اور مجاہد تیار ہو گیا !

غضنفر ایوبی

"ابھی ابھی تو مسجد سے نکلے ہو اور ہاتھ میں موبائیل بھی لے لیا۔”
کاشف نے طنزیہ انداز میں پرویز سے کہا۔مگر پرویز نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں ۔
اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
یہ رمضان کا مہینہ تھا،
اور……….
ابھی فجر کی نماز ہوئی تھی،پرندے اللہ کی حمدوثناء کے لیے جمع ہوگئے تھے،آسمان میں کچھ زیادہ اجالا نہ تھا،ہواؤں کے ٹھنڈے جھوکے طبیعت میں نغمگی پیدا کر رہے تھے۔
کاشف نے کہا۔
"اب تمھے یہاں سے پلٹنا ہے،یاد ہے یا نہیں ؟؟”
دونوں سلطان چوک کے چوراہے پر کھڑے تھے،جہاں سے دائیں جانب آگے جاکر پانچواں گھر پرویز کا اور بائیں طرف دوسرا گھر کاشف کا تھا۔
پرویز نے کاشف کو تنگ کرنے کیلئے ایک عجیب سی مسکراہٹ​ کے ساتھ کہا۔
” اگر یاد نہیں بھی ہوتا تو میں اسے Google map پر ضرور ڈھونڈ لیتا۔”
اور دونوں مصحافہ کر کے رخصت ہوگئے۔
کاشف نے مڑ کر دیکھا پرویز اب بھی موبائیل میں ہی مگن تھا۔
وہ آسمان کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں کچھ بولا تھا۔اس کے اوپر دیکھنے کی وجہ سے اس کا پیر کسی پتھر سے ٹکرایا اور اس  کی چیخ نکل گئی۔
___________________________________________________

پرویز نے جیسے ہی دروازے کھولا اندر سے ایک آواز آئی۔
"نیوز پیپر لائے ہو بیٹا؟؟؟”
یہ پرویز کی ماں کی آواز تھی۔جن کا نام زینب تھا۔
وہ چار یتیم بچوں کی ایک بیوہ ماں تھی۔
پرویز نے کہا۔
"اوفو،۔۔۔”
"ماں میں بھول گیا۔”
"کوئی بات نہیں بیٹا۔” اندر سے آواز آئی۔
فضا میں ایک خاموشی چھا گئی۔
جب پرویز کچھ دیر بعد فارغ ہو کر اندر آیا۔تب تک زینب دعاؤں ہی میں مشغول مصلے پر بیٹھی تھی۔
پرویز نے قریب ہی رکھےبیڈ پر دھڑام سے اپنے جسم کو گرا لیا۔ زینب ضبط نہ کر سکی اور دعاء ختم کرتے ہی بڑی سخت آواز میں پرویز کو ڈانٹا۔
"تمہیں پتہ ہے نہ کی بغل والے کمرے میں سب سو رہے ھے،پھر بھی ایسی حرکت کرتے ہو!!!!!!!!”
پرویز نے معافی مانگی مگر زینب غصّے میں تھی۔
"ایک تو اس موبائیل کے چکر میں تم پاگل ہو گئے ہو اور چار دن ہوگئے ہے تمہیں جب سے تم اخبار لانا بھول رہے ہو۔کیا تمہیں پتہ نہیں  حالات کتنے نازک ہے اور کب کیا ہو جاتا ہے؟؟؟
کبھی معصوم مارے جاتے ہے تو۔۔
کبھی کسے جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔۔
کہی کسی بہن کی عزت لوٹی جا رہی ہے تو۔۔
کہی پر بم برسا کر نا حق قتل عام کیا جا رہا ہے۔۔
اور ہمیں کسی چیز کی خبر ہی نہیں ہو رہی ہیں ۔
مگر تم تو بس اپنے کاموں میں مگن ہو۔”
"ان چار دن میں معلوم نہیں کیا غضب ہوگیا ہو؟؟؟”
زینب سوچ میں پڑھ گئی اور پرویز مسلسل شرمندگی اور معذرت کی نظر سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
وہ تنک کر کمرے سے نکل گئی۔مگر اس کے احساس کو جگا گئی۔
کافی دیر سے مسلسل کروٹ بدلنے کے بعد بھی اسے نیند نہیں آرہی تھی اس کے ذہن میں وہ باتیں جو ماں نے کہی تھی گونج رہی تھی۔زینب نے پرویز کی تربیت میں کوئی کسر باقی نا رکھی تھی ۔اس نے اسے ہر قسم کے علم سے روشناس کیا تھا جو قرآن دیتا ہے۔
اسی لیے وقتاً فوقتاً وہ اپنے دوستوں سے یہ شعر کہتا رہتا کی،

مغربی مکتبوں کی نئی  روشنی  تیری تاریکیوں کا  ازالہ  نہیں
تاکہ دل میں اجالا اگر چاہیے،تو قرآنی چراغوں سے ہی پیار کر

