پاک ہے وہ ذات، جو مسجد ِ کعبہ سے اک شب لے گیا

ندیم احمد انصاری

قرآن ِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا: سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی  بِعَبْدِہٖ  لَیْلاً  مِّنَ  الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا، اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔(الاسراء:1)پاک ہ ہے وہ ذات،جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی،جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ،تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔بے شک وہ ہر بات سننے والی ،ہر چیز جاننے والی ذات ہے۔

 یہ واقعہ تحریکِ اسلامی کے اس مرحلے میں پیش آیا، جب کہ نبی کریمﷺ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے تقریباً 12؍ سال گزر چکے تھے۔ آپﷺ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کرچکے تھے، مگر ان کی مزاحمتوں کے باوجود آپﷺ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا، جس میں دوچار آدمی آپﷺ کی دعوت سے متاثر نہ ہوچکے ہوں ۔ خود مکہ میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا، جو اس دعوتِ حق کی کامیابی کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھے۔ مدینے میں اَوس وخزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپﷺ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت تقریباً آلگا تھا، جب آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ منتقل ہوجانے اور منتشر مسلمانوں کو ایک جگہ سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کردینے کا موقع ملنے والا تھا— ان حالات میں معراج پیش آئی، اور واپسی پر وہ پیغام نبیﷺ نے لوگوں کو سنایا، جو سورۂ نبی اسرائیل میں درج ہے۔ (سیرت سرورِ عالم : 2؍522)

جب حضورﷺ کی ہمت وارادہ اور وعدۂ الٰہی کے پورا ہونے کا یقینِ محکم اپنے پورے معیار پر پہنچ گیا اور آپﷺ اس طرح کے تمام سہاروں کے ختم ہوجانے پر بھی، جن سے آپﷺ کو سخت حالات کا مقابلہ کرنے میں کچھ مدد مل رہی تھی، آپﷺ کے یقینِ محکم اور عملِ پیہم اور صبر ورضا کی برقراری میں فرق نہیں آیا، یعنی  10  نبوی گزر گیا اور ابتلاء وآزمائش کی سب منزلیں طے ہوچکیں ، (بظاہر) ذلت ورسوائی کی کوئی نوع ایسی باقی نہ رہی، جو خداوند ذوالجلال کی راہ میں برداشت نہ کی گئی ہو—اور ظاہر ہے کہ خدائے رب العزت کی راہ میں ذلت اور رسوائی کا انجام سوائے عزت اور رفعت، سوائے معراج اور ترقی کے کیا ہوسکتا ہے؟ چنانچہ جب شعب ابی طالب اور سفرِ طائف سے (ظاہر آنکھوں سے نظر آنے والی ) ذلت، انتہا کو پہنچ گئی، تو خداوند ذوالجلال نے اسراء ومعراج کی عزت سے سرفراز فرمایا اور آپﷺ کو اس قدر اونچا کیا کہ افضل الملائکۃ المقربین یعنی جبرئیل علیہ السلام بھی پیچھے اور نیچے رہ گئے اور ایسے مقام تک سیر کرائی کہ جو کائنات کا منتہیٰ ہے، یعنی عرشِ عظیم تک—- جس کے بعد کوئی مقام نہیں ۔( ماخوذ از سراجاً منیراً : 184 ، سیرۃ المصطفیٰ : 1؍289؍288)

’’معراج‘‘ حضرت محمدﷺ کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہے۔ معراج کے واقعہ کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اور حدیثوں میں معراج کے سفر کی تفصیلات ملتی ہیں ۔ تقریباً تیس صحابۂ کرام سے معراج کا واقعہ منقول ہے، جن میں سات راوی وہ ہیں ، جو خود معراج کے زمانے میں موجود تھے اور باقی حضرات وہ ہیں ، جنہوں نے نبیﷺ کی زبانِ مبارک سے اس واقعہ کو سنا ہے۔’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ دو الگ چیزیں ہیں ،لیکن دونوں ایک ساتھ ایک ہی رات میں پیش آئیں ۔ اسراء اس سفر کو کہتے ہیں ، جو آنحضرتﷺ نے اس شب میں مسجدِ حرام (بیت اللہ) سے مسجدِ اقصیٰ (بیت المقدس) تک کیا، اور مسجدِ اقصیٰ سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسراء نصِ قرآن سے ثابت ہے، اور اس کا انکار کرنا اسلام سے خارج ہونا ہے، اور معراج مشہور ومتواتر روایات سے ثابت ہے، اس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدعتی کہلاتا ہے۔(مظاہر حق جدید: 7؍45،ہندیۃ :1؍84، العقیدۃ الطحاویۃ:15)

