نرم دم گفتگو گرم دم جستجو: حضرت مولانا اسرارالحق قاسمیؒ

خالد سیف الدین

کشن گنج کے سپوت، معروف عالم دین و ممبر پارلمنٹ  حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب حسب عادت  ۷؍ دسمبر ۲۰۱۸ء کو بھی الصبح ۳بجے جب نماز تہجد کے لئے نیند سے بیدار ہوئے اُس وقت اُن کو دل کا شدید دورہ پڑا۔ انہوں نے اپنے حفاظتی دستے کے سپاہی کو آواز دی۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تب وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مولانا پسینے میں شرابور ہیں۔ اس نے فورا َمولانا کے جسم سے پسینہ صاف کیا، دواخانہ جانے کے لئے گاڑی لگادی گئی اُسی درمیان مولانا نے سپاہی محمد عاشق انصاری سے کہا کہ میرا دم گھُٹ رہا ہے پھر مخاطب ہوکر کہا کہ عاشق بابو حفاظتی دستے کے تمام سپاہیوں سے کہو کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہوگئی ہوتو ہمیں معاف کردیں۔  شاید مولانا کی زبان سے ادا کئے ہوئے یہ آخری جملے تھے۔ مولانا کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا وہاں ڈاکٹر نے صبح ساڑھے تین بجے مولانا کی موت کی تصدیق کردی۔ اس طرح مولانا اپنے مالک ِ حقیقی سے جا ملے۔

عمر بھر صبر وقناعت کے ساتھ زندگی گزارنے والے مولانا اسرارالحق قاسمی صاحب اپنی سادگی،  منکسرالمزاجی اور ملنساری  کی وجہہ سے ہر طبقہ کے لوگوں میں مقبول تھے۔ موصوف کو علاقہ کا ہر غریب اپنا مسیحا،  سیاستدان اپنا سرپرست اور عوام اپنا ہمدرد مانتی تھی۔  قحط الرجال کے اس دور میں صاحب علم و کمال جیسی شخصیت کے مالک حضرت مولانامشہور عالم دین، بہترین مصنف،  صحافی، دانشور، سیاسی و مذہبی قائد ہونے کے علاوہ بڑی پر کشش شخصیت کے مالک بھی تھے۔ آپ کو تقریر و تحریر میں ملکہ حاصل تھا۔ موصوف ملک میں پھیلے سیکڑوں دینی مدارس کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی درجنوں معروف و سرگرم ملّی، سماجی اور اصلاحی انجمنوں و اداروں سے بھی وابستہ تھے۔ حضرت مولانا کی شخصیت ہر میدان عمل میں ہمیشہ غیر متنازع رہی اور یہی خاصیت اُنکی امتیازی پہچان بھی تھی۔ موصوف نے بڑی سادگی کے ساتھ مثبت اصولوں پر ہی زندگی گزاردی۔ مثبت اصول ہی انسان کی زندگی میں روانی پیدا کرتے ہیں جبکہ انسان کی منفی سوچ اسے سماج سے توڑ دیتی ہے۔ آپ ملت اسلامیہ کے اُن عظیم رہنماؤں میں سے تھے جن کی خدمات و سرگرمیاں خاموش ہوا کرتی تھیں لیکن درحقیقت ان کے نتائج پُر اثر،  پُر شور  اور دیرپا ہوا کرتے ہیں۔

