انسان کی کمزوریاں (دوسری قسط)

غیبت: ان مراحل کے بعد غیبت کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد خواہ بدگمانی پر ہو یا حقیقت پر، دونوں حالتوں میں کسی شخص کو ذلیل کرنے اور اس کی تذلیل سے لذت یا فائدہ اٹھانے کی خاطر اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت ہے۔ حدیث میں اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’تیرا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس طرح کرنا کہ اسے معلوم ہوتو ناگوار ہو‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ہمارے بھائی میں وہ برائی موجود ہو جس کا ذکر کیا گیا ہے تو کیا پھر بھی یہ غیبت ہوگی؟ فرمایا ’’اگر اس میں وہ برائی ہے اور تونے بیان کی تو غیبت ہوگی اور اگر اس میں وہ نہیں ہے توغیبت سے بڑھ کر تونے بہتان لگایا۔ قرآن اس فعل کو حرام قرار دیتا ہے؛ چنانچہ سورہ حجرات میں ارشاد ہے : ’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، اس سے تو تم ضرور نفرت کروگے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس سے مستثنیٰ صرف دو صورتیں ہیں جن میں کسی کی برائی کرنے کی جائز ضرورت ہو اور اس میں بدخواہی کی نیت شامل نہ ہو۔ مثلاً کسی مظلوم کا ظالم کی شکایت اس لئے کرنا کہ کوئی اس کی فریاد رسی کرے۔ اس کی اجازت خود قرآن مجید میں دی گئی ہے۔

 اللہ تعالیٰ برائی پر زبان کھولنا پسند نہیں کرتا، اِلّا یہ کہ کسی شخص پر ظلم ہوا ہو یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص سے بیٹی بیاہ رہا ہو یا اس سے کوئی کاروباری معاملہ طے کر رہا ہو اور فریقین میں سے کوئی اس معاملہ میں کسی جاننے والے سے مشورہ لے۔ اس صورت میں جو واقعی برائی آدمی کے علم میں ہو اسے خیر خواہی کی بنا پر بیان کر دینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع پر برائی بیان کی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دو صاحبوں نے فاطمہ بنت قیس کو نکاح کا پیغام دیا۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا۔ آپؐ نے انھیں خبر دار کیا کہ ان میں سے ایک صاحب کنگال ہیں اور دوسرے صاحب بیویوں کو پیٹنے کے عادی ہیں ۔

اسی طرح شریعت کو غیر معتبر راویوں کی روایات سے محفوط کرنے کیلئے ان کے عیوب بیان کرنا تمام علماء امت نے بالاتفاق جائز رکھا اور ائمہ حدیث نے عملاً اس خدمت کو انجام دیا کیونکہ دین کیلئے اس کی ضرورت تھی۔ خلق خدا پر علانیہ ظلم کرنے والوں اور فسق و فجور پھیلانے والوں اور کھلے کھلے بدکردار لوگوں کی غیبت کرنا بھی جائز ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اس کا جواز ثابت ہے۔ اس طرح مستثنیٰ صورتوں کے ما سوا غیبت ہر حال میں حرام ہے اوراس کا سننا بھی گناہ ہے۔ سننے والوں پر لازم ہے کہ یا تو غیبت کرنے والے کو روکیں یااس شخص کی مدافعت کریں جس کی غیبت کی جارہی ہو یا بدرجۂ آخر اس محفل سے اٹھ جائیں جہاں ان کے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھایا جارہا ہو۔

چغل خوری: غیبت سے جو آگ لگتی ہے اسے پھیلانے کی خدمت چغل خوری انجام دیتی ہے اور اس میں بھی اصل محرک وہی نفسانیت کا جذبہ ہوتا ہے۔ چغل خور کسی کا خیر خواہ بھی نہیں ہوتا نہ اس کا جس کی برائی کی گئی ہو اور نہ اس کا جس سے برائی کی ہو۔ وہ دوست دونوں کا بنتا ہے مگر در اصل دونوں کا بدخواہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ایک ایک کی بات کان لگاکر سنتا ہے اور اس کی تردید نہیں کرتا۔ پھر دوست کو اس کی خبر پہنچاتا ہے تاکہ جو آگ اب تک ایک جگہ لگی ہوئی تھی وہ دوسری جگہ بھی لگ جائے۔ شریعت الٰہی میں اس چیز کو بھی حرام کیا گیا کیونکہ یہ فساد انگیزی میں غیبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ قرآن مجید میں جن اوصاف کو آدمی کی بدترین صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک چغل خوری کرتے پھرنا ہے۔

حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لایدخل الجنۃ نمام ۔ ’’کوئی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: تم بدترین انسان اس شخص کو پاؤگے جس کے دو منہ ہیں ۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک منھ لے کر آتا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کے پاس دوسرا منھ لے کر جاتا ہے۔ صحیح اسلامی رویہ یہ ہے کہ آدمی جہاں کسی کی غیبت سنے وہیں یا تو اس کی تردید کرے یا پھر فریقین کی موجودگی میں اس معاملہ کو چھیڑ کر اس کی صفائی ایسے طریقے سے کرائے جس سے ایک فریق کو یہ شبہ نہ ہو کہ دوسرے فریق نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی تھی۔ اور اگر غیبت کسی ایسی برائی پر ہو جو واقعی شخص مذکور میں پائی جاتی ہو تو ایک طرف غیبت کرنے والے کو اس کے گناہ پر متنبہ کرے اور دوسری طرف اس شخص کو بھی اپنی اصلاح کیلئے توجہ دلائے جس کی برائی بیان کی گئی تھی۔

کُھسر پُسر اور سرگوشیاں : اس سلسلۂ فساد کی انتہائی کڑی نجویٰ ہے یعنی کھسر پسر، سرگوشیاں اور خفیہ مشورے جن سے بالآخر سازشوں اور جتھہ بندیوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے خلاف کشمکش کرنے والے دھڑے وجود میں آتے ہیں ۔ شریعت الٰہی اس کوبھی سختی سے منع کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کو ایک شیطانی حرکت قرار دیا گیا ہے۔ ’’انّما النّجویٰ من الشّیطٰن‘ ‘اور اس کے بارے میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ دو یا چند آدمیوں کی علاحدگی میں گفتگو کرنا اگر نیک مقاصد کیلئے اور تقویٰ کے حدود میں ہو تو اس نجویٰ کی تعریف میں نہیں آتا جو ممنوع ہے، البتہ وہ گفتگو ضرور نجویٰ اور ممنوع نجویٰ ہے جو جماعت سے آنکھ بچاکر اخفا کے اہتمام کے ساتھ اس غرض کیلئے کی جائے کہ کسی برے کام کی اسکیم بنائی ہے یا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے… یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنا ہے۔

ایمان دارانہ اور مخلصانہ اختلافات کبھی نجویٰ کے متحرک نہیں ہوسکتے۔ ان کی بات چیت کھلم کھلا ہوتی ہے۔ اور اس بات چیت سے اگر اختلافات باقی رہ بھی جاتے ہیں تو وہ کبھی موجب فساد نہیں ہوتے۔ جماعت سے الگ ہٹ کر اخفا کے اہتمام کے ساتھ سرگوشیاں کرنے کی ضرورت صرف انہی اختلافات میں پیش آتی ہے جو اگر چہ بالکل نفسانیت پر مبنی نہ بھی ہوں تو کم از کم ان میں نفسانیت کی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔ ایسی سرگوشیاں کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کرتیں ۔ ان کی ابتدا چاہے کتنی ہی معصوم ہو ، رفتہ رفتہ وہ پوری جماعت کو آپس کی بدگمانیاں ، تفرقوں اور دھرے بندیوں کی چھوت لگا دیتی ہیں ، باہم پخت وپز کرکے جب چند آدمی ایک جتھے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں تو پھر دوسرے لوگوں میں بھی ایسی ہی پخت و پز کرنے اور جتھے بنانے کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہیں سے اس بگاڑ کی ابتدا ہوتی ہے جو بہترین اہل خیر کی جماعتوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے باہم دست و گریباں کر دیتا ہے۔

