انسان کی کمزوریاں (تیسری قسط)

 مزاج کی بے اعتدالی: دوسرا درجہ ان خرابیوں کا ہے جس کیلئے موزوں ترین نام ’’مزاج کی بے اعتدالی‘‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلہ میں یہ ایک معصوم نوعیت کی کمزوری ہے کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی برے جذبے، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے، لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ نفسانیت کے بعد دوسرے نمبر پر آتی ہے بلکہ بسا اوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔

  مزاج کی بے اعتدال کا فطری نتیجہ نظر و فکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اور بہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دنیا میں انسان رہتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہر ایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کیلئے فکر و نظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ حالات کے ہر پہلو پر نگاہ رکھی جائے۔ معاملات کے ہر رخ کو دیکھا جائے۔ ضروریات کے ہر گوشے کو اس کا حق دیا جائے۔ فطرت کے ہر تقاضے کوملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کیلئے بہر حال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا اور جس قدر وہ اس سے دور ہوگا اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رونما ہوا ہے اور آج رونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیر متوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو ایک رخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں ۔ ان کو حل کرنے کیلئے غیر متوازن اسکیمیں بنائیں اور ان کو نافذ کرنے کیلئے غیر معتدل طریقے اختیار کئے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے اور بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوسکتا ہے، فکر و نظر کے توازن اور طریق عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔

 یہ وصف خاص طور پر تعمیر و اصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دنیا میں منتقل کرنے کیلئے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کار فرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ سکتے ہیں ، بنا نہیں سکتے۔

 نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظام زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اٹھیں ، آپ کی کامیابی کیلئے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پر مطمئن ہوں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابل عمل ہونے پر مطمئن کریں ۔ اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں جس سے لوگوں کی امیدیں اور رغبتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں ۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے جو نظر و فکر میں بھی متوازن ہو اور طریق عمل میں بھی متوازن۔ ایک انتہا پسندانہ اسکیم جو انتہا پسندانہ طریقوں سے چلائی جائے عام انسانوں میں اپنے لئے رغبت اور امید پیدا کرنے کے بجائے نفرت اور مایوسی پیدا کرتی ہے۔ قائل اور مطمئن کرنے کے بجائے معترض اور غیر مطمئن بناتی ہے اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کر دیتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کیلئے کچھ انتہا پسند لوگ اکٹھے ہو بھی جائیں تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہا پسند بنالینا اور دنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

خود اس جماعت کیلئے بھی یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اٹھتی ہو۔

 یک رُخا پن: مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کا یک رخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہر چیز کا ایک رخ دیکھتا ہے، دوسرا رخ نہیں دیکھتا۔ ہر معاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کے عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ بیٹھتا ہے۔ دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیر وقیع ہوجاتی ہیں ، جس چیز کو برا سمجھ لیتا ہے اسی کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی برائیاں اس کے نزدیک قابل توجہ نہیں ہوتیں ۔ اصولیت اختیار کرتا ہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے۔ کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے۔ اور کامیابی کو مقصود بالذات بناکر اس کیلئے ہر قسم کے ذرائع ووسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔

 انتہا پسندی : یہ کیفیت اگر اس حد پر نہ رک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہا پسندی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے۔ اختلاف رائے میں شدت برتنے لگتا ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہر مخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہنا کر ٹھکرانا اور ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روز بروز اسے دوسروں کیلئے اور دوسروں کو اس کیلئے ناقابل برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر بھی بے اعتدالی رک جائے تو خیریت ہے لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کی جائے تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیز زبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔

 اجتماعی بے اعتدالی: ایک آدمی یہ روش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا اور اس مقصد کی خدمت سے محروم رہ جائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا، اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیر متوازن ذہن اور غیر معتدل مزاج جمع ہوجائیں تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں ۔ پھوٹ پڑتی ہے۔ دھڑے بندی ہوتی ہے اور اس کشمکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے جسے بنانے کیلئے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔

 حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کیلئے بہر حال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔اس موافقت کیلئے کسر و انکسار ناگزیر ہے اور یہ کسر و انکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی متوازن۔ غیر متوازن لوگ جمع ہو بھی جائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے ان میں پھر تفرقہ رونما ہوگا، یہاں تک کہ آخر کار ایک ایک امام مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔

جن لوگوں کو اسلام کیلئے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز ’’اسلامی اصول‘‘پر نظام زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ و ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کر کے اس بے اعتدالی کی ہر مشکل سے خود بھی بچنا چاہئے اور ان کی جماعت کوبھی یہ فکر ہونی چاہئے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشو و نما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ہدایات ان کے پیش نظر رہنی چاہئے جو انتہا پسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں ۔ قرآن مجید جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ’ غلو فی الدین‘ ہے۔ اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں :

 ’’خبر دار! انتہا پسندی میں نہ پڑنا کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہا پسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں ‘‘۔

 ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے ایک تقریر میں تین بار فرمایا: ہلک المتنطعون۔ برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ ’’آپ پچھلی امتوں کی افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملات زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علمبرداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہئے وہ اس کے داعی اول نے یہ سکھایا ہے:

 ’’سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلاؤ‘‘۔

 ’’تم سہولت دینے کیلئے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کیلئے نہیں بھیجے گئے‘‘۔

 کبھی ایسا نہیں ہو اکہ ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دو معاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو او رآپؐ نے ان میں سے آسان ترین کو نہ اختیار کیا ہو، اِلّا یہ کہ وہ گناہ ہو‘‘۔ (بخاری و مسلم)

 ’’اللہ نرم خو ہے، ہر معاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے‘‘ ۔ (بخاری و مسلم)

 ’’جو نرم خوئی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے بالکل محروم ہوگیا‘‘ ۔ (مسلم)

 ’’اللہ نرم خو ہے اور نرم خو آدمی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا‘‘۔ (مسلم)

 ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظام زندگی کیلئے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطہ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیئے ہوئے نقشے پر درست کرنے کیلئے درکار ہے۔

 تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