ان کے جلوے نگاہوں میں دھلتے رہے
شاذیہ ناز
(پٹنہ)
ان کے جلوے نگاہوں میں دھلتے رہے
حوصلے دل ہی دل میں مچلتے رہے
…
دوستوں نے تو کانٹے بچھائے بہت
مسکراتے ہوئے ہم بھی چلتے رہے
…
کوئی پھولوں سے دامن کو بھر لے گیا
ہم کھڑے باغ میں ہاتھ ملتے رہے
…
اس کی بھرپور الھڑ جوانی پہ ہم
مسکراتے سسکتے مچلتے رہے
…
راستے منزلیں دور ہوتی گئیں
میری فطرت میں چلنا تھا چلتے رہے
…
اشک بہتے رہے دل دھڑکتا رہا
رات بھر کروٹیں ہم بدلتے رہے
…
عمر یوں ہی گزرتی رہی شاذیہ
چوٹ کھاتے رہے اور سنبھلتے رہے
تبصرے بند ہیں۔