اور ابھی تک ہمیں شرح صدر نہیں ہوسکا ہے!

اشرف علی بستوی

پندرہ اگست 2001 سے جاری ہندوستان کا پہلا اردو نیوز چینل ‘ای ٹی وی اردو ‘ 16 مارچ 2018 کو اپنی نئی پہچان ‘نیوز 18 اردو’ میں مکمل طور پر تبدیل ہو گیا، یہ تبدیلی اردو ناظرین کے لیے کیا سوغات لائے گی یہ تو آنے والا کل ہی بتائے۔ لیکن یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ تبدیلی کا یہ عمل لگ بھگ دو سال قبل شروع ہوچکا تھا، 17 سالہ سفر میں ای ٹی وی اردو ہندوستانی و عالمی اردو حلقے کو جوڑنے میں کس حد تک کامیاب رہا یہ تحقیق طلب امر ہے۔ نیوز 18 نیٹ ورک کے مالک مکیش امبانی اور ان کی ٹیم کو اس نوعیت کا ایک سروے ضرور کرنا چاہیے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ نیوز 18 نیٹ ورک کے اس گروپ میں 15 زبانوں کے 16 نیوز چینل ہیں یہ نیٹ ورک ملک کی 26 ریاستوں میں پھیلا ہوا ہےاور 1200 نمائندوں کے ساتھ، 67 کروڑ سے زائد ناظرین ان کے قبضے میں ہیں۔ ان کے اس دعوے کو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ خیال رہے یہاں اس رپورٹ میں کسی کمپنی کے ذریعہ دیے گئے اعداد وشمار کو بیان کرنا یا بتانا کسی کی تشہیر نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو سمجھنا اور سمجھانا ہے، اور اپنی کا وشوں کا جائزہ لینا ہے، کہ ہندوستان کہاں کھڑا پے اوراس میں ہندوستانی مسلمانوں کا فیصد کیا ہے، ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

ہو سکتا ہے آپ کو یہ تجزیہ ناگوار گزرے آپ اسے ہضم نہ کر پائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس دور میں بھی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو جس کسی نے سمجھا اس نے انسانی ذہنوں کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ ایک چھوٹی سی مثال جو سب نے دیکھا ہوگا، یاد کیجیے میڈیا کی یہی اہمیت 1991 میں ہی سہارا گروپ کے سمجھ میں آگئی تھی اس نے، سب سے پہلے لکھنو سے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا شروع کیا، اس سے قبل وہ صرف ایک چٹ فنڈ کمپنی کے طور پر کام کر رہی تھی یہ وہ زمانہ تھا جب اتر پردیش میں بڑے پیمانے پر ایسی کمپنیاں اچانک وجود میں آگئیں اور پھر بہت جلد سبھوں نے راتوں رات فرار ہونا شروع کیا، اس درمیان سہارا کو شدید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اس کے تعلق سے بھی اس طرح کی افواہیں دوسرے اخبارات میں گردش کرنے لگیں جسکا سہارا نے اپنے اخبار کے ذریعے ورکنگ حالات میں اپنے دفاتر کی تصاویر مع ٹیم مسلسل پبلش کیا اور ایک بڑے ٹراما سے نکلنے میں کمپنی کامیاب رہی۔

یہی بات فرانس اور برطانیہ کو 200 سال قبل سمجھ میں آگئی تھی جب انہوں نے دنیا کے دیگر خطوں میں اپنا اثر بڑھانا شروع کیا تھا، جس کے بدولت دنیا پر طویل عرصے تک راج کیا۔ دنیا کی قدیم ترین نیوز ایجنسی اے ایف پی کا قیام 1835 میں ہی ہوگیا تھا، جسے ایجینس فرانس پریس کے نام سے آپ جانتے ہیں۔ یہ نیوز ایجینسی اس وقت دنیا کے 10000 اخبارات اور دنیا کی 70 بڑی نیوز ایجینسیوں کو خبری مواد فراہم کرتی ہے۔ دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں کام کر رہی ہے اس کے 110 غیر ملکی بیورو ز تعینات ہیں۔ دوسری بڑی نیوز ایجینسی رائٹر ہے اس کا ہیڈ کوارٹر لندن ہے اس کا قیام آج سے 168 سال قبل 1850 میں ہوا، اس کا نام ایجینسی کے بانی پال جولیس رائٹر کے نام پر رکھا گیا۔ اس ایجینسی میں 2500 سے زائد جرنلسٹ دنیا کے 200 سے زائد مقامات سے روزانہ رپورٹ کرتے ہیں۔ اس قافلے میں 600 فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہیں جو ہر واقعے اور حادثے کی تازہ ترین تصویریں ارسال کرتے ہیں۔

