کس قدر سنسان ہو کر رہ گئے

افتخار راغب

کس قدر سنسان ہو کر رہ گئے

ہجر میں ویران ہو کر رہ گئے

رہ گئے فرقت میں بھی زندہ مگر

مثلِ آتش دان ہو کر رہ گئے

جب سے خیمہ زن ہوئے پردیس میں

گھر پہ بھی مہمان ہو کر رہ گئے

بے حسی جب حد سے آگے بڑھ گئی

سب کے سب بے جان ہو کر رہ گئے

آپ نے جب سے نگاہیں پھیر لیں

بے سر و سامان ہو کر رہ گئے

راست گوئی کے ہوئے تھے مرتکب

زینتِ زندان ہو کر رہ گئے

حد سے جب راغبؔ بڑھی پیچیدگی

ہم بڑے آسان ہو کر رہ گئے

تبصرے بند ہیں۔