انھیں یہ ضد ہے کہ بارِدگر بنایا جائے

عرفان وحید

انھیں یہ ضد ہے کہ بارِدگر بنایا جائے
یہ قصرِدل ہے اسے توڑ کر بنایا جائے

لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے
کٹے پروں کو ہی اب شاہ پر بنایا جائے

کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے
ابھی سے کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے

فرازِدار پہ کرکے بلند آخرِ شب
مرے ہی سر کو نشانِ سحر بنایا جائے

بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا
کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے

جو تجھ سے روٹھ چلے ہیں پلٹ کے سوچتے ہیں
کسی بھی طور ترے دل میں دَر بنایا جائے

قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم
چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے

تمام قدریں پرانی جو تھیں ہوئیں رخصت
نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے

مفر محال ہے قید مکاں سے جب عرفانؔ
تو کیوں نہ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے

تبصرے بند ہیں۔