انسان اور زمین کی حکومت (قسط 62)

رستم علی خان

چنانچہ قوم بنی اسرائیل کی خواہش پر اللہ تعالی نے اسی جھاڑ والی بنجر زمین سے انہیں اجناس اور غلہ دیا- اور گیہوں اور چنے اور دالیں اور جو کچھ بیجتے سب اللہ کے فضل سے اچھا ہوتا- پھر ایک مدت بعد کہنے لگے کہ ہم سے نہیں ہوتی کھیتی باڑی اے موسی اللہ سے دعا کرو کہ ہمارے لیے من و سلوی اتارے- فرمایا کہ ہرگز نہیں یہ تمہاری خواہش تھی پس اب خود سے اجناس اگاو اور انہیں کھاو- کہ تم نے پسند کی اپنے لیے ایک چیز جو ادنی ہے بدلے میں اس چیز کے جو بہتر تھی-

بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جس نے ہمیشہ اللہ کی نافرمانی کی اور رسول اللہ کی باتوں کو جھٹلایا- اس سے پہلے بھی جب قوم بنی اسرائیل مصر میں تھی تو یہ لوگ مچھلی کا شکار کرتے- حضرت موسی کی طرف اللہ تعالی نے وحی کی کہ اے موسی ان سے کہئیے کہ ہفتے کے باقی چھ دن شکار کریں لیکن ہفتہ والے دن کو شکار نہ کریں اس دن ان کے شکار کرنے پر پابندی ہو گی- حضرت موسی علیہ السلام نے قوم سے کہا کہ اللہ کا حکم ہے کہ ہفتہ کے دن کو شکار نہ کرو باقی چھ دن تمہارے شکار کے ہیں لیکن ہفتہ کو ہماری عبادت کے لیے مخصوص کر لو- چونکہ ہفتہ والے دن مچھلی زیادہ آتی تھی اس لیے اول تو وہ لوگ نہ مانے-

بعد اس کے یوں کرتے کہ جمعہ کو عصر کے بعد جال ڈال آتے اور اتوار کو صبح کے وقت نکال لاتے- تب حضرت موسی نے انہیں پھر سے سمجھایا کہ اے قوم یوں نہ کرو تم اللہ کے ساتھ چال چلتے ہو حالانکہ اللہ سب جاننے اور دیکھنے والا ہے- تب قوم نے کہا اے موسی تم نے کہا کہ اللہ کا حکم ہے کہ ہفتے کو شکار نہ کرو- پس ہم ہفتے کو شکار کی طرف نہیں جاتے- البتہ اگر ہم جمعہ کو جال ڈال آتے ہیں اور اتوار کو نکالتے ہیں تو اس میں بھلا کیا مضائقہ ہے-

الغرض جب نافرمانی کی اور اللہ سے چال چلنے سے باز نہ آئے تو سوتے میں بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے- پھر جب صبح اٹھے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر تعجب کرتے- اور اسی حال میں جنگلوں میدانوں کی طرف بھاگے اور وہیں مر گئے-

القصہ جب بنی اسرائیل کو عرصہ تیس سال اس میدان میں ہوا تو حضرت موسی اور ہارون علیہم السلام کی وفات ہوئی- اور چالیس سال کی مدت پوری ہونے تک اس قرن کے سبھی لوگ مر گئے سوائے یوشع اور کالوت کے اور آل بنی اسرائیل یعنی وہ جو مصر سے نکلنے کے بعد تولد ہوئے تھے اور اس میدان میں- اور بعد چالیس سال کے جب مدت ان کی پوری ہوئی تو اللہ کی طرف سے انہیں رہائی نصیب ہوئی اس میدان سے اور پھر وہاں سے وہ سب مصر شام اور مختلف علاقوں میں جا آباد ہوئے۔

روایت کی گئ ہے کہ ایک دن حضرت موسی علیہ السلام اسی میدان تیہ میں بیٹھے لوگوں کو تورات کا درس دے رہے تھے اور وعظ و نصیحت فرما رہے تھے- اور ایک سفید بادل آپ کے سر پر سایہ کیے ہوئے تھا- قوم تمام آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کے علم و نصیحت سے استفادہ حاصل کر رہے تھے- تب کہنے لگے کہ بھلا جتنا علم ہمارے پاس ہے اتنا کائنات میں کس کے پاس ہو گا- تب ایک کہنے والے نے کہا بیشک اے موسی جتنا علم اور مقام و مرتبہ آپ کو عطا کیا گیا اتنا اور کسی کے پاس کیا ہو گا- اور سارے درجہ علم میں آپ کے برابر کوئی نہیں- حضرت موسی نے فرمایا سچ کہتے ہو کہ نہیں دیکھتا میں بھی کسی کو اپنے برابر- اور حضرت موسی نے ایسا اس واسطے کہا کہ اتنی بڑی اور مفصل کتاب توریت تھی اور آپ نے ساری کو حفظ کیا ہوا تھا- اور بلاواسطہ خدا سے تکلم کیا تھا-

