باہر نکالا گیا- اور بعض کے مطابق چالیس دن بعد آپ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی گئی- واللہ اعلم الصواب-
حضرت یونس علیہ کو جس جگہ مچھلی نے اپنے پیٹ سے باہر نکالا وہ ایسی ویران جگہ تھی جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ ،بلکہ بالکل چٹیل میدان تھا ،جب کہ حضرت یونس ؑ بے حد کمزور و نحیف ہوچکے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت یونس ؑ نومولود بچے کی طرح ناتواں کمزور تھے ۔آپ ؑکا جسم بہت نرم ونازک ہوگیا تھا اورجسم پر کوئی بال نہ تھا۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت یونس ؑ کے قریب کدو کی بیل اُگا دی تاکہ اس کے پتے آپ ؑ پر سایہ کئے رہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کےبموجب ایک جنگلی بکری صبح وشام آپ ؑ کو دودھ پلا کر واپس چلی جاتی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل ہی تھا ورنہ آپ ؑ ضعیف اور کمزور تر ہوتے چلے جاتے۔(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)۔ قرآن مجید مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد حضرت یونس ؑ کی حالت کو اس طرح بیان کرتا ہے:

افَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾ وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146﴾

آخرکار ہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔ (الصافات)

یعنی جب آپ مچھلی کے پیٹ سے نکلے تو بھوکے پیاسے رہنے کی وجہ سے آپ انتہائی حد تک کمزور ہو چکے تھے- دوسری جانب مچھلی کے جسم کی گرمی اور حرارت سے آپ کے سارے جسم کے بال بھی ختم ہو چکے تھے اور آپ کا سارا جسم بلکل نرم و نازک ہو رہا تھا- جیسے کوئی تھوڑی دیر کے لیے نیم گرم پانی میں اپنے ہاتھ ڈبوئے رکھے تو ہاتھوں کی کھال نرم ہو جاتی ہے-
چنانچہ جب آپ کو مچھلی نے چٹیل میدان میں اگلا تو سورج کی تپش آپ کو بہت زیادہ اور ناقابل برادشت محسوس ہوئی- تب اللہ کے حکم سے ایک کدو کی بیل آپ کے قریب اگی اور سایہ فگن ہوئی-

روایات میں مذکور ہے کہ کدو کی بیل اگانے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو اس کے پتے بڑے بڑے اور قدرے نرم و نازک ہوتے ہیں- دوسرا کدو کی بیل بہت جلد بڑھی ہو جاتی ہے- اس کا سایہ ٹھنڈا اور راحت بخش ہوتا ہے وغیرہ-

اس کے علاوہ اللہ تعالی نے آپ کے کھانے پینے کا انتظام ایک بکری کے زریعے سے کروایا جو صبح و شام آپ کو دودھ پلا کر جاتی۔

چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام اسی حال میں کچھ عرصہ وہاں پڑے رہے- آپ کے اوپر کدو کی بیل سایہ کئیے ہوئے تھی اور ایک بکری ہر روز جنگل سے آ کر آپ کو دودھ پلا کر چلی جاتی-اسی طرح آپ تب تک وہیں پڑے رہے جب تک کہ آپ کی صحت دوبارہ بحال نہ ہو گئی-

مذکور ہے کہ جب اللہ نے چاہا کہ یونس اب واپس جائیں تو ان کے اوپر سایہ کرنے والی بیل کو سوکھا دیا- جب حضرت یونس علیہ السلام نے بیل کو سوکھے ہوئے دیکھا تو آپ کو اس کا بڑا رنج ہوا اور دل میں خیال کیا کہ یہ کیا ہو گیا بھلا ضروری تھا کہ یہ بیل سوکھ جاتی- پھر اللہ تعالی سے اس کے بارے فریاد کی کہ یا الہی میرے پاس اس چٹیل اور تپتے ہوئے میدان میں ایک یہی تو شجر سایہ دار کا کام کرتی تھی- اب جب کہ یہ بھی سوکھ گئی ہے تو میں کدھر جاوں گا سورج کی گرمی اور تپش تو مجھے جھلسا کے رکھ دے گی-
فرمایا اے یونس تجھے اس بیل کے سوکھنے کا اس قدر دکھ کیوں ہو رہا ہے اسے ہم نے تمہارے اوپر سایہ کرنے کو اگایا اور اب ہمی نے اسے سوکھا دیا تو تم رنج کیوں کرتے ہو-

حضرت یونس نے فرمایا؛ الہی اس چٹیل میدان میں تیرے بعد ایک یہی تو میرے ساتھ رہی مجھے دھوپ اور گرمی سے بچائے رکھا- مجھے اس بیل سے محبت ہو چکی تھی اور مجھے اس کے سوکھنے کا دکھ ہوا ہے- کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ نہ سوکھتی اور ہمیشہ ایسے ہی رہتی-

