انسان اور زمین کی حکومت (قسط 64)

رستم علی خان

 تیسرا جو دیوار میں نے سیدھی کی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی- جو اسی شہر میں رہتے ہیں- اور اس دیوار کے نیچے ان کا مال گڑا تھا- اور ان کے ماں باپ نیک اور صالح تھے- لوگوں کو قرض حسنہ دیتے تھے- جلدی واپسی کا تقاضا نہیں کرتے تھے بلکہ نرمی سے لیتے تھے- سود نہیں کھاتے تھے اور نہ خیانت ہی کرتے تھے کسی کی- اور خلق کو آزار اور تکلیف نہیں دیتے تھے- اور خدا کے بہت محبوب تھے- پس اس ابب چاہا تیرے رب نے کہ جب دونوں لڑکے جوانی کو پنہچیں تو اپنا گڑا ہوا مال خود نکالیں اس دیوار کے نیچے سے اپنے رب کی مہر سے- اور یہ سب میں نے کیا رب کے حکم سے- وہ دیوار قریب تھی گرنے کے پس اگر وہ دیوار گرتی تو مال نظر آنے لگتا اور اس شہر کے لوگ جو بدخیانت ہیں سو لے جاتے سارا مال اور وہ دونوں یتیم بچے محروم رہ جاتے- اس لیے میں نے اس کی مرمت کی بےمزدوری کے-

اور پھر کہا خضر نے اے موسی یہ تھے بھید ان باتوں کے کہ جن پر تو نہ ٹھہر سکا اور نہ صبر کر سکا- پس تو نے جلدی کی سو یہاں سے ہمارے تمہارے راستے جدا ہوئے- اور فرمایا کہ اے موسی تم نے سمجھا کہ تمہارے برابر کسی کو علم نہیں ہے- اور جان رکھو کہ خدا کے بندے ایک سے ایک ایسے ہیں کہ جن کے علم کے برابر تمہارا علم رائی اور سرسوں کے برابر ہے- اور فرمایا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے درمیان جدائی ہو چند اچھی نصیحتیں کیے دیتا ہوں اور انہیں ہمیشہ یاد رکھو-

اول یہ کہ خوشرو اور خوش اخلاق لوگوں میں رہئیو تب عزت وقار تمہارا خوب ہو گا- اور غرور و تکبر اور فخر و گھمنڈ کسی بات یا چیز پر نہ کیجئو کہ اللہ ایسوں کو اپنا دوست نہیں رکھتا- اور یہ کہ سوائے اللہ تعالی کی زات کے کسی کے سامنے اپنی حاجت نہ بیان کیجئو اور نہ کسی سے حاجت مانگئیو- خواہ اپنے واسطے ہو یا کسی دوسرے کے واسطے ہمیشہ اللہ سے بیان کیجئو تب مقبول ہو گے- پس خضر علیہ السلام یہ فرما کر غائب ہو گئے-

بعد اس کے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر سے رخصت پو کر واپس اپنی قوم میں آ گئے- قوم نے کہا اے حضرت آپ خضر علیہ السلام سے کونسا علم سیکھ کر آئے ہیں سو ہمیں بھی اس بارے بیان کیجئے- حضرت موسی نے فرمایا جو میں دیکھ سن کر آیا ہوں سو تم سے بیان کرنے کے قابل نہیں ہے سوا کسی نبی کے- الغرض جب تیس برس حضرت موسی اور ہارون علیہم السلام کو اپنی قوم کے ساتھ اس میدان تیہ میں گذرے- تب ایک روز حضرت موسی پر وحی نازل ہوئی اللہ کی طرف سے کہ اے موسی فلاں روز فلاں جگہ اور فلاں وقت پر ہاروں علیہ السلام کی آپ سے جدائی ہو جائیگی اور یہ کہ وہ اللہ کے پاس چلے جائیں گے- یعنی حضرت ہارون کے انتقال کی خبر دی گئی-