تب جناب باری سے عتاب آیا کہ اے موسی تو ایسا ہرگز خیال مت کر کہ کوئی تجھ سا نہیں- میرے بندوں میں تجھ سے بھی زیادہ علم والے لوگ بھی ہیں- اور تجھ کو کیا معلوم کہ میں نے کس کو زیادہ علم دیا ہے- اور اے موسی ہمارا علم تو وہ ہے کہ جس کا نہ کوئی حد ہے اور نہ خساب- پس جسے جتنا چاہیں عطا کریں- پھر فرمایا اے موسی ہمارا ایک بندہ ہے مجمع البحرین میں تو اس سے جا کر ملاقات کر- پھر دیکھ کہ زیادہ علم کس کے پاس ہے تجھے علم زیادہ عطا ہو یا اسے-

تب حضرت موسی علیہ السلام نے اس شخص سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور عرض کی کہ الہی وہ کون شخص ہے اس کو مجھے دکھا کہ اس کے علم سے استفادہ حاصل کروں- تب حکم ہوا اے موسی مجمع البحرین کے پاس ایک میدان ہے اس میدان میں وہ رہتا ہے- گمراہوں کو راہ بتاتا ہے اور مردہ کو زندہ کرتا ہے اور زندہ کو مردہ کرتا ہے- اور بھی کئی کام ہیں جو اس کے ذمہ ہیں- نام اس کا خضر علیہ السلام ہے پس اسے جا کر مل اور دیکھو کہ اس کے پاس کیا کرامات ہیں اور یہ کہ کس کا علم زیادہ ہے دونوں میں سے-

تب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے اپنے ساتھ یوشع بن نون کو ہمراہ لے کر مجمع البحرین کی طرف چلے- اور آپ نے یوشع سے فرمایا کہ میں ہرگز اسے ڈھونڈے بنا واپس نہ ہٹوں گا کہ جہاں دو دریاوں کے کنارے ملتے ہیں چاہے مجھے برسوں تک سفر کیوں نہ کرنا پڑے-

پس دونوں حضرات چلے مجمع البحرین کی جانب چلے اور مجمع البحرین دو دریاکا نام ہے جو فارس اور روم کے مابین جانب مشرق کے واقع ہے- اور انہوں نے اپنے ساتھ کھانے کو تلی ہوئی مچھلی رکھی تھی جو یوشع کے پاس موجود تھیلے میں رکھی ہوئی تھی- چنانچہ جب اس مقام پر پنہچے تو یوشع نے مچھلی والی زنبیل اتار کر ایک پتھر پر رکھی اور دریا کے پانی سے وضو کرنے لگے تو ایک قطرہ پانی کا انگلی سے گر کر مچھلی پر گرا جس سے وہ مچھلی جی اٹھی اور تھیلے میں سے سرنگ بنا کر دریا میں اتر گئی- چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے؛ پس جب پنہچے دونوں دریا کے ملاپ تک بھول گئے اپنی مچھلی پس اس نے اپنی راہ لی دریا میں سرنگ بنا کر-

یوشع نے چاہا کہ حضرت موسی سے اس بات کا ذکر کریں- موسی علیہ السلام سوئے ہوئے تھے پس اس نے سوچا جب اٹھیں گے تو ماجرہ بیان کرے گا- پس جب اٹھے موسی تھوڑی دیر کے بعد تو اسی جگہ بھول گئے اپنی زنبیل کو اور دونوں آگے بڑھ گئے- پھر دوسرے دن بھی فجر کی نماز پڑھ کر جلد روانہ ہوئے راستے میں حضرت موسی علیہ السلام کو بھوک لگی تو اس وقت یوشع سے وہ مچھلی کھانے کو مانگی- چنانچہ ارشاد ربانی ہے؛ پس جب آگے چلے دونوں کہا موسی نے اپنے جوان کو دے ہم کو کھانا ہمارے صبح کا تحقیق ہم نے پائی سفر میں تکلیف-

تب یوشع نے کہا کہ آپ نے دیکھا جب ہم نے اس پتھر کے قریب جگہ پر پڑاو کیا تھا تب میں وہیں مچھلی کو بھول گیا اور یہ مجھے شیطان نے ہی بھلا دیا کہ میں آپ سے زکر کروں اس بات کا کہ وہاں سے مچھلی عجیب طریقے سے زندہ ہو کر دریا میں اتر گئی سرنگ بنا کر۔

تبصرے بند ہیں۔