انسان قرآن کے آئینہ میں (تیسری قسط)

ندرت کار

نویں صفت :  بے صبری و بے قراری

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ خُلِقَ هَلوعًا ۔ إِذا مَسَّهُ الشَّرُّ‌ جَزوعًا ۔ وَإِذا مَسَّهُ الخَيرُ‌ مَنوعًا۔ إِلَّا المُصَلّينَ ۔﴾… سورة المعارج

"بے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے اورجب اسے نقصان پہنچتا ہے تو بے قرار ہوجاتا ہے اور جب دولت ملتی ہے تو کنجوس ہوجاتا ہے مگر جو نمازی ہیں "

جب انسان خیرحاصل کرتا ہے تو متقی اور پرہیزگار بن جاتاہے۔ شر حاصل کرتا ہے تو بداعمالیوں کا شکار ہوجاتاہے۔ اس طرح ا س کے موٴمن ہونے اور موٴمن نہ ہونے کی صورت میں اس کی یہی خوبی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔جب اس کا دل ایسے ایمان سے خالی ہوتا ہے جو اس کے دل کو مطمئن کرے اور اس کا رشتہ اس کے ربّ سے جوڑے تو وہ اپنی اصل فطرت بے صبری و بے قراری میں گرفتار رہتا ہے۔ اور پھر جب بے تاب ہوجاتاہے تو سوچتا ہے کہ یہ مصیبت ا س سے دور نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے کشائش پیدا کرے گا اور اس مشکل کو آسان بنا ئے گا۔وہ بے صبرا ہو کر کف ِافسوس ملتا ہے۔
جب خیر اور مال وجاہ یا علم حاصل کرتا ہے تو کنجوس بن جاتا ہے اور اسے دوسروں تک نہیں پہنچاتا وہ اپنے نفس اور مال کا بندہ بن جاتا ہے اور اس کی ہوس اور کنجوسی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا معاملہ صرف ایمان اور پابندی ٴ نماز ہی سے درست ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿إِلَّا المُصَلّينَ ٢٢ الَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم دائِمونَ ٢٣ وَالَّذينَ فى أَمو‌ٰلِهِم حَقٌّ مَعلومٌ ٢٤ لِلسّائِلِ وَالمَحر‌ومِ ٢٥ وَالَّذينَ يُصَدِّقونَ بِيَومِ الدّينِ ﴿٢٦﴾ وَالَّذينَ هُم مِن عَذابِ رَ‌بِّهِم مُشفِقونَ ٢٧ إِنَّ عَذابَ رَ‌بِّهِم غَيرُ‌ مَأمونٍ ٢٨ وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ٢٩ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ٣٠ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ٣١ وَالَّذينَ هُم لِأَمـٰنـٰتِهِم وَعَهدِهِم ر‌ٰ‌عونَ ٣٢ وَالَّذينَ هُم بِشَهـٰد‌ٰتِهِم قائِمونَ ٣٣ وَالَّذينَ هُم عَلىٰ صَلاتِهِم يُحافِظونَ ٣٤ ﴾… سورة المعارج

"جو مصلین ہیں ، جن کے مالوں میں سائل (فقیر) اوربے نصیب کا مقررہ حصہ ہے، جو بدلے کے دن کا یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں ، بے شک تمہارے ربّ کا عذاب بے خوف رہنے کا نہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، ان پر کچھ الزام نہیں اورجو ان (بیویوں اور کے سوا (جنسی ذرائع) چاہتے ہیں ، وہی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر ثابت رہتے ہیں اور جو اپنی صلات کی خبرداری رکھتے ہیں "

