انسان اور زمین کی حکومت (قسط 66)

رستم علی خان

چنانچہ بلعم نے اپنی بیوی سے کہا کہ بدبخت میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ پیغمبروں پر بددعا نہیں چلتی اور یہ کہ میری کرامت اور بزرگی سب چھن گئی ہے- تب بیوی بلعم کی کہنے لگی کہ تم نے ایک مدت دراز سے اللہ کی عبادت میں گزاری اور فقیری اور بزرگی کمائی اور کمالیت حاصل کی ہے تو کیا اس کے بدلے اب کچھ بھی مقبولیت تمہاری خداوند کے ہاں باقی نہیں رہی- تب بلعم بولا کہ تین دفعہ تین دعا کی حاجت باقی رہی ہے-

چنانچہ بیوی اس کی بولی کہ ایک دعا ابھی میرے لیے کر دو اسی وقت اور باقی دو دعائیں اپنی خاطر رکھ چھوڑو جب اور جو مرضی چاہے مانگ لینا- بلعم نے کہا ہرگز نہیں بلکہ یہ دعائیں میں نے یوم آخرت کے لیے رکھی ہیں- کہ وہاں مجھے نجات مانگنی ہے آتش دوزخ سے اور اللہ کے غصے اور غضب سے اور جنت مانگنی ہے جو ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے اور ہر طرح کی نعمتوں سے بھری پڑی ہے-

بلعم کی بیوی نے کہا ٹھیک ہے تم دو دعائیں اپنی آخرت کے لیے رکھ لو لیکن ابھی ایک دعا میری خاطر کرو کہ اللہ مجھے اور زیادہ حسن و جمال عطا کرے- ہر چند کے بلعم نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ حسن و جمال تمہارا پہلے ہی سب صورتوں سے زیادہ ہے اب مزید حسن و جمال کی دعا کروا کر کیا کرو گی- لیکن بی بی بلعم کی نہ مانی اور اپنی ضد پر قائم رہی کہ میرے واسطے دعا کرو کہ اللہ مجھے اور بھی جمال عطا کرے-

تب ناچار ہو کر بلعم نے اس کے لیے دعا کی کہ اللہ اسے جمال عطا فرما- تبھی بلعم کی بیوی کے حسن و جمال سے پورے گھر میں اجالا ہو گیا- اور خدا کے غضب سے بلعم کی صورت سیاہ ہو گئی جس کی وجہ سے بلعم کی بیوی اس سے بیزار ہو گئی اور ہر روز ایک خوبصورت جوان منگوا کر اس کیساتھ خلوت کے مزے لیا کرتی- ایک دن بلعم نے اسے ایک غیر مرد کیساتھ عیاشی کرتے دیکھا تو بہت غصہ ہوا اور مارے طیش کے اس کے لیے بددعا کی کہ اس کی شکل سیاہ کتیا سی ہو جائے- تب اس کی صورت سیاہ کتئیا سی ہو گئی- چنانچہ بلعم کی دوسری دعا بھی ضائع جانے سے اس کے اپنے چہرے کا رنگزید سیاہ پڑ گیا اور ہئیت بدلنے لگی-

بلعم کی بیوی کی ہئیت بدلی تو اس کی اولاد بھی اس سے نفرت کرنے لگی اور ماں کی اس حالت پر رنجیدہ بھی ہوتے اور لوگ اس کے بچوں سے کہتے کہ تمہاری ماں ایک کتیا ہے- تب بستی کے لوگوں نے بلعم سے کہا کہ اپنی بیوی کے لیے اللہ سے دعا کرو کہ اس کی اصل شکل اور ہئیت اس کو واپس مل جائے- اول تو بلعم نہ مانا کہ اب ایک ہی دعا بچی ہے سو میں اسے آخرت میں مانگوں گا کہ اللہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرمائے- لیکن جب اس کے فرزندوں نے اسے دعا کرنے کو کہا کہ لوگ ہمارا اور ہماری ماں کا مذاق بناتے ہیں سو وہ ان کی ماں کے اصلی حال میں لوٹ آنے کی دعا کر دے- تب ناچار ہو کر بلعم نے اس کے لیے دعا کی کہ الہی اسے اس کی پہلی والی حالت میں لوٹا دے- چنانچہ وہ اپنی اصلی حالت پر واپس آ گئی- اور ایک نبی اللہ پر بددعا کرنے کی وجہ سے بلعم کا چہرہ سیاہ ترین پڑ گیا اور مردود  کو کر مرا- واللہ اعلم الصواب-