 معراج کا واقعہ کس تاریخ میں پیش آیا؟ اس میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں ۔ راجح یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعتِ عقبہ سے پہلے معراج ہوئی، کثرت اسی جانب ہے۔ نیز یہ امر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئیں ، اور یہ بھی مسلم ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شعب ابی طالب میں آپ کے ہمراہ تھیں ۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد ان کا انتقال ہوا، اور آپﷺ اور آپ کے رفقاء شعب ابی طالب سے  10  نبوی میں باہر نکلے۔ لہٰذا ان تمام مقدمات سے نتیجہ یہی نکلا کہ معراج   10   نبوی کے بعد    11   نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد کسی مہینہ میں ہوئی۔ رہا یہ امر کہ کس مہینہ میں ہوئی؟ مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب میں ہوئی۔ علامہ زرقانیؒ کی رائے یہ ہے کہ جب کسی قول کو دوسرے قول پر ترجیح دینے کے لیے کافی دلائل موجود نہیں ہیں ، تو مشہور قول ہی کو اختیار کرلینا بہتر ہے۔ ( سیرۃ المصطفیٰ: 1؍287-288)

 رسولِ کریمﷺ نے اسراء اور معراج کی رات کے احوال وواردات کی تفصیل صحابہؓ سے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اس رات ،میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، اور بعض موقعوں پر آپﷺ نے ’’حِجر‘‘ میں لیٹنے کا ذکر فرمایا— کہ اچانک ایک آنے والا (فرشتہ) میرے پاس آیا، اور اس نے (میرے جسم کے) یہاں سے یہاں تک کے حصہ کو چاک کیا… راوی کہتے ہیں کہ (’’یہاں سے یہاں تک‘‘ سے)آنحضرتﷺ کی مراد گردن کے گڑھے سے زیرِ ناف بالوں تک کا پورا حصہ تھا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اس فرشتہ نے اس طرح میرا سینہ چاک کرکے) میرے دل کو نکالا، اس کے بعد میرے سامنے سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں میرے دل کو دھویا گیا، پھر میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ومحبت یا علم وایمان کی دولت) بھردی گئی، اور پھر دل کو سینہ میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر میرے پیٹ (کے اندر کی تمام چیزیں یا دل کی جگہ) کو آبِ زمزم سے دھویا گیا، اور اس میں ایمان وحکمت بھرا گیا۔ اس کے بعد سواری کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے نیچا اور گدھے سے اونچا تھا، یہ جانور سفید رنگ کا تھا اور اس کا نام بُراق تھا۔ وہ اس قدر تیز رو تھا کہ جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا، اور جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ میں آسمانِ دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر پہنچا۔

جبرئیل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو (دربان) کی طرف سے پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ؑ ہوں ۔ پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا: محمدﷺ ہیں ۔ سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے یا از خود آئے ہیں ؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا: بلایا گیا ہے۔ فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کا خیر مقدم کرتے ہیں ، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت آدم ؑ سامنے کھڑے ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپﷺ کے ابا (یعنی جدِ اعلیٰ) آدم ؑ ہیں ، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے حضرت آدمؑ کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: میں نیک بخت بیٹے اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ مجھ کو لے کر دوسرے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ؑ ہوں ، پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیا آپﷺ کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! دربان نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آپﷺ کا آنا مبارک ہو۔

اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کھڑے ہیں ، جو ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ ہیں ، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے دونوں کو سلام کیا اور دونوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: نیک بخت بھائی اور نبیٔ صالح کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں ۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور تیسرے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ؑہوں ۔ پھر پوچھا گیا: آپؑ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیاان کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں تیسرے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں ، جبرئیل ؑ نے کہا: یہ یوسف ہیں ، ان کو سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ مجھ کو لے کر اوپرچلے اور چوتھے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں ۔

پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چوتھے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ادریس علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ ادریس ؑ ہیں ، انہیں سلام کیجئے، میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جبرئیل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور پانچویں آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں ۔ پھر سوال کیا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں پانچویں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ہارون علیہ السلام سامنے کھڑے ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ ہارون ؑ ہیں ، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔

اس کے بعد جبرئیل ؑ مجھ کو لے کر اوپر چلے اور چھٹے آسمان پر آئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کہ کون ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں ، پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دروازہ کھولا گیا اور جب میں چھٹے آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ موسیٰ  ؑہیں ، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بخت بھائی اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد جب میں آگے بڑھا تو حضرت موسیٰ ؑ رونے لگے، پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں ؟ حضرت موسیٰؑ نے کہا: ایک نوجوان جس کو میرے بعد رسول بناکر دنیا میں بھیجا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے کہیں زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اس چھٹے آسمان سے گذر کرجبرئیل ؑ مجھ کو لے اور اوپر چلے اور ساتویں آسمان پر آئے، انہوں نے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا کون ہے؟