  ریاست بہار کا علاقہ سیمانچل  ایک پسماندہ علاقہ ہے جو ارریا، پورنیہ، کشن گنج اور کٹھیہاران چار اضلاع پر مشتمل ہے جس کی سرحدیں نیپال،  بنگلہ دیش اور مغربی بنگال سے ملتی ہیں۔  یہ علاقہ مسلم اکثریت والا علاقہ بھی کہلاتا ہے۔ اس علاقے کی کل آبادی کے تناسب میں پچاس فیصد سے بھی کچھ زیادہ مسلم یہاں آباد ہیں۔  جن کا ایک بڑا حصّہ نا خواندہ اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ ذات پات کی سیاست کرنے والے سیاسی لُٹیروں نے  بہار اسمبلی انتخابات  ۲۰۱۵ء میں اس مسلم اکثریت والے علاقے میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کرنے اور مسلم مخالف سیاسی پارٹی کو فیض پہچانے کے مقصد سے یہاں اپنی لچھے دار تقریروں کا جال بچھایا تھالیکن ذہانت و نجابت کی آئینہ دار حضرت مولانا کی سیاسی بصیرت،  دور اندیشی اور عوامی مقبولیت نے اُن داربازوں کو

نامراد و ناکام یہاں سے لوٹا دیا۔ آپ ایک زمانہ شناس سیاست داں تھے جو سیاست میں اپنی نپی تلی رائے رکھتے تھے۔  آپ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ دور حاضر ہی ہمارا حال ہے  جوجلد ہی ہمارا مستقبل بن جائیگا۔ دورِحاضر ایک دھارا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا بلکہ اسے ایک اصلاحی یا تعمیری رُخ دیا جاسکتا ہے۔ اسی مثبت رجحان کے پیش نظر موصوف نے آل انڈیا ملّی و تعلیمی فاؤنڈیشن قائم کیا بعد از اس ادارے کے زیر انصرام اپنے پارلمانی حلقہ میں ہی نہیں بلکہ پورے سیمانچل کو میدان عمل بناتے ہوئے ۱۶۳پرائمری اسکول قائم کئے اس کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں ’’تراباری‘‘  جو کشن گنج سے چالیس کلومیٹر کے دوری پر واقع ہے وہاں لڑکیوں کے لئے دینی و عصری علوم پر مشتمل ملّی گرلس ہائی اسکول وجونئیر کالج قائم کیا۔ یہ تمام ادارے بڑی کامیابی کے ساتھ سیمانچل کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی کوششوں میں رواں دواں ہیں۔  حضرت مولانا کی کوششوں سے ہی کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سب سینٹر کا قیام عمل میں آیاجس کے لئے حکومت بہار سے ۲۲۴ ایکڑ زمین حاصل کی گئی۔  اس سب سینٹر کا سنگِ بنیاد  ۳۰ جنوری ۲۰۱۴ء کو سونیا گاندھی کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔ اس وقت یہاں صرف ایک کالج ہی چل رہا ہے۔  گزشتہ پانچ برسوں سے اس تعلیمی دنیا کی ترقی موجودہ ریاستی و مرکزی ان دونوں حکومتوں کی بے توجہی و تعصب کا شکار بنی پڑی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ ۲۰۱۹ ء میں ملک کے عام انتخابات کے بعد ملک ایک نئی طاقت کے ساتھ ترقی کی راہ پر پھر سے گامزن ہوجائیگا اور انشاء اللہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ کیمپس اپنی توسعی و وسعت کے مراحل طئے کریگا۔