الغرض ایک شخص جو اللہ تعالی کا مقبول ترین بندہ اور کرامت و بزرگی والا تھا اللہ کی ایک نافرمانی کرنے اپنی بیوی کے کہنے میں آ کر اپنے نفس امارہ کیوجہ سے مردود ہو کر مرا- پس جو کوئی اللہ کے حکم سے آگے اپنے نفس کو رکھتا ہے اسی طرح مردود ہو کر مرتا ہے-

القصہ حضرت یوشع بن نون اس ملک شہر کو فتح کرنے کے بعد آگے عماد اور صیصوں دو ہر تھے وہاں گئے تو ان لوگوں نے حضرت موسی کا دین قبول کیا اور یوشع کی پیروی میں آئے- تب وہاں سے مغرب کی جانب بڑھے ادھر کے پانچ شہروں کے بادشاہ اکٹھے ہو کر جنگ کو آئے تو وہاں بھی اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فتح نصیب فرمائی اور دشمنوں نے ہزیمت اٹھائی- الغرض عرصہ سات برس میں پورا ملک شام فتح کیا اور بنی اسرائیل پر تقسیم کر دیا اور واپس مصر تشریف لائے اور کالوت کو اپنا خلیفہ اور ولی عہد بنایا اور لوگوں میں توریت کے احکام جاری کئیے اور بعد ایک عرصہ کے انتقال فرمایا اور عمر آپ کی ایک سو انہتر برس بیان ہوئی ہے- واللہ اعلم الصواب۔

حضرت یوشع بن نون کی وفات کے بعد کالوت خلیفہ اور ولی عہد ہوئے اور ایک عرصہ تک بنی اسرائیل کیساتھ رہے اور ان کو توریت کی تعلیمات سے دیتے اور اللہ کے احکامات پنہچاتے رہے اور اس سارے میں بنی اسرائیل مصر اور شام کے علاقوں میں بس گئے- اسی طرح ایک عرصہ تک بنی اسرائیل توریت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہی اور احکام الہی بجا لاتے رہے- مگر پھر آہستہ آہستہ وقت کیساتھ ان لوگوں میں بےدینی اور سرکشی آتی گئی اور وہ لوگ دوبارہ سے بت پرستی اور شرک و بدعات میں پڑ کر شریعت اور احکام الہی کو فراموش کر بیٹھے- تب اللہ تعالی نے ان میں حضرت حرقیل علیہ السلام کو مبعوث فرمایا- آپ کا لقب ذوالکفل تھا اور قرآن میں بھی آپ کا تذکرہ ہے- چنانچہ ارشاد ہے، اور یاد کرو اسماعیل کو اور الیسع کو اور ذوالکفل کو اور ہر ایک بہتروں سے تھے-

البتہ ان کے بارے مختلف روایات ہیں کہ کچھ کیمطابق یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے کب کہاں اور کس قوم پر مبعوث ہوئے نہ تو اس بارے کو صحیح حدیث ہے اور نہ قرآن سے ہی اس بارے کوئی تفصیل معلوم ہوتی ہے- اور بائبل میں ان کا ذکر موجود نہیں ہے- بعض کے مطابق یہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم علیہم السلام کی اولاد سے تھے اور نبی نہیں تھے بلکہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے وقت کے نبی کیساتھ قول اقرار کیا اور اسے پورا کیا- اور ایک روایت کے مطابق حضرت حرقیل کا لقب ہی ذوالکفل تھا اور بنی اسرائیل پر مبعوث ہوئے تھے- واللہ اعلم الصواب- ان کا لقب ذوالکفل ہونے کے بارے چند روایات ہیں-

