انسان اور زمین کی حکومت (قسط 83)

رستم علی خان

چنانچہ جب سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کے قصہ سے فراغت پائی تو سمندوں دیو کو حاضر ہونے کا حکم دیا- جب سمندوں دیو حاضر ہوا تو حضرت نے اس سے پوچھا کہ اے سمندوں تو اتنا عرصہ پانیوں میں مقیم رہا پس تو نے کوئی اور چیز عجیب و غریب کسی جزیرے میں دیکھی ہے- وہ بولا اے حضرت بیشک میں نے دیکھی ہے- دریائے مغرب میں ایک جزیرہ ہے اس میں ایک شہر عظیم ایسا ہے کہ چاروں طرف اس کے دیوار سنگین ہے- بلندی اس دیوار کی سوگز ہے اور اس کے اندر بارہ برج ہیں- اور ہر برج کے اوپر طبل اور علم دھرا ہوا ہے- اور اس دیوار کے بیچ میں ایک بہت بڑا میدان ہے- اس میدان کے بیچوں بیچ ایک مکان عالیشان ایسا ہے کہ سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے- اس مکان پر ایک منارہ بلند اور اس منارے پر دو شیر سنگین اور ایک عقاب بزرگ مثل آدمی کی صورت کے سونے سے بنایا ہے- اور ان کے علاوہ بھی ایسی بہت سی صورتیں بنی ہیں- میں نے اس محل میں جا کر دیکھا چار ہزار لونڈیاں صاحب حسن و جمال بیٹھی ہیں- اور اس کے بیچ میں ایک تخت دھرا ہے اور اس پر ایک پری مہ لقا اور اور ساتھ ایک دختر برج اختر کے بیٹھی ہے-

بعد ایک ساعت کے دختر اپنے تخت پر سے اٹھ کے کھڑی ہوئی اور لونڈیاں چار ہزار اپنے اپنے حجروں میں داخل ہوئیں- تب میں نے جا کر ایک لونڈی سے پوچھا کہ اس شہر کا نام کیا ہے- اور یہ پری اور وہ دختر کون ہے- اور وہ طبل اور علم برج کے اوپر اور وہ دو شیر اور عقاب منارے پر کد واسطے بنا رکھے ہیں- یہ سنکر وہ لونڈی مجھ سے بولی پہلے تم بتاو تم کس ملک کے ہو اور یہاں کس واسطے آئے ہو- میں نے کہا کہ دوسرے عالم سے آیا ہوں- وہ لونڈی بولی کہ میں جانتی ہوں کہ سوا اس ملک کے دوسرا کوئی اور ملک نہیں- اور پھر بولی کہ اس شہر کا نام صیدون ہے اور وہ پری ہمارے بادشاہ کی بیوی ہے اور وہ دختر بادشاہزادی ہے- اور یہ صورتیں طلسم کی اس واسطے بنائی ہیں کہ جب دشمن اور غنیم کو دیکھیں گی تو آواز کریں گی- تب ہمارے بادشاہ کو ان کے پکارنے سے معلوم ہو گا کہ کوئی دشمن یا غنیم ہمارے ملک میں داخل ہوا ہے- تب اسی وقت فوج کیساتھ جا کر اس کو مار ڈالیں گے- اور وہ جو عقاب ہے ہمارا داعی ہے کہ جب وقت عبادت کا ہوتا ہے تو بانگ دیتا ہے تب ہم سب جا کر اپنے بادشاہ کی پوجا کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہم پر راضی رہے- اور جو دو شیر ہیں دونوں حاکم منصف ہیں جب اسامی اور فریادی دونوں میں خصومت واقع ہو تو ان دونوں شیروں کے پاس ہمارے بادشاہ انہیں بھیجتے ہیں- پھر جو ان میں سے ناحق پر ہوتا ہے اس کو وہ دونوں شیر پھاڑ کھاتے ہیں- اور کوئی شخص بےراہ نہیں چلتا اور جھوٹ نہیں بولتا ہے- اور یہ تمام ماجرا ہے اس شہر کا اے سلیمان جو میں نے دیکھا سمندوں دیو نے کہا-

پس سمندوں دیو سے شہر صیدون کی حقیقت و ماجرا سنکر سلیمان نے اپنے لشکر سے کہا کہ میں شہر صیدون میں جہاد کو جاوں گا- تب جن، دیو، پری، آدمی، چرند، پرند غرض تمامی لشکر حضرت سلیمان کے حکم پر آ حاضر ہوا- حضرت نے ہوا کو حکم دیا تو اس نے آپ کا تخت شہر صیدون کے نزدیک پنہچا دیا- ادھر جب سلیمان کا تخت دور سے نمایاں ہوا تو برجوں پر دھرے طبل و علم سلیمان کا تخت بساط دیکھ کر برجوں پر سے پکار کر آواز دینے لگے- تب اہل صیدون کو علم ہوا کہ کوئی غنیم آتا ہے-

تب سب اہل شہر و سپاہ اور لشکر بسلاح آراستہ جنگ کے واسطے شہر سے نکلے- کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جماعت فوج کی تخت پر بیٹھی ہوا پر چلی آتی ہے- اور پرند ہوا کے ان کے سروں پر سایہ کیے ہوئے ہیں- تب اہل صیدون کہنے لگے کہ ہم نے آج تک کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ اس کا تخت اور لشکر تمام ہوا پر سوار ہو کر چلے- معلوم ہوتا کہ یہ بادشاہ کوئی بڑا بزرگ ہے.

