اُترپردیش کی مسجدوں سے بلند ہونے والی اذانیں نشانہ پر

حفیظ نعمانی

آج جنوری کی 15  تاریخ ہے۔ آج کے بعد مسجد کے ہر متولی کو کوشش کرنا چاہئے کہ خانۂ خدا کے احاطہ میں کوئی خاکی وردی والا نظر نہ آئے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی صوتی آلودگی کو روکنے کیلئے مفاد عامہ کی آڑ میں ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی کیا اس کے پیش نظر نئے نئے مندروں میں رات دن بجنے والے لائوڈ اسپیکر تھے؟ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ برسوں سے جس ملک میں مسجد بنانے پر پابندی ہو اور مندر بنانے کے لئے بڑے بڑے فٹ پاتھ بھی ہضم کرلئے جائیں وہاں مندروں کے لائوڈ اسپیکر کو کون نشانہ بنا سکتا ہے اور اگر کوئی ایسی جرأت کرے بھی تو کون سی عدالت اس پر حکومت کو حکم دے سکتی ہے اور اگر عدالت حکومت کو حکم بھی دے دے تو کون سی حکومت اس پر پابندی لگا سکتی ہے؟

یہ جو کچھ بھی ہوا ہے صرف مسجد سے بلند ہونے والی ان آوازوں کی وجہ سے ہوا ہے جو ہر مسجد سے ہر دن پانچ وقت پکار پکارکر کہا جاتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اذان کی آواز پر مسجدوں میں آنے والے نمازیوں کو یاد ہوگا کہ کفار مکہ حضور اکرمؐ کو دنیا کی ہر چیز دینے پر تیار تھے صرف یہ چاہتے تھے کہ آپؐ یہ کہنا بند کردیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اپنے کو اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم نہ کرائیں۔ اور ان نمازیوں نے ضرور سنا ہوگا کہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں بھی اسے نہیں مانا تھا۔ آج فرق صرف یہ ہے کہ آج کے دَور کو جاہلیت کا دَور نہیں کہا جاسکتا لیکن جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے اور جو ہندوستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں ان کی ذہنیت وہی ہے اور وہ باآواز بلند یہ نہیں سننا چاہتے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کو ہی سامنے رکھ کر بچوں کی کتابوں میں ایسے سبق شامل کئے جارہے ہیں جن سے وہ ان کو سب سے بڑا مانیں جن کا ذکر کتاب میں کیا جائے۔ یہ جو کچھ بھی ہے رفتہ رفتہ سامنے آئے گی۔

ہماری اطلاع کے مطابق اور اخبار کی خبروں کی حد تک کسی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ حکومت نے جو زون بنائے ہیں ان میں صنعتی، بازاری اور آبادی کے زون ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ان میں کس کس سطح کی آواز رکھی جاسکتی ہے۔ بہرائچ میں نہ جانے کیا بات ہے کہ وہاں حلف نامے لئے جارہے ہیں۔ ابھی تک کوئی نہیں سمجھ سکا کہ کس بات کا حلف نامہ لیا جائے گا؟ لیکن ایک بات کا لحاظ زیادہ رکھنا چاہئے کہ انتظامیہ سے کسی طرح کا ٹکرائو نہ ہو۔

مسجد میں جو آنے والے مستقل آتے ہیں ان کو معلوم رہتا ہے کہ کس نماز کا وقت کیا ہے۔ اور آج ہر کسی کے پاس گھڑی ورنہ موبائل ہے۔ لائوڈ اسپیکر سے اذان فرض نہیں ہے بلکہ ایک عالم دین نے جب دیکھا کہ مسجد کے اندر کھڑے ہوکر اس لئے اذان دی جارہی ہے کہ لائوڈ اسپیکر باہر فصیل پر نہیں رکھا جاسکتا تو انہوں نے کہا تھا کہ ایک سنت ترک کرنا پڑگئی۔ یہ ضرور ہے کہ پہلے عام طور پر ایک منزل کا ہی مکان ہوتا تھا آج شاید ہی کہیں ایک ایک منزل کا مکان ہو اور جب مسجد کے چاروں طرف اونچی اونچی بلڈنگیں کھڑی ہوگئی ہیں تو اذان کی آواز مسجد کے چاروں طرف بند ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور اب لوگوں کی صحت بھی ایسی نہیں ہوتی کہ اذان کی آواز محلہ کی ہر بلڈنگ والے سن لیں۔

سب سے اہم مسئلہ جمعہ کی نماز کا ہے اب نمازیوں کے بڑھنے کے بعد ہر مسجد کے اوپر ایک منزل بنادی گئی ہے۔ اگر لائوڈ اسپیکر نہ ہو تو اوپر والے نہ خطبہ سن سکیں گے اور نہ تکبیر کی آواز رمضان شریف میں بھی جن مسجدوں میں کئی کئی پارے پڑھے جاتے ہیں وہاں بھی پہلے عشرہ میں مسجد تنگ ہوجاتی ہے۔ انتظامیہ سے جو اجازت لی جائے اس میں جمعہ کی نماز اور رمضان شریف کی تراویح کا اظہار ضرور کردیا جائے اور فجر کی اذان گرمیوں میں ہر حال میں چھ بجے سے پہلے ہوگی اس لئے چھ بجے سے پہلے کی پابندی کے مسئلہ کو پوری طرح واضح کردینا چاہئے۔

ہم مسلمانوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ فوراً وہ دوسروں سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔ اگر مسجدوں کو پابند کیا جائے اور مندروں کو چھوٹ دے دی جائے تو اسے ہر جگہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جب حکومت خود جتنی کالونیاں بناتی ہے اور اس میں ہر تھوڑے فاصلہ پر پارک بناتی ہے تو پارک میں ایک چھوٹا سا مندر بناتی ہے۔ لیکن اس کالونی میں آپ یہ چاہیں کہ اپنے ایک مکان کو مسجد بنا دیں تو اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ ہم خود عیش باغ کالونی میں 15 سال رہے وہاں ماشاء اللہ کافی مسلمان تھے ہم سب لوگوں نے اپنی سی کوشش کرلی اس لئے کہ مسجد جو کالونی کے باہر ایک محلہ میں تھی وہ دور تھی لیکن اس پر بھی اجازت نہیں ملی کہ نہ مینار بنے گا نہ گنبد صرف وہاں نماز پڑھی جائے گی۔ اور یہ تو آخری درجہ کی بات ہے کہ عابدی الہ آبادی مرحوم نے سلطان المدارس کی عمارت کے اندر مسجد بنانا چاہی تو وہ سرکاری آدمی ہونے کے باوجود نہ بنا سکے۔

مسلمانوں کو کسی معاملہ میں کسی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اور جلد سے جلد لائوڈ اسپیکر کے لئے فارم بھرکر دے دینا چاہئے اس لئے کہ یہ اشارہ دے دیا گیا ہے کہ اگر بغیر اجازت لئے یا بغیر اجازت کی درخواست دیئے مسجد یا کہیں بھی لائوڈ اسپیکر کی آواز آئی تو اس کے خلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ ناگوار صورت حال کہیں بھی ہوجائے کوشش کی جائے کہ مسجد میں نہ ہو کیونکہ وہ خانۂ خدا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