ان اندھیروں کو مٹ ہی جانا ہے‎

 عزیر احمد 

2019  کا الیکشن ہندوستان کے لئے کافی اہم ثابت ہوگا، یہی وہ الیکشن ہوگا جو ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھے گا، مسلمانوں کے داخلی معاملے پہ ساری ہنگامہ آرائیاں اسی الیکشن کی تیاری کا پیش خیمہ ہیں ، وہی الیکشن ثابت کرے گا کہ ملک کا مستقبل کیا ہوگا، یا وہ ہندو راشٹر بنے گا، یا پھر پرانے ڈھرے پہ واپس لوٹے گا، جب تک وہ الیکشن ہو نہیں جائے گا، تب تک اخبارات اور میڈیا میں طلاق، حجاب، بابری اور دادری گردش کرتے رہیں گے، نریندر مودی مسلم عورتوں کے حقوق پہ بولتے رہیں گے، اور گئو رکشک مسلمانوں کو مارتے رہیں گے.

اس الیکشن میں اگر بی.جے.پی جیت جاتی ہے، تو پھر آر.ایس.ایس مکمل طریقے سے باہر آجائے گی، بی.جے.پی ویسے تو اس وقت بھی ملک کی ساٹھ پرسنٹ حصے پہ حکومت کررہی ہے جیسے کہ کل امت شاہ نے کہا کہ یہ بے.جی.پی کا Golden Era ہے، اسٹیٹ لیول پہ ملک کے 15 اسٹیٹ میں بی.جے.پی کی حکومت ہے اور سینٹر میں بی.جے.پی اکثریت کے ساتھ قابض ہے. مگر بی.جے.پی کے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ یہ راجیہ سبھا میں اقلیت میں ہے، جس کی وجہ سے اسے بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر اگلے الیکشن میں بی.جے.پی جیت جاتی ہے تو پھر دو تین سالوں کے اندر ان کی اکثریت راجیہ سبھا میں بھی ہوجائے گی، پھر اس کے بعد آر.ایس.ایس کے لئے من مانی کرنا آسان ہوجائے گا، ویسے بھی کسی کو اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیئے کہ آر.ایس.ایس اور بی.جے.پی الگ الگ ہیں ، آر.ایس.ایس ہی اصل ہے، بی.جے.پی اس کا پولٹیکل ونگ ہے، بی.جے.پی کے اکثر چیف منسٹر آر.ایس.ایس کے پرچارک رہ چکے ہیں ، پھر ہمارے پرائم منسٹر بھی کافی سرگرم رکن رہ چکے ہیں ، لہذا وہ اپنے مقصد کو کبھی نہیں بھولیں گے، "رام راجیہ” خواب ہے، اور اس خواب کو حاصل کرنا آر.ایس.ایس کا ویزن ہے.

 2023 میں آر.ایس.ایس اپنے سو سال مکمل کررہی ہے، وہ اپنی سویں سالگرہ کے موقع پہ اپنے کارکنوں کو رام راجیہ کا تحفہ ضرور دینا چاہے گی، ویسے بھی ہندوستان تقریبا ہندو راشٹر میں تبدیل یوہی چکا ہے، بس اس کا اعلان باقی ہے جیسا کہ راجندر سچر نے کہا، اور اس اعلان میں سب بڑی رکاوٹ Constitution ہے، اور یہ رکاوٹ اس وقت تک دور نہیں ہوسکتی جب تک کہ ملک پورا کمیونل بنیادوں پہ کھڑا نہ ہوجائے، اور راجیہ سبھا میں ان کی اکثریت نہ آجائے، راجیہ سبھا میں ان کی اکثریت آنے کے بعد قانون میں تبدیلی کرنا نہایت ہی آسان ہوجائے گا.

