انسان اور زمین کی حکومت (قسط 84)

رستم علی خان

اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے؛ "تحقیق آزمایا ہم نے سلیمان کو اور ڈال دیا ہم نے اوپر ان کے ایک ڈھیر پھر رجوع کیا سلیمان نے بحق”- پس معاملہ یوں ہوا کہ سلیمان علیہ السلام جب استنجے یا قضاء حاجت وغیرہ کو جاتے تو حاتم اپنی نکال کر ایک خادمہ حرم کے حوالے کر جاتے- کیونکہ اس حاتم میں اسم اعظم اللہ کا تھا جس کیوجہ سے تمام مخلوقات آپ کے حکم کے تابع رہتی- اس لیے جب حضرت سلیمان استنجے وغیرہ کو جاتے تو حاتم کو ہاتھ سے اتار دیتے اور جب فراغت پاتے تو پھر سے پہن لیتے-

ایک دن جب اللہ کیطرف سے حضرت سلیمان کی آزمائش مقصود ہوئی تو ایک دیو کہ نام اس کا صخرہ تھا- اس نے شکل و صورت حضرت سلیمان کی بنا کر اس خادمہ سے جا کر انگوٹھی لیکر اپنی انگلی میں پہن لی اور تخت پر سلیمان کے جا بیٹھا- اس کے بیٹھتے ہی دیو پری اور جن و انسان تمام اپنے عہدے پر بدستور جیسا کہ سلیمان کے سامنے کھڑے رہتے تھے ویسے ہی اس کے سامنے سلیمان سمجھ کر سب آ کھڑے ہو گئے- اور پرندوں نے بھی اپنا منصب سنبھالا اور سر پر سایہ فگن ہوئے- صخرہ تخت سلیمانی پر بیٹھ کر حکم احکام کرنے لگا-

ادھر جب حضرت سلیمان استنجے وغیرہ سے فارغ ہوئے تو اس خادمہ سے اپنی انگوٹھی طلب کی- تب وہ کہنے لگی کہ انگشتری تو سلیمان علیہ السلام لے گئے ہیں اور تم کون ہو جو انگوٹھی طلب کرتے ہو- حضرت سلیمان نے فرمایا میں ہی سلیمان بن داود ہوں اس سلطنت کا بادشاہ اور تم نے انگوٹھی کس کو دی ہے- ہر چند حضرت سلیمان نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ مانی- تب سلیمان علیہ السلام وہاں سے اپنے تخت کے پاس گئے اور جا کر دیکھا کہ صخرہ دیو حضرت سلیمان کی شکل و صورت اپنائے تخت پر بیٹھا حکم احکام کرتا ہے اور انگوٹھی اس کی انگلی میں ہے- اور تمام مخلوق اس کے آگے دست بستہ کھڑی ہے- تب حضرت سلیمان نے انہیں پکار کر کہا کہ میں سلیمان بن داود ہوں اور یہ کوئی اور ہے جو میرا روپ بنا کر تخت پر بیٹھا ہے- صخرہ دیو نے کہا کہ نہیں میں ہی سلیمان بن داود ہوں یہ دیکھو انگشتری بھی میرے پاس ہے- غرض حضرت سلیمان نے ہر چند درباریوں کو سمجھایا کہ یہ کوئی اور ہے جو میرا روپ بنا کر اور مکر سے میری انگشتری چرا کر تخت پر بیٹھا حکم کر رہا ہے- حضرت کی بات کو کسی نے نہ مانا اور آپ کی تکذیب کی اور چوبداروں نے بھی انہیں دیوانہ سمجھ کر محل سے نکال دیا-