چنانچہ حضرت سلیمان نے بی بی بلقیس سے نکاح کیا اور اپنی تمام بیویوں اور حرموں میں سب سے زیادہ شرف دیا- ایک دن بلقیس نے کہا اے نبی اللہ آپ ہر روز اپنے تخت پر بیٹھ کر ہوا پر سیر کرتے ہیں اور گرد دو عالم کے پھرتے ہیں- ایک دن مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلئیے کہ میرا فلانے جزیرے میں جو سات سمندروں کے درمیان میں ہے جانے اور سیر کرنے کو دل کرتا ہے کہ وہاں جاوں اور خوب اور عجیب و غریب تماشا دیکھوں-

تب سلیمان نے انہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور ہوا کو حکم دیا کہ فلاں جزیرہ جو بیچ سات سمندروں کے ہے وہاں پنہچاو- تب ہوا نے وہاں پنہچایا- بلقیس وہاں کا سبزہ اور آب رواں دیکھ کر بہت خوش ہوئی- اور وہاں کے دریائی گھوڑوں کے بازووں میں پر دیکھے- وہ سب سلیمان علیہ السلام کا تخت دیکھ کر مثل پرندوں کی وہاں سے اڑ گئے اور دریا میں غوطہ زن ہوئے- بلقیس نے ان گھوڑوں کو بہت پسند کیا تب حضرت سلیمان نے دیووں کو حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو پکڑ کر لاو- دیووں نے کہا حضور ہم ان گھوڑوں کو نہیں پکڑ سکتے کہ ان پر ہمارے طلسم اور طاقت وغیرہ کا کچھ زور نہیں چلتا- البتہ سمندروں کا ایک دیو ہے جو انہیں پکڑ سکتا ہے- نام اس کا سمندوں ہے اور وہ آپ کے حکم سے باغی ہو کر سمندروں کی تہوں میں چھپا بیٹھا ہے-

حضرت نے حکم کیا کہ اس دیو کو پکڑ کر میرے سامنے پیش کرو- تب دیووں نے کہا کہ وہ ایسے پکڑا نہیں جائے گا- البتہ اگر ہم اس سے جھوٹ بولیں اور یہ کہیں کہ سلیمان بن داود مر چکے ہیں- اور یہ کہ اب اسے کوئی خطرہ نہیں تب وہ یہ سنتے ہی ضرور ہمارے پاس چلا آوے گا اور ہم اسے گرفتار کر سکیں گے- غرض حضرت نے حکم کیا تب تمام دیو اکٹھے ہو کر سمندروں میں جا کے گرد عالم کے سمندوں کو پکارتے پھرے کہ اے سمندوں سلیمان بن داود مر چکے ہیں تم نکل آو- اور وہ اس بات کو سنکر خوشی سے سمندر کی تہہ سے نکل آیا-

اور آ کر آواز دینے والے سے کہا کیا تو سچ کہتا ہے- اس نے کہا ہاں بلکل سچ سلیمان مر چکے ہیں اور اب ہم سب آزاد ہیں- لہذا ہمیں چاہئیے کہ ہم سب وہاں جا کر سلیمان کی سلطنت میں دخل کریں اور مزے سے رہیں- یہ سنکر سمندوں جب ان کے پاس آیا تو فورا اس پر کمند ڈال کر دیووں نے اسے گرفتار کیا اور حضرت سلیمان کے سامنے جا پیش کیا- جب حضرت سلیمان نے نظر غضب سے اس کیطرف دیکھا تو سمندوں نے مارے خوف کے کہا یا نبی اللہ مجھ کو امان دو اور میری جان بخشی کرو- میں آپ کا فرمانبردار ہوں سو جو آپ فرماویں گے بسر و چشم بجا لاوں گا-

حضرت نے فرمایا اگر تو جان بخشی چاہتا ہےتو فلاں جزیرے میں دریائی پرند گھوڑے میرے واسطے پکڑ لا- اس نے کہا بغیر کسی حیلہ و حکمت کے وہ گھوڑے میرے ہاتھ نہ آویں گے- حضرت نے کہا تو کیا حکمت ہے- اس نے کہا وہ سب گھوڑے فلاں چشمے سے پانی پیتے ہیں اگر اس چشمے کا سارا پانی نکال کر اس میں شراب بھر دی جائے تو اس کو پینے کے بعد وہ مست ہو جائیں گے تب انہیں پکڑنا آسان ہو گا- تب حضرت نے دیووں کو سمندوں کیساتھ کیا کہ گھوڑوں کو پکڑ کر خدمت میں حاضر کریں- غرض چالیس گھوڑے وہاں سے پکڑ لائے اور اس وقت عصر کا وقت تھا-

چنانچہ حضرت سلیمان گھوڑوں کی لطافت اور خوبیاں دیکھنے میں اس قدر مگن ہوئے کہ نماز عصر جانے کے قریب ہو گئی- چنانچہ جبرائل امین اسی وقت جناب باری سے عتاب لائے کہ اے سلیمان تو دنیا کی لطافت اور مال میں اس قدر مگن ہو گیا کہ عصر جانے کا وقت ہو گیا- پس سلیمان اسی وقت سجدے میں گرے اور رو کر استغفار کرنے لگے- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "جس وقت کہ روبرو لائے گئے سلیمان کے شام کو خاصے گھوڑے پس سلیمان نے کہا تحقیق میں نے دوست رکھا مال کو اپنے رب کی یاد سے یہاں تک کہ سورج چھپنے کے قریب ہوا پردے میں”-

مروی ہے کہ اللہ تعالی نے سورج کو حکم کیا سو وہ ٹھہر گیا جب تک کہ سلیمان نے نماز نہ ادا کر لی- بعد اس کے حضرت سلیمان نے گھوڑوں کے پر کاٹ دئیے کہ اڑ نہ جائیں اور دوبارہ ان کے پر پیدا نہ ہوئے- منقول ہے کہ عربی گھوڑے انہیں کی نسل سے ہیں- واللہ اعلم بالصواب

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