تب اللہ تعالی نے فرمایا؛ اے یونس تجھے ایک درخت سے اس لیے محبت ہو گئی کہ اس نے تجھے سایہ اور راحت فراہم کئے رکھا اور تجھے اس کے سوکھنے کا ملال ہو رہا ہے- تو تم نے ایسا کیسے کہہ دیا کہ اس ساری قوم کو عذاب سے تباہ کر دے- تو کیا اللہ کو اپنے بندوں سے محبت نہیں ہے جو ان کے پیدا کرنے اور پالنے والا ہے- چنانچہ اب اٹھو یہاں سے اور واپس بستی میں جاو- حضرت یونس کو بڑا ملال ہوا اور عرض کی یا الہی میں واپس کیسے جاوں کہ میں تو انہیں عذاب کا وعدہ دے کے چلا تھا اور اب جب ان پر عذاب نازل نہیں ہوا تو وہ مجھے جھوٹا خیال کریں گے اور میری بات کو ہرگز تسلیم نہ کریں گے-

تب حکم ہوا کہ بےغم ہو کر جاو بیشک وہ تمام لوگ ایمان لا چکے ہیں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہوئے ہیں پس ہم نے ان کی توبہ کو قبول کیا اور ان پر سے عذاب کو اٹھا لیا-

بعد اس کے اپنے اہل و عیال کے بارے سوال کیا تو فرمایا کہ غم نہ کریں آپ کے اہل و عیال ساتھ سلامتی کے ہیں- چنانچہ بعد اس کے آپ اپنی قوم کی طرف لوٹے-

آپ کے اہل و عیال کے بارے روایت ہے کہ ان سب کو محفوظ رکھا گیا تھا- جب لٹیرے حضرت یونس کی بیوی کو لے کر وہاں سے چلے تو ان کا گزر حضرت یونس کی بستی سے ہوا- تب بستی والوں نے حضرت یونس کی بیوی کو ان کے قبضے میں دیکھا تو پہچان لیا اور ان لٹیروں کی قید سے آپ کو چھڑا لیا- اور ان سے حضرت یونس کے متعلق دریافت کیا تو آپ کی بیوی نے آپ کے اور بچوں کے بارے بتایا- تب بستی کے کچھ لوگ جنگل اور کچھ دریا کی طرف گئے- اور آپ کے دونوں بچوں کو بھی بچا لیا- واللہ اعلم الصواب-

اور ایک اور روایت میں ہے کہ ایک بچے اور بیوی کو دریا عبور کروا رہے تھے جب دوسرے بچے کی چیخ سنی تو بیوی کا ہاتھ چھوڑا اور بچے کو کندھے سے اتار کر دوڑے تو وہ دونوں ایک ساتھ دریا میں بہہ گئے اور وہیں سے لوگوں نے آپ کو نکالا اور بستی میں لے آئے اور دوسرے بچے کو بھی بھیڑیے سے بچا لیا- واللہ اعلم الصواب-

الغرض حضرت یونس واپس بستی میں آئے اور وہیں رہے وہیں انتقال فرمایا آپ کی قبر بھی دمشق میں ہی موجود ہے- واللہ اعلم الصواب-

روایت میں ہے کہ جناب یونس کی قوم ایک لاکھ سے زیادہ تعداد میں تھی- اور وہ تمام کے تمام ایمان لائے تھے اور ایک مدت تک اللہ تعالی نے انہیں فوائد دنیا سے ان کے ایمان کی بدولت بہرہ مند رکھا اور ان پر خوشحالی نازل کیے رکھی- واللہ اعلم الصواب۔

اب ہم آگے حضرت موسی علیہ السلام اور فروعون کے بارے بیان کریں گے- فرعون وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعوی کیا اور بنی اسرائیل پر بےانتہا ظلم ڈھائے- اللہ تعالی نے اس کی طرف حضرت موسی علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور اس کام میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے آپ کے سگے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی منصب نبوت سے سرفراز فرمایا-

کہتے ہیں کہ فرعون ہیں کہ فرعون کے باپ کا نام معصب اور دادا کا نام ملک ریان تھا- اور بعض نے کہا کہ فرعون کا نام معصب بن ولید بن ریان تھا- اور چار سو برس اس کی عمر تھی اور اس مدت میں کبھی بیمار نہ ہوا تھا- یہاں تک کہ کبھی سر درد بھی نہ ہوا تھا- اور نہ ہی کبھی کوئی دشمن اس پر غالب آیا تھا- واللہ اعلم الصواب

فرعون اسے اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مصر کا بادشاہ تھا اور مصر کے تمام فرمانرواوں کو فرعون ہی کہا جاتا تھا- اور دوسری وجہ اس کی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس ملعون نے دعوی خدائی کا کیا تھا اور لوگوں کو کہتا کہ مجھے سجدہ کرو میں ہی تمہارا خدا ہوں- اور جو سجدہ نہ کرتا یا انکار کرتا اسے وہ ملعون قتل کروا دیا کرتا تھا- اسی وجہ سے بھی اسے فرعون کہا جاتا یعنی کبر و تکبر سے بھرا ہوا- اس نے جب دعوی خدائی کا کیا تو اس کے بعد اللہ تعالی نے اسے مصائب میں مبتلا فرمایا اور جب وہ کسی طور نہ مانا تو بالآخر اسے غرق نیل کیا گیا-