چنانچہ جب حضرت سلیمان کو جن و پری اور دیو اور آدمیوں میں سے کسی نے نہ پہچانا اور آپ کی تعظیم و تکریم نہ کی اور دیوانہ سمجھ کر محل سے نکال دیا تو آپ وہاں سے سیدھے بیت المقدس میں تشریف لے گئے اور سر سجدے میں رکھ کر گریہ زاری کرنے اور اللہ سے اپنی خطاوں کی معافی طلب کرنے لگے- غرض تین دن اسی حالت میں رہے- بعد تین دن کے جب بھوک سے جسم بے طاقت ہونے لگا تو وہاں سے اٹھے اور مسجد سے باہر تشریف لائے اور بنی اسرائیل والوں کے گھروں کیطرف رخ کیا کہ شائد کہیں سے کچھ کھانے کو مل جائے- لیکن کسی نے بھی آپ پر التفات نہ کیا- چنانچہ وہاں سے ناامید ہو کر شہر کیطرف گئے کہ مزدوری کر کے کچھ کھانے کو خرید سکیں لیکن شہر میں بھی کسی نے آپ کو مزدوری پر نہ رکھا- چنانچہ وہاں سے بھوکے پیاسے آپ سمندر کی طرف گئے- یہاں مچھیروں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ مجھ کو اپنے پاس نوکر رکھ لو کہ ہم تمہارا کام وغیرہ جو بھی ہو گا کر دیا کریں گے-

تب ایک ماہی گیر نے آپ کو دو مچھلیاں دینی ہر روز مقرر کیں اور نوکر رکھا- آخر دن تمام ہوا اور شام تک دو ہی مچھلیاں پکڑی گئیں یہی دو مچھلیاں ان کو مزدوری میں ملیں- ان میں سے ایک مچھلی کو بازار میں بیچ کر روٹی خریدی اور دوسری مچھلی پکا کر خود روٹی کیساتھ کھائی اور اللہ کا شکر اد کیا۔

چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی طرح دو مچھلیاں روزانہ کی کے عوض اس ماہی گیر کے پاس نوکری کرنے لگے- روزانہ ایک مچھلی بیچ کر روٹی خریدتے اور دوسری پکا لیتے- کچھ آپ کھاتے باقی کسی غریب محتاج کو راہ خدا میں دے دیتے- اور رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول و مصروف رہتے-

مروی ہے کہ ایک دن حضرت دوپہر کے وقت ماہی گیر کی بیٹی اسے کھانا دینے آئی تو دیکھا کہ ایک جوان خوبرو سمندر کے کنارے ریت پر سو رہا یے- درختوں کی ٹہنیاں جھک کر اس کے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے- اور پتے اسے ہوا دے رہے ہیں- وہ لڑکی جوان اور بالغہ تھی- حضرت سلیمان کو دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ یہ یقینا کوئی نیک بزرگ ہیں- تب اس لڑکی نے اپنے باپ سے سلیمان علیہ السلام کے بارے پوچھا- اس کے باپ نے سب حال حقیقت بیان کر دی- ماہی گیر کی بیٹی نے کہا ابا جان یہ کوئی مزدور نہیں بلکہ مجھے تو کوئی نیک بزرگ لگتا ہے اور دریائے کے کنارے دیکھا احوال بیان کیا- اور پھر کہنے لگی کیا ہی اچھا ہو اگر تم اس سے میرا نکاح کر دو جز اس کے کسی سے نکاح نہ کروں گی-

اور بعضوں نے کہا کہ اس ماہی گیر نے حضرت سلیمان کو محنتی نیک اور ایماندار پایا تو ان کے بارے پوچھا- آپ نے کہا کہ فلحال سوا اللہ کے دوسرا کوئی میرا اپنا نہیں ہے- اور اس ماہی گیر کی ایک بیٹی تھی جو جوان اور شادی کے قابل تھی- تب اس نے حضرت سلیمان کو اپنی بیٹی سے شادی کرنے کی درخواست پیش کی- حضرت نے اس سے فرمایا کہ میرا نہ تو کوئی گھر بار ہے تمہارے سامنے تمہارے پاس مزدوری کرتا ہوں جس کی اجرت روزانہ دو مچھلیاں ملتی ہیں ان میں سے ایک بیچ کر روٹی خریدتا ہوں اور ایک پکا لیتا ہوں- پس تمہاری بیٹی کی خوراک اور حق مہر کہاں سے ادا کروں گا- تب اس ماہی گیر نے کہا کہ میری بیٹی آپ سے حق مہر نہ چاہے گی- اور اس کی خوراک اور مکان کا بندوبست میری ذمہ داری ہے- پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے قبول کیا اور اس کیساتھ اس کے مکان پر جا کر اس کی بیٹی سے نکاح کیا- تب اس مچھیرے نے کہا کہ اب سے تمہاری اجرت دو کی بجائے تین مچھلیاں ہوں گیں- پس حضرت سلیمان اپنی بیوی کیساتھ اسی گھر میں رہتے- دن بھر مزدوری کرتے اور اجرت میں جو تین مچھلیاں ملتیں ان میں سے دو کو بیچ دیتے- ایک کی قیمت فقیر غریبوں کو دیتے دوسری سے اپنے اور اپنی بیوی کے لیے روٹی خریدتے- اور توبہ استغفار کرتے اور رات بھر اللہ کے زکر اور عبادت میں مشغول رہتے-