حتیٰ کہ پرویز حالات سے بھی باخبر رہتا اور اپنے ساتھیوں کو اس بارے میں خبردار کرتا رہتا تھا۔وہ اپنی ماں کا سب سے چہیتا بیٹا جوتھا۔یہ سب اسی پیار کا نتیجہ تھا۔
___________________________________________________

وہ بھاگتا ہوا آیا اور ماں سے کہنے لگا کی ۔۔۔۔
"ماں … ماں غضب ہوگیا ، اب قطر کی باری ہے۔”
زینب نے سوالیہ انداز سے پرویز کی طرف دیکھا اور کہا۔۔۔۔
"کہنا کیا چاہتے ہو؟؟؟”
"ہاں ماں ۔۔۔ہاں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔عراق،افغان،لیبیا،مصر اور شام کے بعد اب قطر کی باری ہے۔ آلِ سعود نے طرح طرح کے فضول الزامات لگا کر قطر کا گھیرا تنگ کر دیا ہے۔
وہ چاہ رہے ہیں کی قطر اسلام پسندوں کی مالی امداد بند کردے،جو رہنما وہاں پناہ گزیں ہے انہیں ملک بدر کردے اور ہماری طرح طاغوت کے تلوے چاٹ لے۔”
پرویز نے ایک سانس میں اپنی پوری بات مکمل کہ دی۔
زینب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی۔پرویز تو پہلے ہی اپنی نم آنکھوں کے ساتھ آیا تھا۔
دونوں کی گہری سانسیں کمرے کی خاموشی​ میں زہر کی پھنکار معلوم ہوتی تھی۔
"ماں آپ نے سہی کہا تھا ان چار دنوں میں تو غضب ہو گیا۔”
پرویز نے خاموشی کو توڑتے ہوئے دھیمی آواز سے کہا۔

"ہاں مجھے اندازہ تھا یہی ہونے والا ہے۔”

مردانہ آواز سن کر پرویز چونک گیا اور اپنی جھکی ہوئی گردن کو اٹھا کر اوپر دیکھا۔
منظر بلکل بدل چکا تھا،پرویز اب کسی پُرنور وادی میں اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھاتھا اور سامنے ایک پُرنوروباریش چہرہ تھا۔جو پلک جھپکائے بغیر پرویز کو دیکھ رہا تھا۔
"آپ کون ہے؟؟؟!!!!!!!۔۔۔میری ماں کہا ہے؟؟؟!!!!!!؟”
پرویز نے حیرت سے پوچھا اور اپنی آنکھیں تان لی ۔کیونکہ یہ ہر کسی کے لیے ایک چونکانے والا منظر تھا۔
پرویز کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے وہ پر نور شخص نے کہا۔
"غضب ابھی ہوا نہیں ہے ہونے والا ہے،ابھی تو تمہارے کانوں نے سنا ہے،اب تمھاری آنکھیں وہ منظر دیکھے گی جو تمھیں خون کے آنسو رلائے گا۔”
"کیا مطلب؟؟!!!!!!!!” پرویز نے کہا۔
"ابھی وہ سب پیشنگوئیاں ​ پوری ہونے والی ہیں جو آخری زمانے کے بارے میں ہیں ۔ابھی تو ان عربوں نے اونچی اونچی عمارتیں بنا لی ہے،بلادِ شام میں افراتفری مچ چکی ہے۔چھوٹی چھوٹی نشانیاں نمودار ہو چکی ہے،اب بڑی نشانیاں پوری ہو نے میں دیر نہیں ہیں ۔ابھی قطر پر پابندی لگی ہے نا،آئندہ ترکی و پاکستان کی باری ہے۔۔۔
تم دیکھ رہے ہو کی نام نہاد مسلم ممالک میں اسلامی تعلیمات کی پامالی ہو رہی ہیں ۔ بُڑھی ماؤوں کو سڑک پر کھینچا جا رہا ہے،بہنوں کے گریبانوں کو چاک کیا جا رہا ہے،ان کی عصمت کو تارتار کیا جا رہا ہے،ان کی عزت کی بولی لگائی جا رہی ہے،بیٹوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جا رہا ہے،مردوں سے جیلوں کو بھر دیا جا رہا ہے،زندہ انسانوں کو جلا دیا جا رہا ہے۔
ابھی عرب کے صحرا خون سے لالہ زار ہو رہے ہےنا،شہر جل رہے ہےنا،گاؤں اجڑ رہے ہےنا،لوگ ہجرت کر  رہے ہےنا،بچوں کی لاشیں پانی پر مل رہی ہے نا،دل دہلا دینے والی چیخوں کی آوازیں آرہی ہےنا،۔۔۔۔”

