انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

ڈاکٹر أبو معاذ ترابی

1927 میں 9 سال کی عمر میں اپنا آبائی وطن (سورت)، ہندوستان سے جنوبی افریقہ پہنچے ہی تھے کہ چند ماہ بعد والدہ کی وفات کی اندوہناک خبر ملی، ان کے والد محترم جنوبی افریقہ میں درزی کا کام کرتے تھے،  وہاں ہر چیز ان کے لیے غیر مانوس تھی، اسکول میں داخلہ ہوا تو نئے ماحول، نئے نصاب و نئی زبان سے سابقہ ہوا، ایک عام بچہ ہوتا تو ایسی صورتحال سے گھبرا جاتا، اسکول جانے کی ہمت نہ کرتا، لیکن ا‌ن کے عزم و حوصلے کے سامنے نیا ماحول، نیا نصاب حتی کی اجنبی زبان زیادہ دیر رکاوٹ نہ بن سکی، جلد ہی انگریزی زبان پر عبور حاصل لیا، مدروسہ مضامین میں دسترس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اساتذہ و اسکول انتظامیہ ان کو اگلے درجات میں بڑھانے لگے، درجہ ششم ابھی پاس ہی کیا تھا کہ مالی پریشانیوں نے گھیر لیا، مجبوراً تعلیم کا سلسلہ ترک کرکے اپنے والد محترم کی مدد کے لیے ١٦ سال کی عمر میں نوکری شروع کردی، چند نوکریوں کے بعد ایک ایسے اسٹور میں نوکری ملی جس کے بغل میں ایک چرچ تھا، اس چرچ میں عبادت کے ساتھ ساتھ عیسائی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مبلغین کی تعلیم، تربیت و ٹریننگ بھی ہوتی تھی۔

 اس وقت عیسائی مذہب کا بول بالا تھا، عیسائی مشینریاں برطانوی کالونیوں بشمول جنوبی افریقہ میں بہت سرگرم تھیں، عیسائی مبلغین شاہراہوں، بازاروں اور چوراہوں پر لکچر دیتے، گاؤوں اور شہروں میں پمفلیٹ تقسیم کرتے اور مناظرے کے لیے مسلمانوں کو للکارتے اور کہتے پھرتے کہ مسلمانوں کے پاس ہمارے سوالات کا جواب نہی ہے، اسلام انسانیت کا دشمن ہے جیسے پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تاکہ مسلمان یا تو عیسائی مذہب قبول کرلیں یا کم از کم اپنے مذہب سے بیزار ہو جائیں۔

اس چرچ میں ٹرینگ پانے والے عیسائی مبلغین اکثر ان کے اسٹور پر ضرورت کی اشیاء خریدنے آتے، ان کو مسلمان دیکھ کر طنز کرتے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ڈھیر ساری شادیاں کیں، تلوار کے زور پر لوگوں کو مسلمان بنایا، قرآن بنی نوع انسانی کے لیے ایک خطرناک کتاب ہے وغیرہ۔ اس ١٦ سال کے بچےکو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے علاوہ کچھ معلوم نہیں تھا لیکن اس کے سینے میں ایک حساس دل تھا جو اسلامی غیرت و حمیت سے معمور تھا، عیسائی مبلغین کے توہین و حقارت آمیز سوالات، بھونڈے الزامات اور طعن و تشنیع ا‌س کے دل میں نشتر کی طرح چبھتے، سونے جاتے تو ان کی تنقیدیں کانوں میں گونجتی، بے قراری کے عالم میں کروٹوں میں راتیں گزارتے، لیکن ان بیچارے عیسائی مبلغین کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ ان کی ان ‌ناروا حرکتوں کی وجہ سے یہ نوجوان کل شیخ احمد دیدات جیسا عظیم مبلغ اسلام بن جائے گا جو نہ صرف پورے آب و تاب کے ساتھ اسلام کا دفاع کریگا بلکہ ساری عیسائی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیگا اور  عیسائی مشینریوں کے تانے بانے کو کمزور کردیگا  تو وہ اپنی حرکتوں سے ضرور باز آگئے ہوتے۔

