مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

شیخ فاطمہ بشیر

ملک کے ہر شہر سے   اُٹھتی آواز، سخت چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پر بینر لیے، شریعت کی حفاظت کی خاطر، اپنے وقت کا نذرانہ پیش کرتی ہوئیں، گھروں سے نکلی اُن لاکھوں بناتِ حوّا اور صنفِ نازک کو سلام۔۔۔ جو شریعت میں کھلواڑ کے ذریعے مستقبل میں آنے والے خطرات کو بھانپ کر، طلاقِ ثلاثہ بل کے خلاف ایک آواز بن کر اٹھی ہیں۔ جو شریعت اور عائلی قوانین میں عمل دخل کو گوارا نہ کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جھنڈے تلے حکومت کو للکار رہی ہیں کہ طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ اُٹھاکر حکومت مسلم خواتین کی ہمدردیاں ہرگز نہیں سمیٹ سکتی اور شریعت میں مداخلت ہمیں ہرگز قبول نہیں۔

اس بل کے بہانے حکومت کا نشانہ یکساں سول کوڈ، شریعت میں تبدیلی ، مسلم خاندانوں کی تباہی، عزتوں کی پامالی، نوجوانوں کی بربادی، خاندانی نظام کو توڑنے اور نفرتوں کا بیج بونے کی تیاری ہے۔ تاکہ مرد جیل کی کال کوٹھری میں ۳سال اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹے اور عورتیں انصاف کے لئے کورٹ کچہری کے چکر لگاتے، دردر کی ٹھوکریں کھاتے، اپنی اور والدین و بچوں کی زندگیاں خراب کردے۔ تاکہ مسلم معاشرے میں نکاح کم اور زنا کا تناسب بڑھتا چلا جائے۔

 اسلام کے عائلی قوانین کا تفصیلی مطالعہ کرے تو اندازہ ہوگا کہ اسلام وہ سرچشمہ ہے جو عبادت، معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت غرض ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ "نکاح” نصف دین ہے، جسکی اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ نکاح کے پہلے کے معاملات ہو یا بعد از نکاح جنم لینے والی تلخیاں و نااتفاقیاں۔ جسکے لیے شریعتِ اسلامی ہمیں طلاق, خلع، فسخ نکاح جائز حقوق عطا کرتی ہیں۔ اگر میاں بیوی ازدواجی زندگی میں ناخوش ہو یا باوجود مکمل کوشش کے رشتہ نباہنا مشکل ہو تو طلاق یا خلع کے ذریعے باہمی رضامندی سے باعزت طور پر آرام سے علیحدہ ہوجائے۔

شریعت نے مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی ذمےداری اُن کے باپ اور بھائی پر ڈالی اور اُنھیں دردبدر بےعزت بھٹکتے نہ چھوڑا بلکہ اُنھیں دوسرے نکاح کی بھی اجازت دی گئی۔ لیکن حکومت اس بل کے نام پر شریعت کے عطاکردہ حقوق ہم سے چھیننا چاہتی ہیں۔ بمشکل ۲ہزار نام نہاد عورتوں کے کہنے پر طلاقِ ثلاثہ بل بنواکر اُسے لوک سبھا سے پاس کروالیا گیا۔ حقیقتاً یہ بل دین و شریعت کو بدلنے کے لیے مکمل طےکردہ سازش کے تحت ہم پر لادا جارہا ہے جو ہمارے حقوق کی پامالی کے لئے تیار کیا گیا۔ غیور اسلامی بہنوں! ہم اس ملک میں پورے حق کے ساتھ رہیں گے اور مرتے دم تک شریعتِ اسلامیہ کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند.

 آئیے مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے ایک آواز ہوجائے اور ملک کے ہر شہر سے بلند ہوتی آوازوں میں شہرِ ممبرا کی صدائیں بھی شامل ہوجائیں۔ طلاقِ ثلاثہ بل کے خلاف خواتین کی خاموش احتجاجی ریلی،  کل بروز پیر، 26مارچ 2018، دوپہر 2 بجے، دارالفلاح سے ممبرا پولیس اسٹیشن تک۔ مقرّرِ خصوصی حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجّاد نعمانی صاحب۔ پوری اسلامی شناخت اور ملّی تہذیب کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی بیداری کا ثبوت دے کہ اپنے حقوق کو لےکر ہم کس قدر حساس ہے؟ اور پارلیمنٹ کے ایوان ان صداؤں سے گونجنے لگیں، ‘طلاقِ ثلاثہ بل واپس لو اور شریعت میں مداخلت بند کرو۔’

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہرمسلمان کے لیے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

    :َیا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِين٠
    ٌ(سورۃ البقرۃ:208)

    ’’اے اہل ایمان اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘
    کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو او رمعاملات او ر معاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے او ر اپنے آپ کوشرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔

تبصرے بند ہیں۔