تیسری بڑی نیوز ایجینسی اے پی ہے جسے آپ ایسو سی ایٹیڈ پریس کے نام سے جانتے ہیں اس کا قیام 1844 میں ہوا تھا جو 1860 میں کافی سرگرم ہوئی۔ اس نیوز ایجینسی کے فی الوقت، 5000 نامہ نگار 100 ممالک میں کام کررہے ہیں، 1300 سے زائد اخبارات اس کے خریدار ہیں اس کے علاوہ 3400 براڈ کاسٹر، ٹی وی/ ریڈیو چینل اس کے سبسکرائبر ہیں۔

اور بھی سیکڑوں اہم نیوز ایجینسیاں دنیا کی میڈیا انڈسٹری کو خبروں کا مواد فراہم کرنے میں دن رات کام کر ہی ہیں۔ ہندوستان کی بات کریں تو یہاں سے اٹھنے والی ایسی کوئی نیوز ایجنسی عالمی سطح پر ابھی دنیا کی میڈیا انڈسٹری کی ضرورت نہیں بن سکی ہے آج بھی ہندوستان کا ٹی وی میڈیا مکمل طور پر عالمی ایجنسیوں پر ہی منحصر ہے۔ لیکن یہاں کا ایک بڑا طبقہ اس جانب تیزی سے گامزن ہے۔ یو این آئی، پی ٹی آئی دواہم نیوز ایجنسیاں بہت پہلے سے کام کر ہی ہیں، 2014 میں مرکز میں نئی حکومت آنے کے بعد سے ایک اور ایجینسی نے سرگرم رول شروع کر دیاہے۔ یہ ایک خاص گروپ کے لوگ چلا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ہندوستان کو ہندو استھان کہہ کر پکارنے پر مصر ہیں اس کا نام اور اس کی تاریخ کو بدل دینا چاہتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنی ایجینسی کا نام ہندو ستھان رکھا ہے. اس کے سبسکرائبر دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کی تیرہ زبانوں میں نیوز تیار کرتی ہے اس کا اردو سیکشن بھی ہے۔

مندرجہ بالا تصویر بات اسلامک فقہ اکیڈمی کے اس فیصلے کی جو سن 2000 میں اتر پردیش کے ضلع بستی میں ہوا تھا. ہم ابھی اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ویڈیو ریکارڈنگ  اور لائیو نشریہ کو کس درجے میں رکھیں، کسی نتیجے پر نہ پہونچ سکے اس فیصلے کو اب 18 برس ہو چکے ہی اس لیے بھی اس پر غور کیا جانا چاہیے کیونکہ گزشتہ دو دہائی میں صورت حال کافی بدلی ہے میڈیا کا دائرہ بڑھا ہے.اورہم ابھی ذرائع ابلاغ کے استعمال کے معاملے میں اس بات پر ہی الجھے ہوئے ہیں کہ اپنی بات پہونچانے کا یہ ذریعہ اپنا یا جائے یا ابھی اور انتظار کیا جائے۔ کسی نیوز ایجینسی کے قیام کی عملی کوشش تو بہت دور کی بات ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کۓ خلاف انہی ذرائع کا استعمال کر رہی ہیں اور ہم اسی کنفویزن کو حل نہ کر سکے کہ ویڈیو ریکارڈنگ یا لائیو نشریہ کرنا کیسا ہے۔ ویسے بھی ہم بہت دیر کر چکے ہیں اور اب مزید دیر بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوگی، ہمارے علما کو نہ صرف ان مسائل کو بہت جلد دور کرلینا چاہیے بلکہ ماس میڈیا کی ترویج کے لیے سماجی ذمہ داری سمجھ کر لوگوں کو بیدار کرنے میں اپنا رول نبھانا چاہیے۔ عام مسلم معاشرے میں ماس میڈیا کے کام کی ابھی تک جو شبیہ بنی ہوئی ہے وہ ایک معیوب پیشے کے طور پر ہی ہے اسے کھلے دل سے تسلیم کرنے میں ایک بڑا مذہبی حلقہ اب بھی آگے نہیں آرہا ہے، بھلا بتائیں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کی عالمی سازش کا جواب کیسے دیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