تب حضرت موسی علیہ السلام اس ارشاد کے بعد اس دن کا انتظار کرنے لگے کہ جو ارشاد ہوا تھا- چنانچہ جب وعدہ کا دن آیا تو جناب موسی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا اے بھائی چلو یہاں سے تھوڑی دور ایک اور میدان ہے وہاں چلتے ہیں- چنانچہ دونوں بھائی وہاں سے چلے اور اپنی قوم سے نکل کر ایک دوسرے میدان میں آ گئے- وہاں ایک باغ دیکھا جس کے نیچے ایک نہر جاری دیکھی اور اس کے کنارے ایک تخت تکلف کا دھرا دیکھا- حضرت ہارون علیہ السلام اس تخت پر جا بیٹھے اور حضرت موسی سے فرمایا کہ اے بھائی یہ جگہ کیا خوب ہے اور میں چاہتا ہوں یہیں رہ جاوں- تب خدا کے حکم سے ملک الموت نے آ کے ان کی جان قبض کی- حضرت موسی نے یہ دیکھ کر بہت تاسف کیا- اور اکثر کا قول یہ ہے کہ حضرت ہارون کو اللہ نے تخت سمیت آسمانوں میں اٹھا لیا- اور بعض کہتے ہیں کہ زمین کے نیچے لے گئے- واللہ اعلم الصواب-

بعد اس کے حضرت موسی نے اپنی قوم سے جا کے کہا کہ ہارون کا انتقال ہو گیا ہے- یہ سنکر قوم نے کہا کہ بھلا ایسے کیونکر ممکن ہے ہاں یہ ہے کہ شائد تم نے خود انہیں قتل کر دیا ہو- حضرت موسی نے فرمایا کہ نہیں بھلا میں کیوں ماروں گا اور یہ کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے انہیں نہیں مارا- قوم نے کہا اگر آپ نے نہیں مارا تو اس کی لاش کہاں ہے ہم کو دکھاو کہ اسی سے اصل معاملہ معلوم ہو سکتا ہے۔

چنانچہ جب قوم نے جناب ہارون کی لاش دیکھنے کی ضد کی تب جناب موسی نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی کہ الہی تو سب کچھ بہتر جانتا ہے پس تو ہی میری مشکل کو آسان فرما اور انہیں ہارون کی لاش دکھا دے- آپ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت ہارون کی لاش ظاہر ہوئی آسمانوں سے یا زمین سے- پس قریب جا کر دیکھا تو کوئی نشان وغیرہ اس پر نہ پایا- تب پھر کہنے لگے کہ ہمیں نہیں یقین کہ ہارون کا انتقال ہوا بلکہ یقینا آپ نے ہی اسے قتل کیا ہے- اور قوم حضرت ہارون علیہ السلام کو زیادہ دوست رکھتی تھی چونکہ وہ ہمہ وقت قوم کے پاس اور ساتھ رہتے تھے- چنانچہ کہنے لگے کہ ہارون چونکہ ہمیں زیادہ محبوب تھا اس لیے اے موسی آپ نے اسے مار دیا- تب پھر حضرت موسی نے فریاد کی بارگاہ الہی میں کہ الہی تو ہی اس معاملے کو حل فرما- تب حضرت ہارون اللہ کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوئے اور فرمایا کہ خبردار اے قوم سن رکھو کہ مجھے میرے بھائی نے نہیں مارا بلکہ میرا انتقال رضا الہی سے ہوا ہے- اتنا فرما کر دوبارہ انتقال فرمایا اور آپ کی لاش بھی غائب ہو گئی-

چنانچہ جب قوم کو یقین ہو گیا کہ جناب ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا ہے اور یہ کہ موسی نے انہیں نہیں مارا تب حضرت موسی دوبارہ قوم کے ساتھ اسی میدان تیہ میں رہنے لگے اور یوشع بن نون کہ جس کے بارے آتا ہے کہ وہ رشتے میں حضرت موسی و ہارون کا بھانجا لگتا تھا اور نیک مومن مرد تھا کو اپنا وزیر اور خلیفہ مقرر کیا- بعد اس کے جناب موسی اپنی قوم میں رہتے اور شریعت اور احکام الہی سناتے اور سکھاتے- اسی طرح جب تین برس کا عرصہ مزید گزرا تو ایک دن جناب عزرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا- حضرت موسی نے فرمایا اے عزرائیل کہو کیسے آنا ہوا- زیارت کرنے کو حاضر ہوئے ہو یا جان لینے کو-