  ۵۰۰ سے ۱۱۰۰ قبل مسیح  سیمانچل کا علاقہ ایران سے آئے ہوئے قبائلیوں کے زیر اثر تھا۔ یہ قبائیل Aryans   کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ جنہوں نے یہاں میتھیلا حکومت کی بنیاد رکھی تھی جو ویدک دور بھی کہلاتا ہے۔ ویدک حکمرانوں کو تاریخ جَنک کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی حکمراں تھے جنہوں نے اس ملک میں بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کی بنیادیں رکھیں۔  یہ وہی نفرتیں ہیں جن سے آج بھی ہمارا ملک جوج رہا ہے۔ اس کے برخلاف مولانا اسرارالحق صاحب کی مزید دو امتیازی خوبیاں تھیں،  اخلاق و حسن کردار  ان دونوں خوبیوں میں مساوات کی دھار تھی جو لوہے کی دھار سے زیادہ کاٹ کرتی ہے اور یہ دھار کسی فولادی ہتھیار جیسی نہیں بلکہ اسلامی کردار کی تھی۔  مولانا کبھی کسی انجان ضرورت مند سے اسکا مذہب نہیں پوچھتے تھے اور نہ کبھی خود کرسی پر بیٹھ کر اس شخص کو کھڑا کرتے بلکہ اگر بیٹھنے کے لئے درکار دوسری کرسی نہ ہوتو  مولانا خود کھڑے ہوجاتے اور اس ضرورت مند کے طرف اس طرح متوجہ ہوتے تھے جیسے کوئی پیاسا سخت گرمی کے دن میں میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے گھاٹ کی طرف لپکتا ہے۔ بات پوری توجہ سے سنتے۔ نہایت نرم و پرسوز لہجے میں اس سے بات کرتے ہوئے اس کی ضرورت پوری کردیتے۔  ہمارے معاشرے میں اور خصوصا َسیاست میں سرگرم ایسے بہت کم لوگ ہیں جو دوسروں کو مساوات کا درجہ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔  جبکہ مسلمان کی عظمت مساوات پر قائم ہے۔

  مہانندہ،  کانکی،  میتھی  اور رمضان اس علاقے کی اہم ندیاں ہیں۔ برسات کے موسم میں اکثر ان ندیوں میں طغیانی آجاتی ہے۔ جس کی وجہہ سے کھیتیاں برباد ہوجاتی ہیں، سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں،  کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں اور اس طرح عوامی زندگی مفلوج ہوجاتی ہیں۔  اس سیلاب زدہ حالات میں مولانا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیلاب زدگان کی مدد کو نکل پڑتے تھے۔ ریاستی حکومت سے مسلسل رابطہ بنائے رکھتے ہوئے امدادی کاموں کا جائزہ بھی خود لیتے تھے۔ گذشتہ برس جب یہ علاقہ سیلاب کی زد میں آیا تھااس وقت مولانا نے وزیر اعلی نتیش کمار کو فون کیا اور کہا کہ نتیش بابو سیلاب سے متاثر لوگ بہت پریشان ہیں برائے مہربانی سرکاری امداد جلد از جلد بھجوائیے یہ پریشان حال لوگ آپ کو دعائیں دیں گے۔ دُکھ درد و آسمانی آفات کےوقت عوام کے ساتھ اور عوام کے درمیان رہنا حضرت مولانا کا شیواہ تھا۔

  چائے کے وسعی و عریض باغات اور عمدہ قسم کا انناس یہاں کی اہم زراعی پیداوار ہیں پہلے یہ اشیاء صارفین کو دور دراز کے علاقوں میں جاکر فروحت کرنا پڑتی تھیں۔ حضرت مولانا کی کاوشوں سے یہاں خام مال سے چائے کی پتی بنانے کا کارخانہ لگ چکا ہے  جبکہ انناس اور دوسری زراعی اشیاء فروخت کرنے کے لئے بہترین منڈیاں قائم ہوچکی ہیں۔  اب دور دراز علاقوں سے بیوپاری یہاں آکر اپنی ضروریات کی اشیاء خود حریدتے ہیں۔  حضرت مولانا کے گذشتہ دس سالہ دوراقتدار میں مواصلات اور سڑکوں کی سہولت میں بہتری ہوئی ہے۔ کئی قسم کی فیکٹریاں یہاں کام کررہی ہیں۔  حضرت مولانا کی نماز جنازہ میں سوگواروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سیلاب اس بات کا گواہ ہے کہ بے پایاں روحانی وقّت،  اخلاقی جرأت، خلوص و صداقت،  کسی قسم کی غرض و طمع سے عاری، مخلصانہ و محبانہ رویّہ کے ساتھ اس عالم با عمل کی خدمات، کارناموں اور قربانیوں کو کشن گنج کی عوام ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھے گی۔

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

(غالب)

تبصرے بند ہیں۔