اور کلدیپ نیر آپ بھی

حفیظ نعمانی

اصل مسئلہ تین طلاق نہیں یکساں سول کوڈ ہے۔ جماعت اسلامی کے انگریزی ترجمان نے اپنے پہلے صفحہ پر اس مسئلہ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ بزرگ صحافی کلدیپ نیر صاحب کو اس مضمون سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔جماعت یا اخبار سے ہمارا کوتعلق نہیں ہے لیکن اس بہانے کلدیپ صاحب جس طرح سامنے آئے ہیں وہ اس لیے حیران کردینے والا ہے کہ وہ ایک عام ہندو صحافی نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں گھومے بھی ہیں اور انگریزی ہی نہیں اردو کے بھی بڑے صحافی ہیں۔ اور دوسرے مذاہب پر بھی ان کی نظر ہے اور ہر طبقہ اور مسلک کے لوگوں سے ان کا تعلق ہے۔ انھوں نے ’’ریڈینس ‘‘ کے مضمون پر جو کچھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت کو بھی وہ ایسا ہی دستور سمجھ رہے ہیں جیسا 1947ء سے 1950ء کے درمیان ملک کی دستور ساز اسمبلی نے بنا کر26؍ جنوری کو نافذ کردیا۔
وہ کہتے ہیں ’’تین طلاق کا رواج ایک زمانہ سے چلا آرہا ہے۔ بعض خواتین نے اس پر سپریم کورٹ میں اعتراض داخل کیا۔ عدالت نے کہا کہ معاشرے میں صنفی مساوات ہونی چاہیے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے شدت سے اس کی مخالفت کی، وہ خواتین کی رائے لیے بغیر اپنی شرائط تھوپتا رہا ہے۔‘‘ آگے لکھتے ہیںکہ ’’دونوں ایوانوں میں اس مسئلہ پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کو مداخلت کرکے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ خصوصاً مسلم فرقے کی خواتین اس مسئلہ پر کیا سوچتی ہیں؟‘‘
یہ باتیں ہندی اخبار کا کوئی ہندو ایڈیٹر لکھتا تو ہم ایک منٹ بھی اپنا برباد نہ کرتے لیکن ہندوستان کے سب سے بزرگ صحافی کلدیپ نیر ایسی باتیں لکھیں جب کہ شاہ بانو کیس کے وقت سے پرسنل لا بورڈ کے علماء کرام اور قانون کے ماہر سیکڑوں بار بتا چکے ہیںکہ بورڈ کے سیکڑوں عالم بھی سب مل کر یہ کہیںکہ اب تین نہیں ایک طلاق ہوگی یا جب تک عورت بھی اس سے اتفاق نہ کرے اس وقت تک سو طلاق بھی دے دیں تو طلاق نہیں ہوگی،تب بھی اسلامی قانون نہیں بدل سکتا۔اس لیے کہ یہ ایک زمانہ سے چلا آنے والا رواج نہیں خدا، رسول ؐ اور صحابہؓ کی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون ہے جو تقریباً 30 برس میں رفتہ رفتہ بنا ہے۔
ہم سمجھتے تھے کہ کلدیپ نیر صاحب نے اسلام کا مطالعہ کیا ہوگا، وہ نہیں جانتے تو پڑھ لیں کہ اسلام کی ابتدا مؤرخوں کے حساب سے 10 ؍اگست ۶10ء کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی آنے سے ہوئی جس میں صرف قرآن پاک کی5آیتیں یاد کرائی گئیں۔ اسلام کا دستور جو آج ہے وہ ابتداء میں نہیں تھا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اعلان کیا گیا کہ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضور اکرمؐ پر ابتدا میں 2 نمازیں ایک صبح اورایک شام کو فرض کیں جو خفیہ طریقہ سے آپؐ پڑھتے رہے۔ تین سال کے بعد پروردگار نے حکم دیا کہ اب اسلام کی تبلیغ کھل کر کی جائے۔ اس کے بعد تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ کیا کیا ہوا۔ اسلامی تاریخ کی کتابوں سے الماریاں بھری پڑی ہیں۔
اسلام کا دستور قرآن عظیم رفتہ رفتہ 23 برس میں نازل ہوا وہ مکمل کتاب کی شکل میںنہیںآیا بلکہ جیسے جیسے ضرورت پیش آئی رہی قرآن عظیم کی ہدایتیں نازل ہوتی رہیں۔ جیسے اسلام پر عمل شروع ہوگیا مگر مکہ میں شراب عام تھی وہ بھی پی جاتی رہی۔ پہلے حکم آیا کہ جب نشہ میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ کافی دنوں کے بعد حکم آیا کہ شراب شیطانی حرکتوں میں سے ایک ہے اور بعد میں اس کے پلید ناپاک ہونے کی وجہ سے حرام کردیا۔
