یہ ہے مودی کے سپنوں کا پردیش

حفیظ نعمانی

اترپردیش کے وزیر ا علیٰ اور نئے ڈی جی پی مسٹر سلکھان سنگھ کو اس خبر کی تفصیل ہم سے زیادہ معلوم ہوچکی ہوگی کہ حسین گنج کے شاہ راہ پر باڈی سپا پارلر میں چھاپہ پڑا تو وہاں 17لڑکوں اور لڑکیوں کو ناگفتہ بہ حالت میں پا کر گرفتار کیا گیا۔ اس خبر کی اہم بات یہ ہے کہ گھنٹوں کے بعد جب حسین گنج پولیس کو چھاپہ کی خبر ملی تو انسپکٹر صاحب اپنی فوج کو لے کر بھاگے ہوئے آئے۔ اور دیکھا کہ ایس پی مشرقی شیو رام یادو حضرت گنج کے سی او کو ساتھ لیے ہوئے پارلر پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں ۔یہ چھاپہ اس لیے کامیاب ہوا کہ پولیس کے رواج کے مطابق حسین گنج کوتوالی کو اس کی اطلاع نہیں کی گئی تھی۔ اگر اطلاع کی گئی ہوتی تو لڑکیاں بال کاٹتی ہوئی یا سر کی مالش کرتی ہوئی مل جاتیں اور ہر طرف شریفانہ ماحول ہوتا۔ اب یہ تو پارلر کا مالک بتا سکتا ہے یا کوتوالی کا وہ سب انسپکٹر جس کا وہ علاقہ ہو کہ ا س پارلر کے حسین گنج کوتوالی کو کتنے لاکھ روپے ملتے ہیں اور ان میں کس کس کا حصہ ہوتا ہے؟

دو دن پہلے سہارنپور کے ایس پی کے ساتھ اور ان کے مکان کے ساتھ پانچ گھنٹہ تک جو ہوا اس کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی اور ممبر پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی نے جو کیا وہ پارٹی اور حکومت کے ماتھے پر ایک کلنک تھا کہ شیوسینا کا اپنے کو لیڈر کہنے والے گورو اپادھیائے کا یہ کارنامہ سا منے آیا کہ وہ حسین گنج جو کائونسل ہائوس کے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے وہاں نوجوان خوبصورت لڑکیوں کا کچا گوشت لیے بیٹھے ہیں جس سے کھیلنے کی قیمت ایک گھنٹہ کی1500سے4000تک ہے۔ اور جو گورو اپادھیائے اپنے کو شیو سینا کا لیڈر بتاتا ہے اور جس کے ساتھ گنر بھی ہیں وہ کس کے حکم سے ہیں ؟ وہ نہ ایم پی ہے نہ ایم ایل اے ہے نہ کسی کارپوریشن کا چیئر مین ہے پھر اس کے ساتھ گنر کیسے ہیں ؟ وہ شیوسینا جس کا اترپردیش میں کوئی کارپوریٹر بھی نہیں ہے۔ بس ان غنڈوں نے جنھیں بی جے پی ،وی ایچ پی اور بجرنگ دل میں یا سپا بسپا اور کانگریس میں کہیں پناہ نہیں ملی وہ شیو سینا کا بورڈ لگا کر بیٹھ گئے، مقصد صرف یہ تھا کہ وہ زعفرانی رنگ کا پٹکا گلے میں ڈال سکیں اور آوارہ لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ اطمینان ہوجائے کہ شیو سینا کے لیڈر کے ہوتے ہوئے پولیس انہیں نہیں پکڑے گی اس لیے کھل کے اپنے کو بیچو اور خوب کمائو۔

ان دونوں خبروں سے چند دن پہلے انہی کالموں میں ہم لکھ چکے ہیں کہ دو مسلمانوں کو اونٹ لے جاتے ہوئے گئو رکشکوں نے گھیرا اور ا ن سے مار پیٹ کی۔اور کل سے سب ٹی وی دکھا رہے ہیں کہ دہلی کے قریب تین ٹرکوں کو بھینس لے جاتے ہوئے پکڑ لیا اور وہی ہوا جو ہر جگہ ہوتا ہے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آرہا ہے کہ صوبہ کے اندر ایک شہرسے دو سرےیا ایک گائوں سے دوسرے گائوں جانوروں کو لے جانا ممنوع قرار دے دیا گیاہے اور ہم نے اپنی عمر کے چالیس برس  پریس کا کاروبار کیا ہے اور لاکھوں بڑے اور چھوٹے اشتہار چھاپے ہیں جو مویشی بازاروں کے ہوتے تھے، ان میں میلے کے مالک تو دوسرے ہوتے تھے لیکن منتظم کے طور پر چار نام ا ستاد کالے خاں اور ٹھاکر جنگی سنگھ جیسے ہوتے تھے۔ ایک بار ان کے بارے میں معلوم کیا تو مالکوں نے بتایا کہ یہ گروہ بند لوگ ہیں اور صرف ان کے نام کی دہشت ا تنی ہوتی ہے کہ پنجاب تک سے جانور لانے والوں کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے کوئی ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکے گا۔ حالاں کہ یہ صرف اپنے خیمہ میں کھاتے پیتے رہتے ہیں اور اپنے گھوڑوں پر بیٹھ کر صبح و شام میں کسی وقت میلہ کا چکر لگا لیتے ہیں ۔

