انسان اور زمین کی حکومت (قسط 48)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت موسی نے دروازے کا حلقہ پکڑ کر ہلایا جس سے پورا محل لرز اٹھا- اور ساتھ میں آواز دی کہ میں اللہ کا رسول ہوں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے- یہ آواز فرعون کے کان میں بھی پڑی اس نے پردہ اٹھا کر دیکھا اور حضرت موسی علیہ السلام کو دیکھ کر پھر سے چپکا پڑا رہا-

ایک روایت کے مطابق حضرت موسی اپنے بھائی ہارون کے ساتھ دو برس تک فرعون کے محل کے دروازے پر جاتے رہے اور خادموں اور دربانوں سے کہتے کہ ہم اللہ کے رسول ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے پس ہمیں فرعون کے پاس جانے دو تاکہ ہم اسے راہ راست کی طرف دعوت دیں اور پیغام حق اس تک پنہچائیں-

پر وہ مردود کہتے کہ تم رسول نہیں بلکہ دیوانے ہو- فرعون ہمارا رب ہے اور اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے- اور آپ کو فرعون کے محل میں جانے کی اجازت نہ دیتے-

اسی طرح حضرت موسی اور ہارون روز فرعون کے محل جاتے اور خادموں سے کہتے کہ ہمیں فرعون کے پاس جانے دو یا اسے ہی ہمارے آنے کے بارے خبر کرو- ہم اللہ کیطرف سے بھیجے ہوئے ہیں اس کا پیغام پنہچانے اور اس کو راہ حق دکھانے- لیکن وہ کافر آپ کی بات نہ مانتے-

پھر ایک دن ایک شخص فرعون کے پاس گیا اور کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ دو لوگ قریب دو برس سے روزانہ تمہارے دروازے پر آتے ہیں اور تم سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور عجیب باتیں کرتے ہیں کہ ہمارا رب اور ہے جو تمام جہانوں کا مالک اور پالنے والا ہے اور یہ کہ تم جھوٹے ہو اور راستے سے بھٹکے ہوئے- یہ سن کر فرعون خفا ہوا اور ان کو اپنے پاس بلا بھیجا-

تب فرعون نے جب حضرت موسی کو دیکھا تو پہچان لیا اور کہنے لگا- کیا میں نے تجھے برسوں تک نہیں پالا تھا ایک بیٹے کی طرح اور بجائے اس کے کہ ھمہارا احسان مانے اور ہمارا شکر کرے الٹا تم ناشکری کرتے ہو میری- اور تم نے ہمارے یہاں ایک قبطی کو بھی تو قتل کیا تھا جس کا خون کرنے کے بعد تم یہاں سے فرار ہوئے تھے اور اب اپنا جرم چھپانے کو تم آ کر مجھے ہی جھوٹا اور ناشکرا کہتے ہو جبکہ حقیقت میں ناشکری تو تم کر رہے ہو-

تب حضرت موسی نے فرمایا کہ ہاں بیشک میں وہی ہوں اور میں نے ہی وہ غلطی کی تھی اس وقت میں چوکنے والا تھا- پھر میں بھاگا یہاں سے اور مجھے ڈر تھا کہ تم لوگ اگر مجھے پا لو گے تو مجھے ضرور قتل کر دو گے- پھر میرے اللہ نے مجھے بخشا اور مجھے حکومت عطا کی اور رسالت عطا فرمائی- اور اب میں تمہارے پاس آیا ہوں اپنے رب کا پیغام پنہچانے اگر تم سمجھ سکو تو-

تب فرعون نے پوچھا کہ کون ہے تمہارا رب کہ جس نے تمہیں بھیجا ہے میرے پاس- حضرت موسی نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو زمین و آسمانوں کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب- اور وہی تمام جہانوں کا بنانے والا اور پالنے والا ہے- اگر تم یقین لانے والے ہو تو-