اسلام کی پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کو اللہ نے فتح دی اور بہت سے کافر جنگی قیدی بنائے گئے۔ مسلمانوں کے پاس کوئی حکم نہیں تھا کہ اس موقع پر کیا کیا جائے۔ حضور اکرمؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے رائے مانگی، انھوں نے رائے دی کہ ان سے جان کا معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور جب حضرت عمرؓ سے معلوم کیا تو انھوں نے رائے دی کہ یہ ہمیشہ دشمنی کریںگے ان سب کو قتل کردیا جائے۔ اس اختلافی مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا کہ یا تو احسان کرو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ اب یہ خدا کا حکم تھا اس لیے فدیہ لے کر بعض کو چھوڑ دیا۔ جن کے عزیز چار ہزار در ہم دینے کے قابل نہیں تھے ان سے کہا کہ انصار کے دس دس بچوں کو ا یک ایک قیدی پڑھائے پھر اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اب یہ شرعی حکم ہوگیا اس طرح سارے احکام نازل ہوئے۔ نکاح اور طلاق بھی اوپر سے آئے ہوئے حکم کے مطابق ہورہا ہے۔ جو قرآن میں کھلے طور پر نہیں ہے اس کے بارے میں مسلمان عالم حدیث سے رجوع کرتے ہیںاور وہاں بھی نہیں ملتا تو دیکھا جاتا ہے کہ حضور اکرمؐ کے تربیت دئے ہوئے صحابہ کرامؓ نے کیا فیصلہ کیا؟ اس کے بعد بھی بالکل نیا مسئلہ ہوا تواجتہاد ہے لیکن نکاح اور طلاق کا مسئلہ قرآن سے شروع ہو کر حضور اکرمؐ کے فرمان سے ہوتا ہوا جماعت صحابہؓ تک آیا اور موجودہ شکل وہ ہے جس کا فیصلہ انھوں نے کردیا جس میں تمام بزرگ صحابہ کرامؓ وہ ا نصار ہوں یا مہارجر سب نے اتفاق رائے سے کیا ہے۔
پانچ وقت کی نماز اور روزے شب معراج میں پاک پرور دگار نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی امت کے لیے اس وقت دئے جب وہ روبرو تھے۔ قرآن عظیم میں نہ تو نمازکی تعداد ہے، نہ رکعتیں ،نہ وضو کی ترکیب، نہ رمضان میں تراویح میں ایک قرآن، ان سب کی تفصیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بتائی اور کرکے دکھائی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے آئے ہوئے فرشتے حضرت جبرئیل ؑ نے باقاعدہ سکھائی۔ اس کے بعد سو دو سو یا ہزار دو ہزار یا کروڑ دو کروڑ عورتیں بھی مطالبہ کریں کہ اس میں تبدیلی کردی جائے تو کون ہے جو میدانِ حشر میں میں ا پنا منہ کالا کرانے کے لیے تبدیلی کی بات بھی کرے؟
کلدیپ نیر صاحب اور حکومت کے ذمہ داروںکو ملک کے مسلمانوں کی سب سے زیادہ قدر کرنا چاہیے۔ ہم دوسروں کی بات نہیں کرتے صرف اپنی بات بتاتے ہیں کہ ہمارے بیٹے اور نواسے جو کاروبار کررہے ہیں اس کا سیلس ٹیکس، انکم ٹیکس، ہائوس ٹیکس ، واٹر ٹیکس، روڈ ٹیکس کی شکل میں لاکھوں روپے سال رہے ہیں۔ اور شریعت کی پابندی کی اہمیت یہ ہے کہ لاکھوں روپے زکوٰۃ بھی ہر سال دیتے ہیں۔ اور کبھی حکومت سے نہیں کہتے کہ ہم لاکھوں کی زکوٰۃ دے کر حکومت کو ٹیکس کیسے دیں؟ یا اپنے عالموں سے بھی کبھی نہیں کہتے کہ اتنا ٹیکس دینے کے بعد زکوٰۃ کہاں سے دیں۔ اور زکوٰۃ بھی اس طرح حساب سے دی جاتی ہے جیسے حکومت کے تمام ٹیکس دئے جاتے ہیں۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کے کروڑوں روپے سے ہی یونیورسٹی کے برابر مدارس چل رہے ہیں اور پڑھنے والوں سے ایک روپیہ بھی کسی بھی مد میں نہیں لیا جاتا اور نہ حکومت کی مدد قبول ہے۔ اور یہ صرف ا س لیے ہے کہ شریعت داغ دار نہ ہو۔کیا مسلمانوں کے علاوہ بھی کوئی ہے جو مذہب کا پورا ٹیکس دینے کے بعد حکومت کا بھی پورا ٹیکس دیتا ہو؟ اس لیے مسلمانوں کا حق ہے، ان کا شرعی قانون نہ چھیڑا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