ہم جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس میں دادا زمین دار تھے اور جب زمینداری ختم ہوئی تو ا نھوں نے گھر کے دروازہ پر آٹھ بیل لا کر باندھ دیے اور بڑے پیمانے پر اپنی کاشت شروع کردی۔ اس عرصہ میں آئے دن نئے بیل خریدے اور پرانے فروخت کیے جاتے تھے۔ اور بھینسیں اور گائیں بھی دوسرے شہروں سے آتی تھیں ۔ 50برس سے اس وقت تک جب تک ٹریکٹر اور کاشت کی دوسری مشینیں نہیں آئیں جانور آتے جاتے رہے۔ کیا اب ہاتھی ،گھوڑے ،اونٹ بیل، گائے، بھینس سب کے لیے یہ حکم ہوگیا ہے کہ جو جہاں ہے وہیں رہے گا؟ یا صرف مسلمانوں پر یہ پابندی ہے کہ وہ نہ جانور خریدیں نہ فروخت کریں ، نہ پالیں ،نہ اس کا دودھ پئیں ۔ غرض کہ جو کچھ بھی ہے اسے کھل کر بیان کرنا چاہیے۔ اور حکومت کے لیے شرم کی بات یہ ہے کہ پولیس بھی ان مسلمانوں کو ہی ملزم بناتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسے حکم ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ہر بھگوا پٹکے والے سے ڈرتی ہے۔ اسے کیا خبر کہ کون کس وزیر کا سالا یا داماد ہے؟

دوسری طرف یہ حال ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا سیکورٹی اور بڑھائی جائے اور ونے کٹیار جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں ان سے آج تک کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔لیکن خبر ہے کہ ان کی سیکورٹی بڑھادی گئی۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کو کس ہندو سے خطرہ ہے۔ مسلمان سے تو ہونہیں سکتا کیوں کہ وہ تو خود صبح سے شام تک اپنی جان بچانے کی ترکیبیں کرتا رہتا ہے۔ اور اسے گائے بیل تو کیا اونٹ ا ور بھینس لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہے .شاید بکری پر اس لیے پابندی نہیں ہے کہ وہ دودھ بھی کم دیتی ہے اور پتلا دیتی ہے۔

اس ایک مہینہ میں صرف ایک گرفتاری نو نرمان سیناکےامت جانی کی ہوئی ہےجس نے میرٹھ کے پرتھاپورتھانہ کےعلاقہ میں پوسٹر لگا کر کشمیریوں کو دھمکی دی کہ وہ اترپردیش چھوڑ دیں ورنہ انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔ کشمیر اور ملک کا باقی حصہ ایک دوسرے کی گلے کی ہڈی بن گئے ہیں ۔سیاسی پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈر دونوں ہاتھ پھیلا کر کشمیریوں کو بلاتے ہیں کہ آئو اور جس کالج یا یونیورسٹی میں چاہوپڑھو اور جب وہ آتے ہیں تو ہندو نوجوان خصوصیت کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سینا والے ان کو دیکھ کر جیسے تبصرے کرتے ہیں وہ ہر کسی کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں ،میرے گھر میں میرے بیٹے کے ایک دوست کا قیام ایک مہینہ رہا۔ وہ کان پور سے امتحان دینے کے لیے آیا تھا۔ کام صرف ایک ہفتہ کا تھا مگر تین بار تاریخ بڑھائی گئی اور وہ پانچ بار لکھنؤ سے کانپور آیا گیا۔ اور کئی مرتبہ شکایت کی کہ یوپی کے لڑکے  آوازے کستے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ صورت میں بھی فرق ہے اور بول چال میں زیادہ ہے۔ اور ہندو لڑکے نہیں چاہتے کہ کشمیر کے لڑکے لڑکیاں یوپی کی کسی یونیورسٹی میں پڑھیں اور جب تک اس پر کنٹرول نہیں ہوگا حالات کا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اوراب یہ دھمکیبھی دےدی گئی۔ آخر کشمیر سے اتر پردیش کے الیکشن اور حکومت کی تبدیلی میں کیا تعلق؟

یوگی جی نے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد نہ جانے کتنی بار کہا تھا کہ وہ اترپردیش کو مودی جی کے سپنوں کا پردیش ان کے وعدوں کا پردیش اور ان کے ارمانوں کا پردیش بنا کر دیں گے۔ ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کے سپنوں کا پردیش یہ ہے کہ جس سکریٹریٹ کی عمارت کو بہوگنا جی نے قانون کا سب سے بڑا مندر کہا تھا اس سے سو قدم کے فاصلہ پر خوبصورت ننگی لڑکیاں 1500روپے سے 4000روپے فی گھنٹہ ملیں گی۔ اور شیو سینا کے گورو دو ہزار روپے سے سات ہزار روپے  وصول کریں گے۔ اور تھانے کے ا فسر اور سپاہی دلّالی کریں گے ،نیز مسلمانوں کو گائے بھینس بیل اور اونٹ بھی ایک شہر سے دوسرے شہر کو لے جانے کی اجازت نہ ہوگی؟ اور پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر ۵ گھنٹہ تک ایک ایس ایس پی کے گھر پرغنڈوں کے ساتھ چڑھائی کریں گے ا ور اپنا حکم چلائیں گے؟ کیا ہی اچھا ہوکہ وزیر اعلیٰ مودی جی سے بھی کہلا دیں کہ اترپردیش جس نے مودی کوگود لیا تھا وہ مودی جی کے سپنوں کا بن گیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