عزرائیل نے فرمایا کہ جان قبض کرنے کو حاضر ہوا ہوں- تب پوچھا کہ کہو تو تم میری جان کس راہ سے نکالو گے- عزرائیل نے فرمایا منہ سے- بولے منہ سے تو میں نے خدا سے تکلم کیا ہے- پھر فرمایا آنکھ سے نکالوں گا- موسی نے فرمایا آنکھ سے تو میں نے خدا کا نور دیکھا ہے- عزرائیل نے فرمایا پاوں کے راستے قبض کر لوں گا- فرمایا ان پاوں سے چل کر میں اللہ سے ہمکلام ہونے طور پر جاتا رہا ہوں- چنانچہ عزرائیل نے فرمایا کہ میں آپ کی جان اللہ کے حکم سے قبض کروں گا- تب غصہ ہوئے حضرت موسی اور فرمایا کہ اے عزرائیل میں نے ہزار بار خدا سے بالواسطہ کلام کیا ہے اور کوئی واسطہ بیچ میں نہیں تھا- اب مجھے اس کی عزت کی قسم کہ میں اتنی جلدی جان اپنی تسلیم نہیں کروں گا- خدا سے میرا اور بھی سوال ہے- پس تو چلا جا-

چنانچہ ملک الموت یہ سن کر واپس چلے گئے اور بارگاہ الہی میں عرض کی الہی تو خوب جانتا ہے جو کچھ موسی نے مجھ سے کہا کہ اس وقت وہ جان اپنی تسلیم نہیں کرے گا- تب اللہ تعالی نے حضرت موسی سے خطاب فرمایا کہ کہئیے اے موسی ہمارے پاس نہیں آنا چاہتے یا ہمارا حکم تسلیم کرنے میں کوئی مشکل درپیش ہے- حضرت موسی نے فرمایا الہی نہ تو مجھے جان دینے میں کوئی مشکل ہے اور نہ ہی تیرا حکم ٹالنے کی طاقت و اختیار کسی کے پاس ہے- حکم ہوا اے موسی پھر کیوں عزرائیل کو واپس موڑا- فرمایا الہی میں چاہتا ہوں ابھی تیرے احکام لوگوں تک اور پنہچاوں اور تیری عبادت خوب کروں اور یہ کہ تیرے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کروں-

تب فرمایا اللہ تعالی نے اے موسی پنہچا دئیے تم نے احکام ہمارے ٹھیک ٹھیک اور پورا کیا وعدہ جو ہم سے کیا تھا اور یہ کہ قبول کی ہم نے تمہاری عبادت اور دیدار ہمارا وعدہ کے دن ہے کہ جس دن کا وعدہ کیا ہم نے مومنوں سے-

اور ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت نے غصہ میں عزرائیل کو واپس بھیج دیا اور بعضوں نے کہا کہ تھپڑ مارا تھا پھر اللہ نے پوچھا تو فرمایا کہ الہی میں مرنا نہیں چاہتا بلکہ اور ابھی اور جینا چاہتا ہوں- تب فرمایا اے موسی یہ جو مینڈھا تمہارے نزدیک ہے اس کے بدن پر ہاتھ رکھو پس جتنے بال تمہارے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ہر بال کے بدلے ایک سال یا ایک سو سال عمر بڑھائی جائے گی۔

چنانچہ حکم ہوا اے موسی اس مینڈھے کے بدن پر ہاتھ رکھو جتنے بال ہاتھ کے نیچے آئیں گے ہر بال کے بدلے ایک مدت تک زندگی عطا کی جائے گی- پوچھا الہی اس کے بعد- فرمایا اس کے بعد پھر سے موت پھر ہے- کہا یعنی موت لازم ہے- فرمایا اے موسی جو پیدا ہوا پس اس کو موت لازم ہے- ہمارے پیارے آقا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تھا کہ جب عزرائیل کو آپ پاس بھیجا تو حکم دے کر بھیجا کہ اول پوچھ لینا اگر آنا چاہیں تو لے آنا اور اگر رہنا چاہیں تو واپس آ جانا- چنانچہ امت کے بارے پوچھا کہ میرے بعد میری امت کا کیا ہو گا- اور تین بار فرشتہ گیا اور تیسری بار آ کر کہا کہ اللہ فرماتا ہے آپ کی امت کو تنہا نہیں چھوڑیں گے تب فرمایا اب میری آنکھیں ٹھنڈی ہیں اب مجھے لے چلو- صلی اللہ علیہ وسلم- اور یہ پورا اپنی جگہ پر بیان ہو ان شآء اللہ-

الغرض تب حضرت موسی نے فرمایا الہی میری دو خواہشیں ہیں اول تو یہ کہ کوہ طور پر جاوں اور مناجات کروں اور دوسری یہ کہ مصر میں انتقال کروں اور وہیں دفن ہوں- اور بعضوں نے قبر کا بھی زکر کیا کہ اپنی قبر خود تیار کروں-

