انسان اور زمین کی حکومت (قسط 85)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت سلیمان نے اس کتاب کو جلا دیا اور بعد اس کے صخرہ دیو کو حاضر ہونے کا حکم دیا لیکن اسے کہیں نہ پایا- تب دیوؤں کو حکم دیا کہ صخرہ دیو کو پکڑ کر میرے سامنے حاضر کرو- تب دیوؤں نے کہا کہ اے حضرت! صخرہ دیو تو آپ کے خوف کیوجہ سے زمین میں کہیں جا کر چھپ رہا ہے- اور اب بغیر کسی حیلے کے باہر نہ آئے گا- اگر حضور کا حکم ہو تو کچھ جھوٹ بات بنا کر اسے پکڑ لاویں اور حضرت کے سامنے پیش کریں- پس حضرت سلیمان نے حکم دیا-

چنانچہ دیو ہر طرف زمین کی جا کر صخرہ دیو کو پکارنے لگے کہ اے صخرہ تو جہاں بھی ہے نکل آ کہ تیرے واسطے خوشخبری ہے کہ سلیمان علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور اب سے ہم سب آزاد ہیں- تب دیوؤں کی پکار سنکر صخرہ دیو جو پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں چھپا ہوا تھا وہاں سے باہر نکل آیا- تب دیوؤں نے اسے گرفتار کیا اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر حضرت سلیمان کے سامنے پیش کیا- پس حضرت سلیمان نے چالیس دن تک اسے عذاب اور قید میں رکھا- بعد اس کے شکنجے میں پتھر کے ڈال کر اسے سمندر کی تہہ میں قید کر دیا- کہتے ہیں کہ اب تک وہ اس شکنجے میں جکڑا سمندر کی تہہ میں پڑا ہے اور قیامت تک وہیں پڑا رہے گا- واللہ اعلم بالصواب

پس حضرت سلیمان نے بعد اس کے کئی برس تک حکومت کی اور بیت المقدس کہ جو داود علیہ السلام نے بنایا تھا اسے مزید وسعت دی اور بڑھا کر بنوایا- دیوؤں کو حکم کیا کہ دیواریں اس کی سنگ مرمر سفید سے بناو- اور بموجب ان کے ارشاد کے دیوؤں نے اسے ویسا ہی بنایا- اور ستون اس کے چالیس گز لمبے سنگ مرمر سے بنائے- اور کواڑ دروازوں کے آبنوس سے بنائے- ایک دروازے کا نام باب داود، اور دوسرے کا نام باب طوبی، اور تیسرے دروازے کا نام باب رحمت اور چوتھے دروازے کا نام نبی العربی آخرالزمآں رکھا-

اور چھت اس کی ساج کی لکڑی سے بنوائی تھی- اور دیواریں اس کی سونے کی زراندودہ کی تھیں- اور مسجد میں قندیلیں چاندی کی لگوائی تھیں- اور ہر قندیل میں تیل کی جگہ لعل شب چراغ تھا- اور ان کی روشنی سے سب روشن ہوتا تھا- اور گندھک سرخ سے قندیلوں کو ترتیب دیا تھا- ایسا کہ شعاع روشنی اس کی تین کوس تک جاتی تھی- کہتے ہیں کہ وہی سرخ گندھک کیمیا ہے جو اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو عطا کی تھی-

القصہ ایک دن حضرت سلیمان گنبد کے دروازے پر جو شیشے سے بنایا تھا اپنا عصا ٹیکے کھڑے تھے اور دیو جنات وغیرہ کو کام میں مشغول دیکھ رہے تھے کہ ملک الموت تشریف لائے اور سلام عرض کیا- حضرت نے پوچھا کہ تم میری ملاقات کو آئے ہو یا جان قبض کرنے- ملک الموت نے فرمایا کہ جان قبض کرنے آیا ہوں- حضرت نے فرمایا مجھے چند دن کی مہلت دو کہ تعمیر کا کام مکمل ہو جائے پھر بھلے میری جان قبض کر لینا- ملک الموت نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ایک اللہ کا حکم آ چکا پس ایک پل کی بھی مہلت مزید نہ دی جائے گی۔