ادھر صخرہ دیو تخت سلیمانی پر بیٹھ کر بادشاہی کرتا- مگر اس کے طور طریق سے آدمی و پری کو معلوم ہوا کہ یہ سلیمان علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ ان کے روپ میں کوئی اور ہے- مگر مارے ڈر کے اپنے دل کا راز دل میں رکھتے اور کسی سے نہ کہتے- اور اسی طرح چالیس دن گزر گئے- اور حضرت سلیمان کا وزیر آصف دیو بہت ہوشیار اور عقلمند تھا- اسے بھی شک تھا کہ یہ جو تخت سلیمانی پر بیٹھ کر بادشاہت کر رہا ہے اور حکم احکام دیتا ہے یقینا سلیمان علیہ السلام نہیں ہیں- اور وہ اس بات کا متلاشی تھا کہ درحقیقت یہ کون ہے-

چنانچہ ایک دن آصف دیو حضرت سلیمان کی بیبیوں کے پاس گیا اور ان سے حضرت سلیمان کے بارے پوچھا- چونکہ حضرت سلیمان روزانہ اپبی تمام بیویوں اور حرموں کے پاس تشریف فرما ہوتے- آصف دیو کے پوچھنے پر بیبیوں نے بتایا کہ آج چالیس دن ہوئے ہم سلیمان کو نہیں دیکھتیں- حرموں نے بھی کہا کہ اب سلیمان ہم سے خدمت نہیں لیتے- جو خادمہ کہ جب آپ استنجے وغیرہ کو جاتے اور حاتم اسے پکڑا کر جاتے اس نے کہا کہ اس دن کہ جب دو شخص سلیمان ہونے کا دعوی کرتے تھے اس کے بعد سے سلیمان علیہ السلام نے مجھ سے خدمت نہیں لی شائد وہ حاتم کسی اور کے حوالے کر کے جاتے ہیں- تب آصف دیو نے کہا کہ میں اصل حال حقیقت کا پتا کرواتا ہوں۔

چنانچہ جب بیبیوں نے آصف دیو کے پوچھنے پر بتایا کہ آج چالیس دن سے سلیمان علیہ السلام ہمارے پاس تشریف نہیں لاتے- تب آصف نے کہا میں معلوم کرتا ہوں کہ اصل معاملہ کیا ہے- چنانچہ وہ وہاں سے چلا اور چالیس آدمی توریت خوان بلائے اور تخت کے پاس لے جا کر ان چالیس آدمیوں کے ہاتھ میں توریت دی اور انہیں پڑھنے کا حکم دیا- پس جب وہ سب توریت پڑھنے لگے تو صخرہ دیو جو جھوٹا تھاکلام الہی سن کر  تخت پر نہ ٹھہر سکا- چنانچہ تخت سے بھاگا اور ایک طرف ہو کر کونے میں چھپ کر بیٹھ گیا- لیکن وہاں بھی نہ ٹھہر سکا اور وہاں سے اڑ کر محل کی دیوار پر جا بیٹھا اور اصلی روپ اس کا ظاہر ہوا- لیکن جب کلام الہی کی آواز وہاں تک بھی پنہچی تو مارے خوف کے وہاں سے بھاگا اور حاتم سلیمان علیہ السلام کی دریا میں ڈال دی- مرضی الہی سے اس حاتم کو ایک مچھلی نے نگل لیا- اور اس انگشتری کے سبب سے دریا کی باقی تمام مچھلیاں اس مچھلی کی تابع فرمان ہوئیں

