انسان اور زمین کی حکومت (قسط 88)

رستم علی خان

چنانچہ اس بزرگ کے کہنے پر کہ اس کی کرامت سے بھی پسر لقمان آگاہ تھے اور باپ کا بھی حکم اور نصیحت تھی کہ اپنے ساتھ والے بزرگ کی بات مانئیو- تب اس سبب سے دونوں شب کو اس دغاباز شخص کے مکان پر رہ گئے- جب کھانے وغیرہ سے فارغ ہو چکے تو ان دونوں کو لب دریا بنائےگئے ایک مکان پر لے گیا- اور وہ مکان اس طرح سے بنایا تھا کہ جو کوئی شب کو اس میں سو جاتا جوار بھاٹا آ کر اسے ڈبو دیتا- ان دونوں کو اس مکان میں ٹھہرنے کو کہا- چنانچہ پسر لقمان سو گیا اور بزرگ جاگتے رہے- جب آدھی رات کا وقت ہوا تو موجیں چڑھنے لگیں- پانی مکان پر چڑھ گیا-

تب بزرگ نے لڑکے کو نیند سے بیدار کیا اور وہاں سے اٹھ کر اوپر بالاخانے پر کہ جہاں اس دغاباز آدمی کے بیٹے سو رہے تھے وہاں تشریف لے گئے- وہاں سے اس کے بیٹوں کو تخت سمیت اٹھایا اور نیچے اپنی والی جگہ پر سلا دیا اور خود اوپر ان کی جگہ پر سو رہے- جب فجر کے وقت وہ شخص آیا اور دیکھتا ہے کہ دونوں اوپر والے طبق میں اس کے بیٹوں کی جگہ سو رہے ہیں- اور اپنے بیٹے نیچے مکان میں ان کی جگہ پانی میں مردہ پڑے ہیں-

تب پکار کر کہنے لگا کہ افسوس صد افسوس میں نے تمہارے واسطے یہ فریب کیا تھا- کہ تم کو مار ڈالوں- یہ میں اپنے فریب میں آپ ہلاک ہوا- میرے سب بیٹے مارے گئے- تب ان دونوں نے کہا کہ جو کسی کے لیے بدی کرتا ہے سو درحقیقت اپنے لیے کرتا ہے- بمصداق اس آیت کے، "یعنی نہیں گھیرتا ہے، مگر مکر کرنے والوں کو-"

الغرض لقمان کے بیٹے نے اس دغاباز شخص سے اپنے باپ کا روپئیہ وصول کیا- اور اپنی بیوی کو کہ جس سے وہاں نکاح کیا تھا کو لے کر مع اس بزرگ اور اسباب کے اپنے وطن واپسی کا سفر کیا- جب پسر لقمان اپنے مکان کے قریب پنہچا تو اس بزرگ نے پوچھا کہ اے بزرگ زادے تو اتنا عرصہ میرے ساتھ رہا سو تو نے مجھے کیسا پایا- تب  لڑکے نے کہا کہ بیشک میں نے آپ کو نیک مرد پایا ہے اور آپ کی برکت سے بہت سی مصیبتوں سے نجات پائی اور نیک بخت بیوی پائی اور اس قدر مال و اسباب پایا-

تب اس بزرگ نے کہا کہ مال میں سے مجھے بھی آدھا حصہ دو- تب لڑکے نے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے لے لو جتنا حصہ چاہئیے- بزرگ نے ایک طرف بی بی کے ساتھ تھوڑا سا مال رکھا اور دوسری طرف زیادہ حصہ مال اسباب کا رکھا- اور لڑکے سے کہا ان میں سے جو تم چاہو رکھ لو اور دوسرا حصہ میرے واسطے چھوڑ دو-

تب لڑکے نے اپنی بیوی اور اس کیساتھ والا تھوڑا حصہ مال اسباب کا چنا اور کہا کہ میرے لیے یہ کافی ہے- چنانچہ دونوں فریق اپنا اپنا حصہ لیکر چلے- تھوڑی دور گئے کہ بزرگ نے لڑکے کو آواز دے کر روکا اور اس سے پوچھا کہ اے پسر لقمان تو کس سبب سے مجھے زیادہ حصہ مال کا دئیے جاتا ہے- کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ تو نے جو کرامتیں مجھ سے دیکھیں ہیں ان کیوجہ سے مجھ سے خوفزدہ ہو کر زیادہ مال دئیے جاتے ہو- لڑکے نے کہا کہ ایسا بلکل نہیں- بلکہ یہ تو اس سبب سے ہے کہ میں نے آپ کی برکت سے جو نفع اٹھایا اور مصیبتوں اور مشکلوں سے رہائی پائی سو اس سب کے سبب خوش ہو کر آپ کو یہ سب اپنی خوشی اور مرضی سے دئیے جاتا ہوں-

تب بزرگ نے کہا، اے لڑکے تمہاری نیک نیتی اور اعلی ظرفی و اخلاق سے میں بہت خوش ہوں اور یہ سب مال اسباب بھی تم ہی لیتے جاو بھلا ہمارا اس دنیاوی مال و اسباب سے کیا کام اور غرض ہوئی- لڑکے نے پوچھا کہ آپ کون ہو اور کس سبب سے میرے ساتھ رہے- بزرگ نے کہا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہوں اور تمہارے باپ کی دعا کے سبب اللہ نے مجھے تمہاری حفاظت و نگہبانی کے واسطے مقرر کیا تھا- اور تم کو تمہارے باپ کا روپئیہ دلایا اور راہ بتلائی تم کو اور ہمارا زمہ تو لوگوں کیساتھ بھلائی اور مہربانی کرنا ہی ہے اللہ کے حکم سے- پس اب تم سے رحصت ہوتا ہوں اور تم بھی اپنے گھر کو جاو- تب لڑکا سب مال اسباب اور بیوی کو لیکر گھر آیا اور تمام احوال راستے کا اپنے باپ سے بیان کیا- حضرت لقمان نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔

حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ کی حکمت و دانائی کے موتیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں اس وقت صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔ آپ نے فرمایا:(1)بیٹا دنیا ایک گہرا سمندر ہے۔ جس میں بہت سے لوگ غرق ہو چکے ہیں۔ تجھے چاہیے کہ تو دنیا کے اس سمندر میں اپنی کشتی تقویٰ کو بنا لے، جس کا بھراؤ ایمان، جس کا بادبان توکل علی اللہ ہو، ممکن ہے اس صورت میں تو اس سے بچ جائے، ورنہ نجاب نہیں ہو سکتی۔(2)جو جھوٹ بولتا ہے اس کے چہرہ کی رونق چلی جاتی ہے۔ جس کے اخلاق برے ہوتے ہیں اسے غم بہت زیادہ ہوتا ہے، چٹانوں کو ان کی جگہ سے منتقل کر دینا زیادہ آسان بہ نسبت ناسمجھ کو سمجھانے کے،(3)بیٹا تو اگر کسی سے بھائی بندی کرنا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اسے غصہ دلا کر دیکھ لے اگر وہ اس غضب و غصہ کی حالت میں تیرے ساتھ انصاف کرے تو نبھا ورنہ ایسے شخص سے بچ۔(4)بیٹا قرضہ لینے سے بچ کیونکہ قرضہ دن کی ذلت اور رات کی فکر کا باعث ہے۔(5)بیٹا ان باتوں کے کرنے سے رک جا جو تیرے منہ سے نکلتی ہیں کیونکہ جب تک تو چپ رہے گا سلامت رہے۔البتہ ایسی بات کر جس سے تجھے کوئی فائدہ حاصل ہو۔

حضرت عمرو بن قیس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا تو آپ نے فرمایا: اس کی وجہ میرے دو کام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ سچ بولنا اور فضول باتوں سے اجتناب کرنا۔

سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیاہ فام لوگوں میں سے تین بہترین لوگ سیاہ فام ہوئے ہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام مھجع رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ، یہ وہ حکیم ہیں جنکا قرآن پاک میں تفصیلاً ذکر آیا ہے۔

ابوداؤد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غوروفکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغوکاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔

حضرت لقمان علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ :

’’اے بیٹا! جب کسی صحبت میں جاؤ تو لوگوں کو سلام کر کے بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ لوگ خدا کے ذکر میں مشغول ہوں توٹھہر جاؤ۔ اور اگر کسی اور کے ذکر میں مصروف ہوں تو ان کی صحبت چھوڑ دو۔ اور دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو۔ اے بیٹا! برے لوگوں سے پناہ مانگتے رہو۔ اور جو اچھے ہیں ان سے بھی ڈرتے رہو۔ دنیا میں نہ پھنسو اور اپنے دل کو اس میں نہ لگاؤ۔ کیونکہ تم دنیا کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔

اے بیٹا! جو کوئی دوسروں پر رحم کرتا ہے، خود اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ جو خاموش رہتا ہے، امن میں رہتا ہے۔ جو اچھی بات کہتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے، گنہگار ہے۔ جو زبان اپنے قابو میں نہیں رکھتا، ندامت اٹھاتا ہے۔ اے بیٹا! برگزیدہ علماء کی صحبت میں گھٹنوں کے بل جاؤ اور ان کی خدمت میں خاموش بیٹھ کر کان لگاؤ۔ اس لئے کہ علماء کے نور سے دل اس طرح زندہ ہو جاتا ہے جس طرح مردہ زمین آسمان کے مینہ سے ہو جاتی ہے۔

بیٹا زیادہ تر عالموں کی محفلوں میں بیٹھا کرو اور دانائوں کی باتوں کو غور سے سنا کرو۔ ہمیشہ سچ کو اپنا پیشہ بنا لو، جو شخص جھوٹ بولتا ہے اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔ جنازے کی نماز میں شرکت کیا کرو اور دعوتوں اور عیش عشرت کی محفلوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچا کر رکھو۔ کوئی چیز پیٹ بھر کر مت کھاو، کیونکہ اس سے عبادت میں سستی پیدا ہوتی ہے- کسی جاہل کو اپنا دوست مت بناو اور کسی دانا کو اپنا دشمن مت بناو۔ اپنے کاموں میں ہمیشہ علمائے کرام سے ضرور مشورہ کر لیا کرو- بیٹا باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اولاد کیلئے اس طرح ہے جس طرح کھیتوں کیلئے پانی۔ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے کسی کی شکایت کرے کہ فلاں نے میری آنکھ اندھی کر دی ہے تو جب تک تم دوسرے کی بات نہ سن لو اس وقت تک یقین نہ کرنا کیونکہ ممکن ہے کہ اس شخص نے اس کی دونوں آنکھیں پہلے ہی نکال دی ہوں.

حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے- کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ- آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے- مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟

آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سب سے بد تر بھی یہی ہیں۔

حضرت لقمان کی وفات کب کہاں اور کیسے ہوئی اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ نہیں مل سکا اور اللہ بہتر جانتا-

تبصرے بند ہیں۔