اُس کا خیال دل سے اترنے کے بعد بھی

شمسہ نجم

اُس کا خیال دل سے اترنے کے بعد بھی

بڑھتا گیا ہے درد، سنبھلنے کے بعد بھی

۔

ترکِ تعلقات تھا گر میرا فیصلہ

وہ کیوں ہے میرے ساتھ بچھڑنے کے بعد بھی

۔

حوّا کو تو خدا نے بنایا تھا اس لیے

کچھ کم تھا کائنات کے بننے کے بعد بھی

۔

ہے اُس کا لَمس میری ہتھیلی پہ اَب تلک

ہاتھوں سے اس کا ہاتھ نکلنے کے بعد بھی

۔

لگتی ہے، میری زیست بھی مشکل سا اک سوال

اور پھر جواب دینا ہے مرنے کے بعد بھی

۔

دلبر کی یہ ادا تو عطائے نصیب ہے

اب وہ بگڑ رہا ہے سنورنے کے بعد بھی

۔

شمسہؔ میں اپنی ذات کے بارے میں کیا کہوں

یہ تو نکھر رہی ہے، بکھرنے کے بعد بھی

تبصرے بند ہیں۔