فرعون نے اپنے گرد کھڑے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا- کیا تم نے سنا موسی کیا کہتا ہے- یہ کہتا ہے تمہارا اور تمہارے باپ داداوں کا رب ایک ہی ہے- یعنی ایسا رب جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہتا ہے اور وہی اگلے پچھلوں کا پرودگار ہے اور تمام جہانوں کا بھی- اور کہا کہ تمہارا پیغام لانے والا جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے دیوانہ ہے- یعنی ایک ایسے رب کی بات کرتا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور سب کا رب وہی اکیلا ہے-

حضرت موسی نے فرمایا کہ یہ پیغام بھیجنے والا صرف ان لوگوں اور ان کے اگلے پچھلوں کا خدا نہیں بلکہ وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا اکیلا رب ہے- اور تم اس بات کو سمجھتے ہو- یعنی فرمایا تم جانتے ہو جو میں کہہ رہا وہ سب سچ ہے لیکن تم جان بوجھ کر اس سے انکاری ہو رہے ہو-

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام ایک ایک بات کھول کر بیان کر رہے تھے اور ان کے تمسخر پر بھی نرمی سے سمجھا رہے تھے اور اللہ کی قدرت اور نشانیاں بتا رہے تھے- اور فرعون نہ صرف خود انکاری تھا بلکہ اپنے سرداروں کو بھی ابھارتا تھا بیچ میں کہ کہیں یہ لوگ یقین نہ کر لیں حضرت موسی کا-

اور جب فرعون نے دیکھا کہ حضرت موسی اپنی بات پر پکے ہیں اور کوئی جواب نہ بن پڑا تو اس نے حضرت موسی کو ڈرانا چاہا اور کہا؛ کہ ان لوگوں کا اور تمہارا معبود میں ہوں پس اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو میں تمہیں قید کر دوں گا- یعنی اگر تم میری ربویت کو قبول کر لو تو میں تمہارا پچھلا گناہ معاف کر دوں گا اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے تو قید بھگتو گے-
حضرت موسی نے فرمایا کہ مجھے تیری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے تاکہ تجھے حق کا پیغام پنہچا سکوں اور تم مجھے کوئی نقصان نہیں پنہچا سکتے- ہاں اگر تم میری بات مانوں گے تو نا صرف بہت بڑے نقصان سے بچ جاو گے بلکہ تمہیں اور بھی نوازا جائے گا- پس اگر تم چاہتے ہو کہ تم کامیاب ہو جاو تو کلمہ پڑھ لو- لاالہ الا اللہ-

فرعون نے کہا اگر میں تمہارا کلمہ پڑھ لوں تو تمہارا رب مجھے اس کے بدلے میں کیا دے گا- حضرت موسی نے فرمایا کہ اگر تم کلمہ پڑھ لو گے تو میرا اللہ تمہیں تین چیزیں عطا کرے گا۔

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا اگر تم اللہ پر ایمان لے آو اور کلمہ پڑھ لو تو رب تعالی تمہیں تین نعمتیں عطا فرمائے گا- پہلی تمہاری بادشاہت کو خوب بڑھائے گا- دوسرا تمہاری جوانی لوٹ آئے گی- اور تیسرا تمہاری عمر دراز ہو گی اور عمر میں برکت اور صحت دی جائے گی- اور مرنے کے بعد ڈھیروں انعامات اور جنت سے نوازا جائے گا- اور ان کا کوئی حد حساب نہ ہو گا-

چونکہ حضرت موسی کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ فرعون سے نرم بات کیجئو اس لیے آپ اس سے نرم لہجے میں اس کے نفع اور فائدے کی بات بیان فرما رہے تھے کہ شائد کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئے-

فرعون نے جب یہ باتیں سنیں تو سوچ میں پڑ گیا- پھر کہنے لگا کہ مجھے سوچنے کو وقت دو میں اس بارے کل اپنی رائے بیان کروں گا- آج میں اپنے وزیروں مشیروں سے مشورہ کر لوں- اور حضرت موسی اور ہارون وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے آئے-
بعد میں فرعون نے ہامان کو بلا بھیجا اور جو جو باتیں حضرت موسی سے ہوئیں سب بیان کیں- پھر کہنے لگا کہ مجھے کسی اور چیز کی لالچ نہیں بس چاہتا ہوں کہ میری جوانی لوٹ آئے- اور پھر سے نوجوان ہو جاوں-