انسان کا دل جب ایمان سے خالی ہوتا ہے تو اس کی مثال ہوا کے سامنے ایک پر، کی مانند ہوتی ہے۔وہ معمولی تکلیف یا نقصان سے بے تاب ہوجاتا ہے اورتھوڑی سی بات پر خوش ہونے لگتا ہے۔ وہ اُداس و بے صبرا بن کر خوف، ڈر اور خوشی و کنجوسی کے درمیان ہچکولے کھانے لگتا ہے لیکن جب اس کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے تو اس کا نفس مطمئن رہتا ہے اور اسے سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ وہ پریشانی کے وقت سنگدل اور مصیبت کے وقت اُداس نہیں ہوتا بلکہ اس پر صبر کرتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ تنگی کے بعد آسانی اور مشکل کے بعد کشائش ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت کا، یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کا بدلہ دے گا۔ اوریہ کہ جو کچھ بھی نعمت ملے وہ اللہ کی طرف سے ایک  امتحان ہے۔ اس لئے اس کا دل دنیا کی نعمتیں ملنے پر خوشی سے اُڑنے نہیں لگتا۔ بلکہ وہ اس کا حساب کرتا ہے اور اللہ کی آزمائش اور ناشکری سے ڈرتا ہے لہٰذا اس کا دل ثابت، طبیعت مطمئن اور پرسکون اور اس کی حالت برقرار رہتی ہے۔

ایمان دنیا و آخرت کی ایک پائیدار سعادت ہے اورفسق و فجور دنیاو آخرت کی پائیدار شقاوت ہے۔ اسی طرح صلات، حقیر بندے اور اس کے طاقتور و زبردست ربّ کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو اسے سکون و اطمینان اور طاقت و ثبات دیتی ہے۔ صرف ایسی صلات جو پابندی سے بلاناغہ ادا کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب عمل وہی ہے جو مسلسل ہو اگرچہ کم ہو۔ زکوٰة و صدقہ موٴمن کے مال میں ایک واجب حصہ ہوتا ہے جسے ادا کئے بغیر اسے قرار نہیں ہوتا اوراسے ادا کرتے وقت وہ اسے سعادت اور اپنے مال کی آلودگیوں سے صفائی سمجھتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ وہ فقیروں اور غریبوں کی مدد اور تعاون کررہا ہے۔ اسے جب بھی موقع ملے، خیرات کرتا رہتا ہے۔ اوریومِ جزا اورحساب پر ایمان اس کے نفس کو سکون و قرار دیتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے کہ ادھر ایک ایسا دن ہے جس میں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا لیکن جو شخص آخرت اور حساب کو نہیں مانتا جب اس سے کوئی چیز چھوٹ جاتی ہے یا برباد ہوجاتی ہے یا کوئی اس پر زیادتی کردیتا ہے تو اس کا دل حیرت اورپریشانی سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے کیونکہ وہ اپنی محدود اور مختصر عمر کے بارے میں ہی سوچتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا اور آخرت کی جزا کا امیدوار ہوتا ہے وہ حساسیت کے بلند مرتبے پر ہوتا ہے اور دنیا میں دونوں آنکھیں ، دل اور حواس کھول کر چلتا ہے۔ وہ کوئی غلط بات منہ سے بولنے اور کوئی غلط کام کرنے یا کوئی نگاہ غلط اُٹھانے سے ڈرتا ہے۔وہ اللہ کی ہدایت اور اس کے رسولﷺ کی سنت پر چلتا ہے اور وہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اپنی بیوی اورکنیز کو چھوڑ کر زنا کاری نہیں کرتا اور نہ دوسری عورتوں کی طرف نگاہ ڈالتا ہے۔ بے شک وہی پاک اور صاف ستھرا ہے جواپنی صفائی کو نافرمانیوں اور گناہ کا دھبہ نہیں لگاتا اور محرمات کو نہیں توڑتا۔ وہی مطمئن ہوتا ہے جس کے اعصاب پرسکون اور جس کی طبیعت خوش رہتی ہے، اس لئے کہ طبیعت کا سکون ہی راحت بخش زندگی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً…٢١ ﴾… سورة الروم

"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لئے تمہیں میں سے اس نے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کی”

لہٰذا سکون و قرار، زوجیت کے اچھے امکان میں ہوتا ہے۔ یہی محبت اور رحمت ہے۔ اس کے علاوہ حیوانی خواہشات اور دنیا و آخرت کا عذاب ہے۔ اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کا پاس رکھتے ہیں وہی بہترین عادات و سیرت کے حامل ہوتے ہیں یعنی جو لوگ اوّلاً اپنے ربّ کی عبادت کرکے اور ثانیاً اپنے اہل و عیال، نوکر چاکر اور تعلق داروں کے حقوق ادا کرکے اورکان، آنکھ اور اعضا کی حفاظت کرکے اپنی امانتوں کا لحاظ رکھتے ہیں ، وہی اچھی عادات اور کردار کے مالک ہیں ۔