روایت نمبر1:

آپ علیہ اسلام نے ایک نبی علیہ اسلام کی ہدایات اور احکام کی کفالت کی تھی، اس نبی علیہ اسلام نے کہا تھا کہ”جو قائم الیل اور صائم النہار ہو” یعنی رات بھر نمازیں پڑھتا ہو اور دن بھر روزے رکھتا ہو اور غصہ کبھی نہ کرتا ہو، میں اسے اپنا جانشین بناوں گا۔ چنانچہ آپ علیہ اسلام نے وعدہ فرمایا اور ان کے احکام کی پوری کفالت کی اور ان کی وصایت کے مالک بنے، اس لیے آپ علیہ اسلام کو ذوالکفل کہا گیا۔

روایت نمبر2:

آپ علیہ اسلام درجہ نبوت پر فائز ہونے سے پہلے شام کے بادشاہ کے وزیر تھے۔ اس بادشاہ کو بنی اسرائیل سے سخت دشمنی تھی۔ بادشاہ نے اپنی فوج کا ایک عظیم دستہ بھیج کر بنی اسرائیل کو قتل کروا دیا اور سو علما و فضلا اور زعماء کو گرفتار کرا لیا۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے بادشاہ سے کہا کہ ابھی ان کے قتل کا وقت نہیں آیا ہے بہتر ہو گا کہ انہیں میرے حوالے کر دیں۔ ذوالکفل علیہ اسلام ان تمام قیدی علما وزعماء کو اپنے ہمراہ لے گئے ان کی عزت و توقیر کی،ان کی بیڑیاں کٹوائیں۔ انہیں خوش گوار کھانا کھلایا۔ اور ان کو وقتِ شب رہا کر دیا اور بادشاہ کے قلمرو سے بھاگ جانے کو کہا۔ اور صبح کو حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے ایسی صورت اختیار کی کہ بادشاہ ناراض بھی نہ ہوا اور اٌن کی جان بچ گئی اسی کفالت کو وجہ سے آپ علیہ اسلام کو ذوالکفل علیہ اسلام کہا گیا۔

روایت نمبر3:

اللہ تعالٰیٰ نے آپ علیہ اسلام کو حکم دیا کہ آپ’عمالقہ’ کے ایک بادشاہ کنعان کو دعوتِ حق دیں۔ بادشاہ نے کہا، میں بے انتہا گناہ کر چکا ہوں۔ اب میرا ایمان لانا بے سود ہے۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر تو ایمان لائے گا توخداوند ِعالم تجھے بخش دے گا اور نعمات جنت سے متنعم کرے گا۔ بادشاہ نے دلیل وثبوت مانگا۔ آپ علیہ اسلام نے کہا میں اس کی ضمانت وکفالت کروں گا۔ بادشاہ کے ایمان لانے پر آپ علیہ اسلام نے ایک نوشتئہ ضمانت دے دیا۔ بادشاہ ترکِ سلطنت کر کے گوشہ نشین ہو گیا۔ لیل و نہار عبادت میں گزارتا۔ اور بوقتِ موت بادشاہ کو وصیت کے مطابق وہ نوشتہ خط اس کے کفن میں رکھ دیا گیا۔ اللہ نے اسے بخش دیا اور جنت میں بلند مقام پر فائز فرمایا۔ جولوگ بوقتِ کفن وہاں موجود تھے وہ سب کے سب بھی ایمان لے آئے۔ اسی ضمانت و کفالت کی وجہ سے آپ کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام ہو گیا-

تبصرے بند ہیں۔