تب وزیر ہامان ملعون نے کہا کہ یہ تو کیا کرتا ہے- ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تم نے دعوی معبودیت کا کیا ہے اور اب دوبارہ عبدیت کا اعلان کرنا چاہتے ہو- خلائق ہنسے گی تم پر- اور کہا کہ اگر تمہیں جوان ہونے کا اتنا ہی شوق اور خواہش ہے تو مجھے آج رات کا وقت دو صبح تک میں تمہیں جوان کر دوں گا-

فرعون نے پوچھا بھلا تم ایسا کس طرح کر سکتے ہو- ہامان نے کہا تم بس آج کی رات صبر کر لو صبح تک معلوم ہو جائے گا- چنانچہ اس نے جواہر خاص لیے اور انہیں پیس کر ایک ترکیب سے ان کا خضاب بنا کر فرعون کی داڑھی اور بالوں وغیرہ میں لگا دیا- جب صبح کے وقت اٹھ کر دیکھا تو اپنی داڑھی کو کالا دیکھ کر خوش ہوا اور سمجھا کہ وہ پھر سے جوان ہو چکا ہے-

پھر جب حضرت موسی اور ہارون آئے تو کہنے لگا کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ ہم مانیں تم اللہ کے رسول ہو اور اللہ کا پیغام لیکر آئے ہو- اگر تم سچے ہو تو کوئی مجزہ دکھاو- کیونکہ معجزے صرف انبیاء علیہ السلام کے پاس ہی ہوتے ہیں-

حضرت موسی نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں معجزہ دکھاوں تو کیا تم مانوں گے کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور ایمان لاو گے-

فرعون نے کہا ہاں اگر تم معجزہ لاو تو پھر ایمان لاوں گا اور مانوں گا تم سچے ہو-

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک ناگہاں اژدھا بن گیا- جو اسی گز لمبا، ستر پاوں ہاتھی کے پیروں سے بڑے اور جسم کی لویں نیزے سے بھی زیادہ سخت اور تیز تھیں- اس کا سانس جس جگہ پڑتا ہر چیز کو جلا کر رکھ دیتا- اور اگر اس کا سانس کسی آدمی پر گرتا تو مار دیتا یا برص کی طرح نشان بن جاتے- اور سات سو دانت اس کے-

اور اس قدر ہیبت ناک شکل سے وہ سانپ فرعون کے محل کے بالا خانے کیطرف بڑھا- اس میں بہت سے آدمی اور جانور اس کے پاوں کے نیچے دب کر مر گئے- اور فرعون نے کے تحت کے قریب پنہچ کر ایک لب فرعون کے تحت کے نیچے رکھا اور دوسرا لب بالا خانے کی منڈیر کے کنگروں پر رکھا اور یوں ظاہر ہوتا تھا کہ پورا محل فرعون سمیت ایک ہی بار میں نگل جائے گا-

تب فرعون ڈرا اور تحت سے اتر کر حضرت موسی سے معذرت کرنے لگا- اور کہا کہ اے موسی یہ تو مجھے دعوت کرنے آیا ہے یا برباد کرنے- حضرت موسی نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا پیغام پنہچانے آیا ہوں؛ فرعون نے کہا کہ ابھی مجھے تم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے پس تم اپنی اس بلا کو تھام لو نہیں تو یہ میرا محل نگل جائے گا اور مجھے برباد کر دے گا- تب حضرت موسی نے اسے گردن سے پکڑا تو وہ دوبارہ بے جان عصا ہو کر آپ کے ہاتھ میں آیا- بعد اس کے فرعون اپنے تحت پر جا بیٹھا۔

تبصرے بند ہیں۔