اس عمر میں شیخ احمد دیدات رح عیسائی مبلغین کی جارحانہ تنقیدوں کو سن کر تڑپتے و تلملاتے اور تلاش میں تھے کہ ان کو مطالعہ کے لیے کچھ مواد ملے جس سے حقیقت معلوم ہو اور عیسائی مبلغین کے سوالوں کا تشفی بخش جواب مل جائے، آس پاس موجود مسلمانوں سے دریافت کیا لیکن کوئی رہنمائی نہی ملی، جب کسی کے دل میں دین کے لیے سچی تڑپ جاگ جاۓ تو اللہ تعالیٰ وہاں سے مدد فرماتا ہے جہاں سے انسان گمان نہی کرسکتا، بالکل ایسا ہی شیخ احمد دیدات رح کے ساتھ ہوا، ایک روز وہ اپنے اسٹور کے بیسمنٹ میں صفائی کررہے تھے کہ ان کو ایک کتاب ("اظہار الحق” کا انگریزی ترجمہthe truth revealed) بالکل بوسیدہ حالت میں ملی، کتاب کے اوراق کیڑے مکوڑے نے کتر رکھا تھا۔ لیکن حق کے متلاشی کے لیے کتاب کی بوسیدگی سے کیا لینا تھا، ان کو جس مواد کی تلاش تھی بعینہ وہی مواد ان کو مل گیا۔ اس کتاب کو مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی رح ہندوستان میں فعال ایک مشہور عیسائی مبلغ پادری فنڈر کی کتاب "میزان الحق” کے جواب میں لکھا تھا، میزان الحق میں پادری نے انتہائی سطحی زبان استعمال کرتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر بہت سارے جھوٹے الزامات عائد کیا تھا، اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عیسائی یقین کرتے تھے کہ میزان الحق خدائی الہام کی مدد سے لکھی گئی کتاب ہے اور مسلمان اس کے جواب سے عاجز ہیں۔ چنانچہ مولانا کیرانوی رح نے اپنی کتاب اظہار الحق میں میزان الحق میں بیان کیے گئے سارے دلائل، اعتراضات و اشکالات کا جواب دیا مزید برآں عیسائی مذہب کے عقائد، بائبل میں تحریفات و تضادات وغیرہ کو خود بائبل کے حوالے سے اجاگر کیا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت اس کتاب سے مسلم علما کو بہت تقویت ملی تھی۔

 اظہار الحق کو پڑھنے کے بعد احمد دیدات رح نے بائبل کے متعدد نسخوں کا مطالعہ بھی کیا۔ اب کیا تھا، اب وہ اپنے اسٹور میں عیسائی طلبا و مبلغین کا انتظار کرتے، اب ان کے پاس ان طلبا و مبلغین کے لیے ایسے سوالات ہوتے جس کے جوابات ان زیر تربیت عیسائی مبلغین کے پاس کہاں ان کے اساتذہ کے پاس بھی نہی تھے، جلد ہی ان کے سوالات کی گونج اس چرچ کے اندر تک پہنچ گئی اور پھر ایک دن ان کو مناظرے کے لیے چرچ کے اندر بلایا گیا، وہیں سے عالم اسلام کو ایک ایسا عظیم داعی ملا جس نے نصف صدی سے زیادہ پوری عیسائی دنیا کے چیلینجیز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا۔

اس کے بعد شیخ احمد دیدات رح جنوبی افریقہ میں نہ صرف مناظرہ کی ہر دعوت کو قبول کیا بلکہ وہاں ہر بڑے عیسائی مبلغ کو مناظرے کی خود دعوت بھی دیا۔ ان کے عموما مناظرے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں موجود ڈربن سٹی ہال میں ہوا کرتے تھے وہ ہال انکے مناظروں کی وجہ سے اتنا مشہور ہوگیا کہ لوگ اس کو دیدات سیٹی ہال کہنے لگے۔

احمد دیدات رح کے دل میں دعوت دین کا ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس عظیم مقصد کے لیے وقف کردی۔ دعوت دین کے نئے نئے طریقوں کا استعمال کیا۔