جبرئیل ؑ نے کہا: میں جبرئیل ہوں ، پھر پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمدﷺ ہیں ۔ پھر سوال کیا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: ہاں ! تب ان فرشتوں نے کہا: ہم محمدﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آپ کا آنا مبارک ہو۔ اس کے بعد آسمان کا دراوزہ کھولا گیا اور جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کے ابا (مورثِ اعلیٰ) ابراہیم ؑ ہیں ، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سلام کا جواب دے کر کہا: میں نیک بحت بیٹے اور نبیٔ صالح کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس کے پھل یعنی بیر، مقام ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ، اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں ۔ جبرئیل ؑ نے وہاں پہنچ کر کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہی۔ میں نے وہاں چار نہریں بھی دیکھیں ، دو نہریں تو باطن کی تھیں اور دو نہریں ظاہر کی، میں نے پوچھا: جبرئیل ؑ! یہ دو طرح کی نہریں کیسی ہیں ؟ جبرئیل ؑ نے بتایا: یہ باطن کی دو نہریں جنت کی ہیں ، اور یہ ظاہر کی دو نہریں نیل اورفرات ہیں ۔ پھر مجھ کو بیت المعمور دکھلایا گیا اور اس کے بعد ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا میرے سامنے لایا گیا اور مجھے اختیار دیا گیا کہ ان تینوں میں سے جوپسندہو، اس کا پیالہ لے لوں ، چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا، جبرئیل ؑ نے (یہ دیکھ کر کہ میں نے دودھ کے پیالہ کو اختیار کیا) کہا: دودھ فطرت ہے، اور یقینا آپﷺ کی امت اسی فطرت پر رہے گی۔ اس کے بعد وہ مقام آیا جہاں مجھ پر ایک دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں ۔ پھر جب میں واپس ہوا تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے رخصت ہوکر چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: آپ کو کس عبادت کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے ان کو بتایا: پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔

حضرت موسیٰؑ نے (یہ سن کر) کہا: آپ کی امت نسبۃً کمزور ہے، وہ دن رات میں پچاس نمازیں ادا نہیں کرسکے گی، خدا کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت ترین کوشش کرچکا ہوں ۔ لہٰذا آپ اللہ رب العزت کے پاس واپس جائیے اور اپنی امت کے حق میں تخفیف اور آسانی کی درخواست کیجئے۔ چنانچہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور میرے پروردگار نے دس نمازیں کم کردیں ۔ میں پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا، لیکن انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چنانچہ میں پھر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوا اور (چالیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں ، میں پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا، انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چنانچہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور (تیس میں سے) دس نمازیں کم کردی گئیں ۔ میں پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چنانچہ میں بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوا اور مجھ کو دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ میں پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا، چنانچہ میں پھر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوا اور مزید پانچ نمازوں کی تخفیف کرکے مجھ کو ہر دن ورات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے۔

میں پھر حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر پوچھا ، میں نے ان کو بتایا کہ اب دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ آپ کی امت کے بہت لوگ دن رات میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکیں گے، میں تم سے پہلے لوگوں کو آزماچکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح ودرستی کی سخت کوشش کرکے دیکھ چکا ہوں ، آپ بارگاہِ الٰہی میں مزید تخفیف کی درخواست کیجیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں بار بار اپنے پروردگار سے تخفیف کی درخواست کرچکا ہوں ، اب مجھے شرم آتی ہے۔ میں اپنے پروردگار کے اس حکم کو قبول کرتا ہوں ۔ حضرت نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ سے اس گفتگو کے بعد جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو غیب سے ندا آئی: میں نے اپنے فرض کو جاری کرکے پھر اپنے بندوں کے حق میں تخفیف کردی، یعنی اب میرے بندوں کو نمازیں تو پانچ ہی پڑھنی پڑیں گی، لیکن ان کو ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔(مشکاۃ المصابیح: ۵۸۶۲، اخرجہ البخاری فی بدء الخلق، ومسلم فی الإیمان)

 یہ ہے مختصر ترین معراج کا واقعہ۔ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر انسان محنت ومشقت اور ظاہری ذلت برداشت کرتا ہے اور یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے ، تب اللہ تعالیٰ کی طرف اس انسان کو عروج حاصل ہوتا ہے اور اسے بلند سے بلند تر مقام تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