چنانچہ ملک الموت نے فرمایا کہ اللہ کا حکم آ چکا ہے پس ابھی ایک پل کی بھی مہلت مزید نہیں- تب جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام عصہ پر ٹیک لگائے جس ہیئت میں کھڑے تھے اسی میں جان آپ کی قبض ہوئی- مروی ہے کہ اسی طرح حضرت سلیمان کی لاش ایک برس تک عصے کے سہارے کھڑی رہی- اور بعض روایات میں ہے کہ دو مہینے تک ان کی موت کی خبر کسی کو نہ ہوئی اور اسی طرح عصہ سے ٹیک لگائے کھڑے رہے- اور اسی طرح جن دیو تمام بیت المقدس کی تعمیر و مرمت میں لگے رہے- اور جب بھی حضرت سلیمان کی جانب نظر کرتے تو انہیں عصہ سے ٹیک لگائے اپنی طرف دیکھتا ہوا پاتے-

اسی طرح ایک عرصہ گزر گیا اور بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہو گئی- تب دیمک بحکم الہی آپ کے عصے کو نیچے سے کھا گئی جس کیوجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی لاش زمین پر گر گئی- تب لوگوں کو معلوم پڑا کہ حضرت سلیمان انتقال فرما چکے ہیں- اور اتنے ععصے تک بےجان عصے کے سہارے ٹکے ہوئے کھڑے تھے- بعد اس کے تخت سلیمان علیہ السلام کا ہوا پر گیا اور لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گیا- اور جن دیو تمام اس بات پر تاسف کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ اتنے عرصے سے وہ حضرت سلیمان کو زندہ سمجھ کر تعمیر کا کام کر رہے ہیں جبکہ سلیمان کو وفات پائے عرصہ ہو گیا-

علماء نے لکھا ہے کہ اس میں حکمت حکیم علی الطلاق کی تھی کہ جن دیو غائب دانی سے فخر کرتے تھے کہ ہم کو غیب کی بات معلوم ہے- اس لیے اللہ تعالی نے انہیں دکھایا کہ غیب صرف اللہ جانتا ہے اگر جنات کو غیب کی بات معلوم ہوتی تو حضرت سلیمان کی موت کی خبر ان کو ہوتی اور زلت میں نہ رہتے- اور مسجد بیت المقدس کی تعمیر نہ ہوتی اور نامکمل رہتی- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "پس جب تقدیر کی ہم نے موت اس پر نہ خبردار کیا ان کو مرنا ان کا مگر کیڑا کھاتا رہا اس کا عصہ پس جب گر پڑا تب معلوم کیا جنوں نے اگر وہ خبر رکھتے بات کی غیب کی تو نہ رہتے  ذلت کی تکلیف میں-"

اور دوسری روایت ہے کہ سلیمان جنات اور دیو کے ہاتھوں سے بیت المقدس بنواتے تھے- جب معلوم کیا کہ موت آ پنہچی تب عمارت کا نقشہ بنا کر کے جنوں کو دیا اور خود شیشے کے مکان میں دروازے بند کر کے بندگی اور عبادت الہی میں مشغول ہوئے- بعد وفات کے ایک سال تک جن مسجد بناتے رہے- جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی تب عصا آپ کا کہ جسے ٹیک کر کھڑے تھے دیمک کھا گئی جس کیوجہ سے جسم آپ کا زمین پر گر پڑا- تب سب پر آپ کی وفات کا معاملہ کھلا اور جو جن دعوی غیب کا کیا کرتے تھے سب کے سب قائل ہوئے- یہاں تک تھا قصہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا- واللہ اعلم بالصواب

تبصرے بند ہیں۔