 ڈربن کی جامع مسجد کو دیکھنے بڑی تعداد میں سیاح آتے، آپ ان کو مفت میں گائیڈ کی خدمات پش کرتے، باتوں باتوں میں اسلام کا تعارف کراتے، جو سیاح مزید دلچسپی دکھاتے ان کو ڈربن کے بہترین ریستوران میں دعوت دیتے، مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اسلام کے متعلق ان کے سوالات کا جواب دیتے، جن سیاح کو ابھی بھی تشفی نہ ہوتی ان کو اپنے گھر لیجاتے، وہ جب تک رہنا چاہتے ان کے مہمان بن کر رہتے ان کو گھر کا بنا ہوا کھانا بھی کھلاتے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے انھوں نے دعوت سینٹر  (ipci ) بھی بنایا یہاں سے کتابیں چھپتی اور نو مسلموں کی تربیت ہوتی یہ سینٹر آج بھی دعوت کے میدان میں سرگرم ہے۔ اسٹڈی سرکل قائم کیے اور 75 ایکڑ زمین پر مشتمل ایک اسلامی ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کی بنیاد بھی ڈالی۔ آپ نے اپنی کوششوں کو جنوبی افریقہ تک محدود نہی رکھا بلکہ پوری دنیا میں وقت کے مشہور لیڈران کو  اسلام کا پیغام پہنچایا، لیڈروں کو دعوتی خط اور مصحف کے ساتھ  اپنی مشہور کتاب The choice between Islam and Christianity بھیجا، بہت سارے لیڈروں نے انکے اس انمول تحفہ کو پاکر خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ان کے خطوط کا جواب بھی بھیجا، جس میں ہیلری کلنٹن کا خط بہت دلچسپ ہے۔

 دیدات رح نے برطانیہ، آسٹریلیا، سویڈن اور دیگر یورپی ممالک کے دورے کیے اور مشہور زمانہ عیسائی مبلغین سے مناظرے کیے۔ عرب و دیگر ایشیائی ممالک کے متعدد دورے کیے، ہزاروں کی تعداد میں لکچر دیے۔ خلیجی ممالک کے امراء نے دعوتی مشن میں انکا جم کر ساتھ دیا، قرآن مجید کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں انکی کتابوں کی اشاعت کرا کر عیسائی دنیا میں مفت تقسیم کروانے میں ان کی مدد فرمائی۔ انکی 50 سال سے زائد دین کی تبلیغ و اشاعت کے میدان میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شاہ فیصل انعام سے بھی نوازا گیا۔ خلیجی ممالک میں وہ اتنا مشہور تھے کہ ایک مرتبہ نیلسن منڈیلا سعودی عرب کا سفر کیا، سعودی عرب میں جہاں جاتے لوگ پہلا سوال دیدات صاحب کے بارے میں پوچھتے، ان کے ملک کے ایک باشندہ کی اتنی دور تک  شہرت سے وہ بہت متاثر ہوئے اور سعودی عرب ہی سے ان کا نمبر حاصل کرکے ان کو فون کیا، انکا شکریہ ادا کیا اور ان کی کوششوں کو خوب سراہا۔