آر.ایس.ایس کو اب کوئی پریشانی نہیں ہے، اس کو مودی کا جانشین بھی مل چکا ہے، اڈوانی نے بی.جے.پی کو پورے ہندوستان میں مقبول بنانے کے لئے رتھ یاترا نکالی، تو ان کی رتھ یاترا سے مودی کا جنم ہوا، جس نے بی.جے.پی کو اپنی کرشماتی شخصیت سے Full Majority میں حکومت دلا کے نئی زندگی بخش دی، پھر اسی مودی نے یوگی کو جنم دیا، جو ایک Religious Institution کا Head ہونے کے باوجود ایک اسٹیٹ کا Head بن بیٹھے، یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے، جب ایک پنڈت سربراہ حکومت متعین کیا گیا ہو، اسی وجہ سے عالمی میڈیا نے اس پہ کافی Concern ظاہر کیا، بہرحال یوگی جی آگے چل کے کیا کریں گے، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ 2019 کا ٹارگٹ ہے، تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندؤوں کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسٹیٹ میں امن و امان کی بالادستی قائم رکھیں ، Minorities کی بھی مشکلات اور پریشانیوں کو حل کریں ، اور ڈویلپمنٹ کی راہ کو اختیار کریں ، سب کا اصل چہرہ 2019 کے بعد ہی کھل کے سامنے آئے گا.

ایسے حالات میں جب کہ ملک تیزی سے رام راجیہ کی طرف بڑھ رہا ہے، مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے، تو مسلمانوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کریں ، تعلیم و ترقی کو اپنا ہتھیار بنائیں ، ضروری نہیں کہ جو چیز جس طرف جارہی ہو، وہ وہیں پہونچے، منزلیں تبدیل بھی ہوسکتیں ہیں ، قافلے راستہ بھٹک بھی سکتے ہیں ، اگلے الیکشن تک مسلمانوں سے متعلق نہ جانے کتنے مسئلے اٹھائے جائیں گے، ان کے خلاف ہر قسم کی ریشہ دوانیاں اختیار کی جائیں گی، ابھی طلاق کا مسئلہ ہے، کل تعدد ازواج کا مسئلہ چھیڑیں گے، پرسوں کچھ اور لیکے آئیں گے، ماحول گرم رکھنے کے لئے اس طرح کا کھیل کھیلتے رہیں گے، لہذا مسلمانوں کو ان پہ بالکل دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے، مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اعمال کی درستگی کریں ، اپنے اخلاق کو سدھاریں ، تعلیم کو اپنا مقصد بنائیں ، اور تجارت میں آگے آئیں ، غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کریں ، اور انہیں اسلامی تعلیم و تربیت سے آگاہ کریں ، یہاں تک کہ خود آر.ایس.ایس سے سبق حاصل کریں ، تنظیمی بنیادوں پہ اپنی قوم کا ڈھانچہ درست کریں ، زیادہ سے زیادہ کالجز اور یونیورسٹیز بنانے کی کوشش کریں ، تعلیم ہی سے ترقی ہے اور تعلیم ہی سے عروج ہے، تعلیم ہی کو مقصد بنائیں ، اور ہر میدان میں آر.ایس.ایس کی طرح اپنے افراد کی کھپت کرنا شروع کریں ، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، سول سرونٹ، راہیں کھلی ہوئیں ہیں ، بس کام کرنے کی ضرورت ہے.

اور رہی بات رام راجیہ کی، تو بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، اب بھی ہندوستان کا اکثریتی طبقہ سیکولر اور لادین ہے، اسے امن و امان اور ترقی سے مطلب ہے، بقیہ اسے کسی مذہب کی Hegemony قبول نہیں ، آر.ایس.ایس کا بھرم خود ہندو ہی توڑیں گے، ہندو مذہب کے دبے کچلے لوگ صدیوں کے برہمن وادی ظلم کو بھولے نہیں ہیں ، وہ پھر مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، آر.ایس.ایس کا سورج پھر غریب ہوگا، کچھ پل کے لئے مذہب کا آگ لگا کر لوگوں کو ہمنوا تو بنایا جاسکتا ہے، مگر کبھی بھی لوگوں کو مذہب سے باندھ کے نہیں رکھا جاسکتا ہے، وہ بھی ایسے مذہب سے جس کی بنیاد Myth اور Stories پہ ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