آخری مرحلہ وہ ہے جبکہ یہ بگاڑ عملاً رونما ہوجائے، یہ وہ چیز ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بار بار متنبہ کیا ہے، شدت کے ساتھ ڈرایا ہے اور سختی کے ساتھ بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شیطان اب اس بات سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ عرب میں جو لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں وہ پھر اس کی عبادت کرنے لگیں گے۔ اب اس کی ساری امیدیں صرف اس کے اندر بگاڑ پیدا کرنے اور ان کو باہم لڑانے ہی سے وابستہ رہ گئی ہیں ، حتیٰ کہ آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ اس طرح کی حالت پیدا ہوجانے کی صورت میں اہل ایمان کو جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اول تو آدمی خود فتنہ میں حصہ لینے سے بچے ’’خوش قسمت ہے وہ جو فتنوں سے بچ گیا اور جو جتنا بھی اس سے دور رہے اتنا ہی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ اس حالت میں سونے والا جاگنے والے سے بہتر ہے اور جاگنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہوا دوڑنے والے سے بہتر ہے۔ دوسرے اگر وہ حصہ لے تو لڑنے والوں سے ایک فریق بن کر نہیں بلکہ صدق دل سے اصلاح کی کوشش کرنے والا بن کر لے، جس کے متعلق صاف صاف ہدایات سورۂ حجرات کے پہلے رکوع میں دی گئی ہیں ۔

نفسانیت کی اس حقیقت اور اس کے نشو و نما اور ظہور کے ان مراتب اور ہر مرتبے کے متعلق شریعت الٰہی کے ان احکام کوذہن نشین کرلینا ان تمام لوگوں کیلئے ضروری ہے جو خیر و صلاح کی خدمت کرنے کیلئے مجتمع ہوں ۔ ان میں سے ہر شخص کو پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو خود پسندی کے مرض سے بچائے اور ان اخلاقی و روحانی نقصانات کو سمجھے جو اس مرض میں مبتلا ہونے سے پہنچتے ہیں ان کی جماعت کو بھی بحیثیت مجموعی اس معاملہ میں چوکنا رہنا چاہئے کہ کہیں اس کے اندر نفسانیت کے جراثیم کو انڈے بچے دینے کا موقع نہ مل جائے۔ انھیں اپنے دائرے میں کسی ایسے شخص کی ہمت افزائی نہ کرنی چاہئے جو اپنے اندر تنقید سن کر بپھر جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے استکبار برتے۔ انھیں ہر اس شخص کو دبانا چاہئے جس کی باتوں سے بغض و عداوت کی بو آئے یا جس کا طرز عمل یہ بتا رہا ہو کہ وہ کسی شخص سے ذاتی کدورت رکھتا ہے۔ انھیں ایسے لوگوں کی بھی خبر لینی چاہئے جو دوسروں کے معاملے میں بدگمانی سے کام لیں یا دوسروں کے حالات کی ٹوہ لگاکر ان کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔ انھیں اپنی سوسائٹی میں غیبت اور نمامی کا بھی انسداد کرنا چاہئے اور جہاں کہیں یہ بلا اپنا سر نکالے وہاں فوراً سیدھا سیدھا اسلامی رویہ اختیار کرنا چاہئے جس کی تشریح اوپر کی جاچکی ہے۔ انھیں خصوصیت کے ساتھ نجویٰ کے خطرات سے ہوشیار رہنا چاہئے کہ کوئی شخص سرگوشی کرکے کسی اختلافی مسئلہ میں اسے اپنا ساتھی بنائے اور جس وقت بھی اس امر کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں کہ کچھ لوگ جماعت میں یہ طریقہ اختیار کررہے ہیں اسی وقت جماعت کو ان کی اصلاح یا پھر ان کی سرکوبی کیلئے تیار ہوجانا چاہئے۔

ان ساری کوششوں کے باوجود اگر جماعت کے اندر کسی جتھہ بندی کا فتنہ رونما ہوہی جائے تو پھر مخلصین کا یہ کام نہیں ہے کہ خود بھی کرنوں اور گوشوں میں خفیہ سرگوشیاں کرکے کوئی دوسرا جتھا بنانے کیلئے ساز باز شروع کردیں ، بلکہ انھیں اس فتنے سے اپنا دامن بچاکر اس کو روکنے کیلئے انفرادی تدبیریں کرنی چاہئیں اور ان میں ناکام ہونے کے بعد جماعت کے سامنے کھلم کھلا اس معاملے کو لے آنا چاہئے۔ جس جماعت میں مخلص افراد کی کثرت ہوگی وہ اس طرح کے فتنوں سے خبردار ہوکر فوراً ان کا استیصال کر دے گی اور جس میں فتنہ پسند یا بے فکر افراد زیادہ ہوں گے وہ انہی فتنوں کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز 

تبصرے بند ہیں۔