تب ایک جھونکا ہوا کا آپ کو اڑا کر طور پر لے گیا- وہاں آپ نے اللہ تعالی سے مناجات کیں اور کلام الہی سے اپنی جان کو راحت پنہچائی اور شکر ادا کیا- اور فرمایا الہی میں نے آل اولا اپنی اور امت اپنی کو تجھ پر سونپا کہ اس ویران بیابان میں تیرے سوا دوسرا کون ہے جو ان کو رزق دے- پس میری امت ناتواں ہے ان کو اپنی رضا پر قائم رکھنا اور رزق حلال عطا کرنا اور حرام مال سے باز رکھئیو-

تب حکم ہوا اے موسی زمین پر عصا مار- جب مارا تو زمین پھٹی اور اس کے نیچے دریا نکلا- تب حکم ہوا اب دریا پر عصا ماریں- چنانچہ مارا تو اس میں سے ایک پتھر ظاہر ہوا- فرمایا اے موسی اب اس پتھر پر عصا مار- پس مارا تو پتھر دو ٹکڑے ہوا اور اس میں سے ایک کیڑا منہ میں سبز پتا لیکر نکلا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کر رہا تھا کہ؛ اے رب میرے تو مجھ کو دیکھتا ہے اور کلام سنتا ہے اور جگہ تو میری جانتا ہے اور روزی پتھر کے اندر پنہچاتا ہے- اور تو کسی کو بھوکا اور محروم نہیں رکھتا اپنے فضل و کرم سے-

تب ارشاد ہوا اے موسی زیر زمین جو دریا ہے اس میں موجود ایک چھوٹے سے سنگ میں بیٹھے ایک چھوٹے سے کیڑے کو جو میری پیدا کردہ مخلوق ہے رزق پنہچانا نہیں بھولتا تو بھلا تیری امت کو کیونکر بھولوں گا- اور بیشک یہ انسان ہی ناشکرا ہے جو اپنے پرودگار کو بھولا ہوا ہے-

تب جناب موسی کوہ طور سے خوش ہو کر اترے- راہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ سات آدمی ایک قبر کھود رہے ہیں- پس ان کے قریب گئے اور پوچھا کہ یہ تم کس کے لیے قبر کھودتے ہو- کہنے لگے یہ ایک اللہ کا دوست ہے اس کے واسطے کھودتے ہیں- پھر حضرت موسی کو دعوت دی کہ آو تم بھی ہمارے ساتھ اس نیک روح کے لیے قبر کھودنے میں ہمارا ساتھ دو اور ثواب کماو- تب حضرت موسی بھی اب کیساتھ قبر کھودنے میں شریک ہوئے اور نہیں جانتے تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور یہ کہ یہ قبر انہیں کے واسطے تیار کی جا رہی ہے-

چنانچہ جب قبر پوری طرح تیار ہو گئی تو فرمایا کہ دیکھو یہ تو میرے قد برابر ہی ہے- پس میں اس میں اتر کر دیکھتا ہوں کہ ٹھیک ہے کہ نہیں- چنانچہ جو ساتھ تھے انہوں نے بھی فرمایا کہ بلکل اتر کر دیکھو کہ اس میں کوئی اونچ نیچ تو نہیں ہے- پس جب اترے قبر میں اور لیٹے اسی وقت حضرت عزرائیل روبرو آئے اور فرمایا، اے موسی کہو اب کیا ارادہ ہے کہ تمہاری خواہشات پوری ہوئیں- تب اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا تو وہ بھی فرشتے تھے- تب فرمایا کہ ابھی میری جان قبض کر لو- تب عزرائیل علیہ السلام نے ایک سیب جو جنت سے اپنے ساتھ لیکر آئے تھے سنگھایا وہیں آپ کی جان قبض ہوئی-

بعد اس کے فرشتوں نے آپ کو غسل دیا اور جنت کا کفن لا کر پہنایا اور اسی قبر میں دفن کر کے آپ کی قبر دنیا کی نظروں سے چھپا دی- تبھی کوئی نہیں جانتا آپ کی قبر کہا پر ہے- اور بعض روایات میں یوں ہے کہ قوم کے ساتھ اس میدان سے نکل کر ملک شام کو  فتح کیا اور اس کے بعد انتقال فرمایا- واللہ اعلم الصواب۔

تبصرے بند ہیں۔