اس وقت امریکہ میں جیمی سویغارٹ نام کا ایک بہت مشہور و مقبول عیسائی مبلغ و مناظر تھا، اس کے پروگرام سیکڑوں ممالک میں ٹی وی پر نشر ہوتے تھے۔ وہ کسی مسلم عالم کے ساتھ  مناظرہ بھی کرچکا تھا جس میں اس کو خاطر خواہ کامیابی ملی تھی، اس کے سامنے وہاں کے مسلم طلبہ نے شیخ احمد دیدات سے مناظرہ کرنے کی پیشکش رکھی، جیمی سویغارٹ کے پاس احمد دیدات رح کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھی اس نے احساس برتری کے زعم میں بلا تامل طلبا کی پیشکش کو قبول کرلیا۔ نومبر ١٩٨٦ میں لوسیانا یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ” کیا بائبل خدا کا کلام ہے” کے عنوان پر ایک تاریخی مناظرہ ہوا، جو یوٹیوب پر موجود ہے، اس مناظرہ میں جیمی سویغارٹ اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ مناظرہ جیمی سویغارٹ کے لیے کسی غیر متوقع جھٹکے سے کم نہی تھا، اس مناظرہ کے بعد جیمی سویغارٹ کا زوال شروع ہوگیا۔ اس مناظرہ کے شروع میں جیمی سویغارٹ نے اسلام میں چار شادی کی اجازت کے تعلق سے احمد دیدات صاحب کا مزاق اڑاتے ہوۓ فخریہ انداز میں اپنی خوبصورت بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ میرے پاس چونکہ چار نہی صرف ایک شادی کا موقع تھا اس لیے سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کیا۔ اس مناظرہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد جیمی سویغارٹ کے طوائفوں سے تعلقات کے واقعات سامنے آئے، جس سے عیسائی دنیا کو زبردست صدمہ پہنچا، ان کی نگاہ میں جیمی سویغارٹ کی عزت و احترام ختم ہوگیا بہت جلد ہی اسکی شہرت ماند پڑ گئی اور اس کو اپنے مناصب سے ہاتھ بھی دھونا پڑا۔

جیمی سویغارٹ کے علاوہ احمد دیدات رح نے جون گلکرسٹ، انیس سروش، جوش میکڈاول، پاسٹر اسٹانلی وغیرہ سے مناظرے کیے، وقت کے مشہور عیسائی پادریوں کو مناظرے کی دعوت بھی دیا لیکن جب عیسائی دنیا انکی صلاحیت سے واقف ہوگئی تو اپنی اہمیت و عزت بچانے کی خاطر انکی دعوت قبول کرنے سے کترانے لگے۔ پادری جان پال ثانی کو ویٹیکن اسکوائر پر مناظرہ کرنے کی دعوت دی تو اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

مناظرے کے علاوہ شیخ احمد دیدات نے ٢٠ سے زائد کتابیں لکھیں، دنیا کی مشہور زبانوں میں آپ کی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔

دوراندیشی کا عالم یہ تھا کہ اس وقت مناظروں اور تقریروں کی ویڈیو گرافی بھی کروائی جس کی وجہ سے آج انکے مناظرے و تقریریں پوری دنیا میں یو ٹیوب پر سنی جاتی ہیں اور لاکھوں لوگ آج بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ لا تعداد مسلموں و غیر مسلموں کے قلوب و اذہان صاف ہوتے ہیں۔ انکی کوشش سے ہزاروں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ آج بھی ان سے انسپائر ہوکر بڑی تعداد میں لوگ دعوت کے مشن سے جڑتے ہیں۔

ان کے کام نے پوری دنیا بالخصوص عیسائی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے ایمان کو اتنی تقویت بخشی کہ وہ عیسائی مبلغین کی طرف سے درپیش علمی و نفسیاتی چیلینجیز کا سامنا کرنے کے قابل ہوگئے۔ جنوبی افریقہ میں عیسائی مبلغین کے اسلام پر سرعام حملے اور متعصب مشنریوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے شیخ احمد دیدات نے مناظراتی و جارہانہ طرز تبلیغ اپنایا جو کہ وقت و حالات کے لحاظ سے بالکل مناسب تھا۔ اس صدی کے عظیم مبلغین اسلام اور اسلام اور عیسائیت کے درمیان مناظروں اور مکالموں کی تاریخ میں دیدات رح کی خدمات سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔

 احمد دیدات رح کی زندگی سے سب بڑا سبق جو ملتا ہے وہ یہ کہ دعوت دین کا کام کرنے کے لیے کسی مدرسے یا یونیورسٹی کی سند لازمی نہی ہے بس دل میں دعوت کے لیے سچی لگن و تڑپ پیدا ہوجائے تو دعوت کا کام ذاتی مطالعہ سے بھی بحسن وخوبی انجام دیا جاسکتا ہے اور مسلمان خلوص دل سے دعوت دین کا کام کرنے کا حوصلہ کر لے تو وسائل کی کمی کبھی مانع نہی ہوتی ہے۔

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں 

انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

تبصرے بند ہیں۔