ان کے جلوے نگاہوں میں دھلتے رہے

شاذیہ ناز

(پٹنہ)

ان کے جلوے نگاہوں میں دھلتے رہے
حوصلے دل ہی دل میں مچلتے رہے

دوستوں نے تو کانٹے بچھائے بہت
مسکراتے ہوئے ہم بھی چلتے رہے

کوئی پھولوں سے دامن کو بھر لے گیا
ہم کھڑے باغ میں ہاتھ ملتے رہے

اس کی بھرپور الھڑ جوانی پہ ہم
مسکراتے سسکتے مچلتے رہے

راستے منزلیں دور ہوتی گئیں
میری فطرت میں چلنا تھا چلتے رہے

اشک بہتے رہے دل دھڑکتا رہا
رات بھر کروٹیں ہم بدلتے رہے

عمر یوں ہی گزرتی رہی شاذیہ
چوٹ کھاتے رہے اور سنبھلتے رہے

تبصرے بند ہیں۔