لوگوں کی امانتیں ، مال وعزت اور آبرو وغیرہ بہت سی چیزیں ہیں ۔ جو شخص ان میں خیانت کرے، اس کے لئے خوف اوربے قراری کا سامنا کرنے کی وعید ہے۔ جس نے ان کی حفاظت کی تو اس نے اپنے دین اور نفس کی حفاظت کر لی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی۔ اسی طرح شہادت پر موٴمن کا ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم بِشَهـٰد‌ٰتِهِم قائِمونَ ٣٣ ﴾… سورة المعارج "جو اپنی گواہیوں پر ثابت رہتے ہیں "

نیز اس کا ارشاد ہے:

﴿وَأَقيمُوا الشَّهـٰدَةَ لِلَّهِ…٢ ﴾… سورة الطلاق "اور اللہ کے لئے شہادت قائم کرو”

لہٰذا اسے ادا کرنے میں کوتاہی کرنا یا اسے ضائع کر دینا یا چھپا دینا بہت بڑا گناہ اور زمین میں فساد اور معاشرتی انتشار پیدا کرنا ہے کیونکہ حدود قائم کرنا، شہادت اور عدل و انصاف کے بغیر ناممکن ہے اوراللہ تعالیٰ کے لئے شہادت کو اس کی درست صورت پر ادا کئے بغیر معاشرے میں سکون قائم نہیں ہوسکتا۔

صلات کا قیام، انسان کی اصلاح کے لئے نہایت اہم ہے۔ اسی لئے اللہ نے سورہٴ معارج کی مذکورہ بالا آیات میں اسی سے آغاز کیا اور اسی پر انتہا کی ہے۔ لہٰذا صلات ایک ایسی چیز ہے کہ جس نے اس کی حفاظت کی، اس نے اپنے پورے دین کی حفاظت کرلی اور اس کے تمام اُمور سدھر گئے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم عَلىٰ صَلَو‌ٰتِهِم يُحافِظونَ ٩ أُولـٰئِكَ هُمُ الو‌ٰرِ‌ثونَ ١٠ الَّذينَ يَرِ‌ثونَ الفِر‌دَوسَ هُم فيها خـٰلِدونَ ١١ ﴾… سورة المومنون

"جو اپنی صلات کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ یہی وارث ہیں جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے”

دسویں صفت:  وسوسے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿قُل أَعوذُ بِرَ‌بِّ النّاسِ ١ مَلِكِ النّاسِ ٢ إِلـٰهِ النّاسِ ٣ مِن شَرِّ‌ الوَسواسِ الخَنّاسِ ٤ الَّذى يُوَسوِسُ فى صُدورِ‌ النّاسِ ٥ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ ٦ ﴾… سورة الناس

"آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں ، لوگوں کے مالک کی، لوگوں کے معبود کی (پناہ میں ) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کی برائی سے جو لوگوں کے سینوں (دلوں ) میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جو جنوں میں سے ہے اور انسانوں میں سے”

اور اس کا ارشاد ہے:

﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ وَنَعلَمُ ما تُوَسوِسُ بِهِ نَفسُهُ ۖ وَنَحنُ أَقرَ‌بُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَر‌يدِ ١٦ ﴾… سورة ق

"اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو وسوسہ تک اس کے دل میں گزرتا ہے ہم اسے بھی خوب جانتے ہیں اور ہم اس سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں "

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«إن الشيطان جاثم علی قلب ابن ادم فإذا ذکر الله تعالیٰ خنس وإذا غفل وسوس»

"شیطان ابن آدم کے دل پر بیٹھا رہتا ہے۔ جب وہ اللہ کاذکر کرتا ہے تو وہ (شیطان) پیچھے ہٹ جاتاہے اور جب (یادِالٰہی سے) غافل ہوجاتاہے تو وہ وسوسے ڈالتا ہے”