وہ پُرنور شخص بغیر رکے اپنی بات کہتا چلا جا رہا تھا۔

"مگر یاد رکھنا وہ دن دور نہیں جب آپ کی اپنی(عجم کی) زرخیز مٹی بھی خون کےدریا کا منظر پیش کر رہی ہوگی،شہر کی تار کول سے بنی سڑکیں خون کے گلیاروں کا منظر پیش کر رہی ہوگی، گاؤں بموں کی بارشوں سے ختم کیے جا رہے ہوگے،لوگ مجبوراً ہجرت کر رہے ہوگے،بہنوں کو گھر سے گھسیٹ کر نکالا جا رہا ہوگا اور سرِعام اس کی حیاء کو شرم شار کیا جا رہا ہوگا،مائیں تڑپ رہی ہوگی، نومولود کو پیٹ سے نکال کر کہا جا رہا ہوگا کی تو مسلم بنے گا اور اس کے نا مکمل جسم کو ہمیشہ ہمیشگی کے لیے ختم کردیا جا رہا ھوگا۔قومیں تم پر اپنی جارح تہزیبی یلغار کے ساتھ حملہ ور ہوگی۔”
"ہاں یہ سب ہوگا ، یہ سب ہوگا…….!!!!!!”
اور اس شخص کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے۔

"تم جانتے ہو آج یومِ بدر ہے۔آج یہ امت اپنی1400 سالہ تاریخ کا وہ درخشاں باب یاد تو کریگی ،ہاں ۔۔۔ مگر اسے دہرانے کے لیے ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کریگی۔”
"اگر یہ امت آج بھی سر بلندی ،غلبہ اور عروج چاہتی ہے تو امت کو اس باب کو دہرانا ہوگا،قرآن کی دعوت کو عام کرنا ہوگا،سنتّوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا،اسے اٹھنا ہوگا،اپنی کمر کسنی ہوگی،ہمت پیدا کرنی ہوگی، ظلم کو ظلم کہنا ہوگا،مظلوم کی بھرپور دامے،درمے، سخمے مدد کرنی ہوگی۔اسے یہ سب کرنا ہوگا،اسے یہ سب کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔”
کہتے کہتے ان کی ہچکیاں بندھ گئی،اور وہ توازن نا قائم رکھتے ہوئے گرنے لگے۔پرویز نے انہیں دونوں ہاتھوں سے سہارا دیا۔

جیسے ہی پرویز نے انہیں سہارا دیا منظر ایک بار پھر یکایک تبدیل ہو چکا تھا۔
اب تو پرویز کی حیرت کی انتہا نہیں تھی۔کیونکہ اب کی بار پرویز کو کسی نے سہارا دے رکھا تھا۔
اور وہ اپنی وہی بات جو کچھ دیر پہلے اس نے پُرنور شخص سے  سنی تھی بول کر اس نوجوان کے سہارے سے کھڑا تھا۔

"میں آپ سے وعدہ کرتا ہو کی جو رہنمائی آپ نے کی ہے اسے اپنے اندر پیدا کرو گا اور لوگوں تک کماحقہ ہو اسے پہنچا دوں گا۔”
اس لڑکے نے عزم و حوصلہ سے پور اپنی بات مکمل کی۔
جس نے پرویز کے دل کو ایک اطمینان دیا۔
پرویز کو یاد آیا ایسا ہی کچھ اس نے ان پرنور شخص سے کہا تھا۔
اور پھر۔۔۔۔
فضا میں ایک غیبی نغمہ گونجا۔
"میرا مجاھد تیار ہوگیا۔”
___________________________________________________

زینب نے زور دار آواز لگائی اور کہا۔
"پرویز….اٹھ جاؤ۔”
وہ اپنی آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ بیٹھا۔وہ اپنے سر میں ہلکا سا درد محسوس کر رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ کوئی سپنا دیکھ رہا تھا ۔۔۔
مگر کیا؟؟؟؟!!!!!!!!!!!
"پرویز اٹھ جاؤ ۔پورے دس بج چکے ہے اور تمہیں پتہ ہے نا آج یومِ بدر ہے۔
یعنی یوم الفرقان,آج حق اور باطل کے درمیان حق کی فتح کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہوا تھا۔”
زینب نے جیسے ہی یہ جملہ کہا ۔پرویز کو پورا واقعہ یاد آگیا جو اس نے خواب میں  دیکھا تھا۔
وہ فوراً اٹھا اور اخبار لینے دوڑا ….
اخبار والا کاشف کے گھر کے سامنے ہی بیٹھتا تھا۔
کاشف نے گھر کی کھڑکی سے دیکھا اور بہت خوش ہوا کی اس کی دعاء قبول ہوگئی۔پھر اس نے اپنے زخمی پیر کی طرف دیکھا ۔
اور اسے وہ دعاء یاد آگئی جو اس نے آج صبح پرویز کیلیے آسمان کی طرف دیکھ کر مانگی تھی۔

خدا  تجھے  کسی طوفان  سے  آشنا  کر  دے
کہ تیرے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں
___________________________________________________

کاشف نے پیچھے سے آکر پرویز کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔
پرویز کالج کی سیڑھیوں پر اپنے موبائیل میں مشغول تھا۔کاشف کے آنے کی وجہ سے اس نے اپنی fast typing روک دی۔
تب تک وہ مندرجہ بالا پیراگراف مکمل کر چکا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