مذکور ہے کہ فرعون کی پیدائش بلخ میں ہوئی تھی- وہاں سے سیاحت کے لیے نکلا اور بیوشخنہ ایک شہر ہے وہاں تک آیا- یہاں اس کی ملاقات ہامان بےایمان سے ہوئی جو کہ اس شہر کا ایک باشندہ تھا- اس نے فرعون سے اس کے متعلق پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو اور آگے کدھر کا ارادہ رکھتے ہو- تب فرعون نے اسے اپنا نام اور مقام بتایا اور کہا کہ میں شوق سیاحت میں نکلا ہوں- تب ہامان بولا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا اور سیر کروں گا- چنانچہ دونوں ملعون وہاں سے اکٹھے چلے اور مصر میں پنہچے-
تب خربوزوں کا موسم تھا چنانچہ بھوک کی وجہ سے دونوں ایک کھیت میں پنہچے اور خربوزوں والے سے کھانے کا سوال کیا- تب خربوزے والے یعنی کھیت کے مالک نے کہا کہ میں تمہیں ایک شرط پر کھانے کو دوں گا اگر تم میرے خربوزے شہر لے جا کر بیچ آو تو بدلے میں میں تمہیں کھانے کو کچھ بطور اجرت دوں گا- چنانچہ فرعون نے ہامان کو وہیں چھوڑا اور خود گدھوں پر خربوزوں سے بھرے بورے لاد کر شہر کی طرف چل دیا-

جب وہ شہر کے دروازے پر پنہچا تو دروازے پر کھڑے پہریداروں نے روک لیا اور پوچھا کہ ان بوروں میں کیا ہے ؟ فرعون نے کہا خربوزے ہیں- چنانچہ پہریداروں نے کہا کہ ان میں سے کچھ خربوزے یہاں رکھ دو اور جاو- فرعون نے کہا کہ یہ میرے مالک ہیں اس نے مجھے بیچنے کے واسطے دئیے ہیں اور میں اس کا غلام ہوں سو میں بنا اس کی اجازت یہ کسی کو مفت نہیں دے سکتا- پہریداروں نے کہا اگر ایسا نہ کرو گے تو ہم ہر گز تمہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں گے-

لہذا جب فرعون نے کوئی راہ دوسری نہ پائی تو ان میں سے چند خربوزے پہریداروں کو بطور رشوت ادا کیے اور شہر میں داخل ہوا-
شہر میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی دیکھی- شہر کے اندر جانے پر اسے بازار میں گشت پر معمور سپاہیوں نے روکا اور اس کے اور اس کے مال کی بابت دریافت کیا- فرعون کے بتانے پر ان لوگوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا دروازے پر معمور پہریداروں نے کیا- پھر جو مال بچا اسے بیچنے کے لیے وہ مناسب جگہ کی تلاش کرنے لگا- لیکن کوئی دوکاندار اسے اپنی دوکان کے سامنے اپنا مال لگانے کی اجازت نہ دیتا بنا کچھ دئیے- چنانچہ یہاں بھی کچھ خربوزے دئیے اور ایک دوکان کے آگے اپنا مال بیچنے کو بیٹھ گیا-
دوکانداروں نے اس سے کہا کہ یہاں لوگ زرباتی سے بھی پھل سبزی اور ترکاری وغیرہ خریدتے ہیں اور کچھ نقد پیچھے نہیں رکھتے- یعنی اگر کسی کے پاس ایک چیز یا جنس ہے تو وہ اس میں سے جتنی مقدار تمہیں دے گا بدلے میں تم سے اتنی ہی مقدار میں تمہارا مال یا جنس خرید لے گا- اور اس پر کوئی نقدی باقی نہ رہے گی یعنی اگر تمہارا مال قیمت میں زیادہ ہو تب بھی اور یہی ہمارے شہر کا دستور ہے- الغرض فرعون نے سارے خربوزے مختلف اجزا اور اجناس کے بدلے میں بیچے اور شہر سے واپس چلا اور کھیتوں کے مالک کو جو کچھ کمایا تھا دیا اور اس کے گدھے اس کے حوالے کیے اور کہا کہ مجھے یہ کام پسند نہیں آیا اور واپس شہر کی طرف چل پڑا- اور شاہ مصر کے سامنے ایک عرضی پیش کی اور کہا کہ میں غریب الوطن ہوں لہذا مجھے اپنے شہر میں رہنے کی اجازت دی جائے-

اور بعضوں نے کہا کہ جب اس نے شہر میں یہ صورت حال دیکھی تو واپس جانے کی بجائے شہر میں ہی رک گیا اور ایک قبرستان میں قیام کیا- اسے وہاں رہتے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ کچھ لوگ قبر نکالنے آ گئے- فرعون نے ان سے کہا کہ میں اس گورستان کا دروغہ ہوں لہذا اگر تم یہاں قبر نکالنا چاہتے ہو تو اس کے لیے ایک سونے کا سکہ مجھے دینا ہو گا تبھی قبر نکالنے کی اجازت دوں گا-

تبصرے بند ہیں۔