شیطانِ لعین چھپ کر اور پوشیدہ طور پر وسوسہ ڈالتا ہے اوریہ معرکہ انسان اور شیطان کے درمیان برابر جاری ہے اوریہ معرکہ آدم اور ابلیس کے درمیان، پہلے اس وقت ہوا جب اس نے ان کے اور ان کی بیوی کے دل میں وسوسہ پیدا کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِ‌ىَ عَنهُما مِن سَوء‌ٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَ‌بُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ٢٠ ﴾… سورة الاعراف

"اور شیطان نے دونوں کو وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں ان کے لئے ظاہر کردے اور کہا کہ تمہیں تمہارے ربّ نے اس درخت سے اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہوجاؤ یا (جنت میں ) ہمیشہ کے نہ ہوجاؤ”

یہ وسوسہ جس طر ح شیاطین و جنات کی طرف سے ہوتا ہے ایسے ہی ان انسانوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے جو برے اور شریر ساتھی ہوتے ہیں اور یہ شیطان کے وسوسے سے سخت ہوتا ہے۔ ان میں چغل خور، عیب جو، شرپسند، فساد پرور، بدعات اور نفسانیت کے پرستار شامل ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کو خوشنما اور پرفریب باتوں کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ معرکہ شیاطین اور صالحین و موٴمنین کے درمیان برابر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِنَّ الشَّيـٰطينَ لَيوحونَ إِلىٰ أَولِيائِهِم لِيُجـٰدِلوكُم ۖ وَإِن أَطَعتُموهُم إِنَّكُم لَمُشرِ‌كونَ ١٢١ ﴾… سورة الانعام

"بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم مشرک ہوگے”

شیطان انسان کو دھوکہ دینے کے لئے ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ثُمَّ لَءاتِيَنَّهُم مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم وَعَن أَيمـٰنِهِم وَعَن شَمائِلِهِم ۖ وَلا تَجِدُ أَكثَرَ‌هُم شـٰكِر‌ينَ ١٧ ﴾… سورة الاعراف

"پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے زیادہ تر کو شکرگزار نہیں پائے گا”
لیکن ان کا غلبہ اور اقتدار انہی پر ہوتا ہے جو اس کی اطاعت کرتے اور اسے دوست بناتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّهُ لَيسَ لَهُ سُلطـٰنٌ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ ٩٩ إِنَّما سُلطـٰنُهُ عَلَى الَّذينَ يَتَوَلَّونَهُ وَالَّذينَ هُم بِهِ مُشرِ‌كونَ ١٠٠ ﴾… سورة النحل

"بے شک ان لوگوں پر اس (شیطان) کا کوئی قابو نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اس کا قابو تو انہی پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور جو اس (اللہ) کے ساتھ شرک کرتے ہیں "

اللہ تعالیٰ انسان کے نفس کے وسوسے کو بھی جانتا ہے اور اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ وہ پوشیدہ و ظاہر کو یکساں جانتا ہے۔ لہٰذا انسان کو شیاطین کے وسوسے سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ اس کے جال اور پھندے ہیں جس سے وہ اس کو شکار کر لیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ موٴمن کو چاہئے کہ اس کے وسوسے اور اس کی انگیخت سے پناہ مانگتا رہے کیونکہ شیطان کمزور اور چور ہے اور وہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ان کے پاس سے فرار ہوجاتا ہے۔ وہ ان سے دوررہتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ

"شیطان حضرت عمر بن خطاب  کے نزدیک نہیں جاتا اور اگر وہ کسی وادی میں چل رہے ہوتے ہیں تو شیطان دوسری وادی کی راہ اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل رہتا ہے، شیطان اس کے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ رہتا ہے” … اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَمَن يَعشُ عَن ذِكرِ‌ الرَّ‌حمـٰنِ نُقَيِّض لَهُ شَيطـٰنًا فَهُوَ لَهُ قَر‌ينٌ ٣٦ وَإِنَّهُم لَيَصُدّونَهُم عَنِ السَّبيلِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ ٣٧ ﴾… سورة الزخرف

"اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوجائے، ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور وہ اسے (سیدھے) راستے سے روکتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں "(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