ادھر حضرت سلیمان علیہ السلام بھی باقی ماہی گیروں کے ساتھ امر الہی سے اسی دریا پر مچھلی کے شکار کو گئے- چنانچہ جب اس ماہی گیر نے کہ جس کے پاس سلیمان نوکر تھے اپنا جال دریا میں ڈالا تو حکم الہی سے وہ مچھلی اس جال میں آ گئی- جب شام ہوئی تو مچھیرے نے وہ مچھلی کہ جس نے حاتم نگلی تھی اور دو اور مچھلیاں حضرت سلیمان کو اجرت میں دیں- حضرت سلیمان نے روزانہ کی طرح دو مچھلیاں بیچیں اور تیسری مچھلی گھر لیجا کر اپنی بی بی کو پکانے کے واسطے دی-

چنانچہ جب حضرت سلیمان کی بیوی نے اس مچھلی کا پیٹ چیرا تو اس میں سے وہی حاتم حضرت سلیمان کی نکل آئی- اور اس کی روشنی سے تمام گھر میں اجالا ہو گیا- تب حضرت کی بی بی یہ عجوبہ دیکھ کر متعجب ہوئی اور خوفزدہ بھی اور حضرت سلیمان کو آواز دی کہ یہ کیسی مچھلی لائے ہو کہ اس کے اندر سے عجیب طرح کی روشنی نکلتی ہے جس سے پورا گھر منور ہو گیا ہے- پس حضرت سلیمان نے جب آ کر دیکھا تو انگشتری اپنی مچھلی کے پیٹ میں پائی- چنانچہ فورا اسے نکال کر اپنی انگلی میں پہنا- تبھی تمام پرندے ہوا کے آپ کے سر پر سایہ فگن ہوئے- اور ہوا نے آپ کا تخت لا کر حاضر کیا- اور جن پری آدمی غرض تمام مخلوقات ان کی ملازمت میں بدستور سابق آ حاضر ہوئی-

مچھیرے کی بیٹی نے جب یہ حال دیکھا تو سخت متعجب ہوئی- تب حضرت سلیمان نے اسے بتایا کہ میں سلیمان بن داود ہوں- اور احوال اپنا اول تا آخر بیان کیا- اور بعد اس کے ہوا کو حکم دیا تو ہوا آپ کا تخت اڑا کر محل خاص پر پنہچا دیا- اور ملازم جتنے تھے سب دربار میں حضرت سلیمان کے سامنے حاضر ہوئے اور نذریں گزاریں- پس حضرت سلیمان نے محل میں پنہچتے ہی سب سے پہلے ملعون عنکبود کی بیٹی کو کہ جس کو صیدون سے لائے تھے اور اپنی زوجیت میں لیا تھا اور وہ آپ کے گھر پر مخفی اپنے باپ کی مورت بنا کر پوجتی تھی جس کے سبب سے آپ پر چالیس دن تک آزمائش رہی اسے یعنی دختر عنکبود اور اس کی چار ہزار لونڈیوں کو کہ جو اس کیساتھ اس سرکشی میں شریک تھیں سب کو قتل کروا دیا- اور اس کے علاوہ عنکبود کی ان جادو کی کتابوں کو کہ جو شہر صیدون سے آتے ہوئے صخرہ دیو لوٹ کر لایا تھا اور جن سے جادو سیکھ کر اس نے حضرت کی شکل بنا کر آپ کی انگشتری خادمہ سے دھوکے سے حاصل کی تھی اور چالیس دن تک تخت سلیمانی پر بیٹھ کر بادشاہی اور حکم احکام کرتا رہا- ان تمام کتابوں کو بھی پارہ پارہ کر کے جلا دیا- کہا جاتا ہے ان میں سے ایک ٹکڑا جو بچ گیا تھا وہ ہندوستان پنہچا تھا اور اسی سے ابھی تک ساری دنیا میں جادو پھیلا ہوا ہے- اور بعضوں نے کہا کہ صرف ایک کتاب تھی جو کافی ضعیم تھی اور حضرت سلیمان نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا دیا تھا- لیکن ان میں سے ایک ٹکڑا نہیں جلا اور اڑتا ہوا ہندوستان میں آ کر گرا اسی سبب سے اب تک دنیا میں جادو ٹونا موجود ہے- واللہ اعلم بالصواب۔

تبصرے بند ہیں۔