اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور لائحہ عمل

ڈاکٹر عبدالحق انصاری
(ڈاکٹر عبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند نے حلقہ یوپی مشرق کے سہ روزہ اجتماع (18؍19؍ 20 نومبر 2005ء) کے ملی سیشن میں مذکورہ عنوان کے تحت صدارتی خطبہ پیش کیا تھا۔ یہ تقریر تقریباً دس سال پہلے کی ہے۔ مگر امت مسلمہ کیلئے چیلنجز کم و بیش وہی ہیں۔ اس سیشن کے مذاکرہ میں ڈاکٹر مولانا کلب صادق، مولانا اصغر علی امام مہدی، جناب محمد احمد، الاستاذ عبداللہ سلیمان (کویت)، مولانا حیات اللہ قاسمی اور مولانا یٰسین اختر مصباحی نے حصہ لیا تھا۔  مرتب: عبدالعزیز)۔
’’آپ کوئی ڈھائی گھنٹے سے ایک انتہائی اہم مذاکرہ ایک بڑا مذاکرہ ایک بڑے اہم عنوان پر سنتے آرہے ہیں کہ ہماری ملت کو کیا چیلنجز درپیش ہیں اور ہمیں ان سے کیسے نپٹنا چاہئے؟ یہ چیلنجز ساری امت کیلئے بھی بیان کئے گئے اور وہ بھی بیان کئے گئے ہیں جن سے امت مسلمہ ہندستان میں نبرد آزما ہے، یں ان چیلنجوں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ان کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں، البتہ میں اس کی تمنا رکھتا ہوں اور آپ کو بھی تمنا ہوگی کہ ان میں سے بعض چیزیں بڑی قیمتی کہی گئیں جن کا اعادہ ضروری ہے۔
پہلے مقرر نے بڑی بات کہی تھی کہ یہ ہماری پوری ملت کا المیہ ہے کہ ہماری کوئی اسلامی حکومت آج دنیا میں قائم نہیں ہے۔ بادشاہت ہے، ڈکٹیٹر شپ ہے، جمہوریت ہے، کہیں اشتراکیت غالب ہے، کہیں سیکولرزم غالب ہے مگر اسلامی حکومت کہیں نہیں ہے۔ یہ ہماری امت کا ایک بڑا المیہ ہے۔ کاش؛ ایسا ہوتا کہ کم از کم ایسے چند مسلم ممالک میں سے کوئی ایک ملک تو ایسا ہوتا جس میں اسلامی حکومت، اسلامی شریعت صحیح معنوں میں قائم ہوتی۔ کاش؛ ایسا ہوتا کہ علم کے میدان میں سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے ہوتے یا کم از کم دوسری قوموں کے ہم پلہ ہوتے، کاش؛ یہ بات ہوتی کہ ہمارا بھی ایک ایسا مارکیٹ ہوتا، ایسی صنعت و تجارت ہوتی، ایسی لین دین ہوتی، ایسے بینکس ہوتے جو ہماری اقتصادی زندگی کو آگے بڑھاتے اور ترقی دیتے۔ کاش؛ ایسا ہوتا کہ ہمارے خاندان ٹوٹتے نہیں، امریکہ میں بھی جو مسلمان خاندان ہیں جو شادیاں ہوتی ہیں ان میں بھی وہ مغربی اثرات بڑھتے چلے جارہے ہیں اور دیکھ کے دل دُکھتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ کاش؛ ہمارے مرد اور ہماری عورتیں اور ہمارے نوجوان یہ سمجھتے کہ اسلام خاندان کا ایک تصور رکھتا ہے، اخلاق اور آئیڈیل کا ایک نمونہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حفاظت کرتے۔ کاش؛ یہ بات ہوتی کہ ہمارے پاس ایسا میڈیا ہوتا کہ ہماری آواز ساری دنیا تک پہنچ جاتی، ہمارے خلاف پروپیگنڈہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا تو اس کی ہم کاٹ کرتے اور اپنا موقف واضح کرتے۔
ظاہر ہے یہ وہ باتیں ہیں اور یہ وہ تمنائیں ہیں جو ہم جیسے، ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیتوں میں ہیں ان کیلئے اور جو غریب اور مفلس ہیں ان کیلئے تو بہت مشکل سا کام ہے، یہ سارے کام ہیں لیکن کاش؛ یہ چیزیں خود اسلامی ملکوں سے، عرب ملکوں سے سامنے آتیں اور ان میں یہ فضا پیدا ہوتی۔ کاش؛ خلافت کا وہ تصور ابھرتا جس میں کہ ایک بڑھیا اٹھ کر کے خلیفہ سے کہتی کہ آپ کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ ۔۔۔ یہ تو قرآن میں بات کہی گئی ۔۔۔ عمر سنتے اور کہتے کہ تم صحیح اور عمر غلط ہے، وہ بات مان لیتے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں اور عوام میں نہ تو وہ آزادی، نہ وہ اسلامی قدریں، نہ وہ فضا موجود ہے کہ سچی آواز اٹھائی جائے اور وہ سنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے، یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں دیکھ کر، سن کر بہت افسوس ہوتا ہے اور دل دکھتا ہے اور جی چاہتا کہ ہمارے جو عرب دوست اس وقت یہاں موجود ہیں ان تک ہمارا یہ جذبہ اور احساس پہنچے اور وہ اپنی اپنی جگہوں پر اس کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کیلئے کوشاں ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ اس معاملہ میں سرگرم ہیں، آپ کو اور ہم کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ صحیح معنوں میں ہمارے ایسے ملکوں میں اسلام کا جھنڈا بلند ہو اور اسلامی حکومت صحیح معنوں میں قائم ہو۔ ہمیں اپنی یہ تمنائیں ان حضرات تک پہنچانی چاہئے اور خدا کرے کہ یہ باتیں ان کے ذریعے سے ان کے ملکوں تک پہنچیں۔ جہاں تک اپنے ملک کا تعلق ہے میں اس کی طرف آتا ہوں۔ اس تعلق سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں کہ جن کے بعض پہلوؤں کی طرف تو کچھ لوگوں نے کہا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں تفصیل سے کچھ کہا جائے اور ہمارے لئے وہ مشعل راہ ہو، اور اس کے سلسلے میں ہم کچھ کوشش کریں۔
آج ہندستان میں امت مسلمہ کیلئے جو بڑا چیلنج ہے وہ ایک نہیں کئی ہیں، ایک چیلنج تو وہ ہے کہ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں میں سے ان کے بعض ایسے افراد اور بعض ایسی پارٹیوں کو جو صرف ہندستان کو ایک ہندو نیش بنانا چاہتی ہیں، جمہوریت کی مخالفت کرتی ہیں، اپنے تصورات اور اپنے خیالات کو مسلمانوں پر تھوپنا چاہتی ہیں اور مسلمان امت کو دباکر اور کچل کر رکھنا چاہتی ہیں اور اس کیلئے ساری قوت استعمال کر رہی ہیں۔ تعلیم کا میدان ہو تو، اقتصاد کا میدان ہو تو، معاش کا میدان ہو تو، معاش کا میدان ہو تو، سیاست ہو تو، ایڈمنسٹریشن ہو تو، پولس اور دوسری حکومتیں ہوں تو، ریاستی اور مرکزی حکومتیں بھی اس کا استعمال کرتی ہیں اور مسلمانوں کا جینا مشکل کر تی رہی ہیں۔ یہ تو بڑی بات ہوئی کہ کچھ دنوں سے اب ان کی حکومت مرکز میں نہیں رہی۔ بعض ریاستوں میں ہے، لیکن ان کی فکر میں، ان کے خیالات میں، ان کے عزائم میں ، ان کے ارادوں میں کوئی تبدیلی ہم نے نہیں دیکھی، پروازوں میں کوئی تغیر ہم نے نہیں دیکھا۔ گجرات میں جو کچھ انھوں نے کیا اس پر انھیں کوئی شرمندگی نہیں ہے، ان کا دل نہیں دکھتا۔(اب ان کی حکومت ہے جو مسلمانوں کو دبا اور کچل کے رکھنا چاہتی ہے:مرتب)
میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہندستان کو اور اس بڑے عظیم ملک کو ایسا ہی بنانا چاہتے ہیں؟ آپ مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ ان کے خلاف دشمن کے جذبات کو ابھرتے ہوئے کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ انھیں کچل کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ انھیں اپنے رحم و کرم پر رہنے کیلئے کیوں مجبور کرنا چاہتے ہیں؟ آپ میں کون سے پر لگے ہوئے ہیں؟ سرخاب کے پر؟ آپ بھی تو انسان ہیں؟ ہم بھی انسان ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کا مذہب، آپ کی فکر الگ ہے، ہمارا مذہب اور ہماری فکر الگ ہے۔ ہماری قدریں الگ ہیں، ہماری تہذیب الگ ہے، آپ کی تہذیب الگ ہے۔ یہ مسئلہ تو ہوسکتا ہے کہ کون کون سی چیزیں بہتر ہیں اور کون کون سی بہتر نہیں ہیں اسے چھوڑیئے، مگر بہر حال بحیثیت انسان تو ہم برابر ہیں او ر کیا ہمیں اس ملک میں ایک شہری کی حیثیت سے رہنے کا حق نہیں ہے، یہاں باعزت زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے، آپ کا دل ان فسادات پر کیوں نہیں روتا؟ کیوں آپ یہ دکھ محسوس نہیں کرتے؟ کرنا چاہئے، آپ کے اچھے لوگوں نے محسوس کیا تھا اور کرتے رہے تھے، گاندھی جی کے بارے میں آتا ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کسی مسلمان نے میرے بیٹے کو مار دیا ہے، میں کیا کروں؟ مجھے غصہ آرہا ہے، ایک گاندھی جی تھے انھوں نے جواب دیا، غور کریں آپ، کیا عظیم شخصیت تھی۔ انھوں نے کہا : ’’تم کسی مسلمان لڑکے کو جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کے والدین نہ ہوں، اسے لے لو، اسے پالو، اس کی پرورش کرو، اس کا اپنا بیٹا بناکر اسے آگے بڑھاؤ مگر جان لو کہ اس کو مسلمان کی حیثیت سے پالنا پوسنا اور پرورش کرنا‘‘۔ ایک وہ عظیم انسان تھا جس کی قدر ساری دنیا میں ہے، ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ امن و امان کی، سلامتی کی، بھائی چارگی کی ، محبت کی، خدمت کی یہ فضا کیوں نہ ہم پیدا کریں؟ کیا ہم ان کو برابر برابر نہ سمجھیں؟
ہم، خاص طور سے جماعت اسلامی کے لوگ اس بات کے مکلف قرار دیئے گئے ہیں اور ہم سارے مسلمانوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ’’سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور سب انسان ہیں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ سارے انسان بھائی بھائی ہیں اور سب کی عزت، عزت ہے۔ سب کی جان محترم ہے، سب کا مال محترم ہے، سب کی آبرو مرد ہو یا عورت محترم ہے۔ مسلمانوں کو بھی ان باتوں پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ یہ محبت کا پیغام اگر ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں تک پہنچائیں تو یہ ہمارے ہندستان کے جو غیر مسلم بھائی ہیں ان کی کثیر تعداد ایسی ہے جو ہمیں Respond کرے گی اور ہمارے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گی، جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔ جو ہونا چاہئے، ایک بڑی تھوڑی سی مخلوق ہے جو بعض اوقات لوگوں میں نفرت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور ساری تباہیاں مچاتی ہے۔ اگر ہم یہ فضا پیدا کرسکیں اور ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم محبت کا، خدمت کا، بھائی چارگی کا، انسانیت کا یہ پیغام لے کر جو کہ اسلام کا پیغام ہے، لوگوں تک پہنچائیں، چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو، سکھ ہو یا عیسائی، پارسی ہو یا یہودی جس مذہب کا بھی ہو بہر حال انسان ہے اور اس کا بحیثیت انسان حق ہے، اگر ہم یہ جذبہ لے کر آگے بڑھے تو ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں تک ہمیں تکلیف پہنچے لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ محبت و امن اور بھائی چارگی کا یہ جذبہ جو اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں، آخر میں یہی غالب ہوں گے۔
گجرات میں جو کچھ ہوا اس کو یہ لوگ بہت کم جانتے ہیں کہ وہاں قتل و غارت گری برہمنوں نے کی، چھتریوں نے کی، ہندوؤں کے ان اونچے طبقوں نے کی، بلکہ دلتوں نے کی، ان کو اکسایا گیا، ان کو لالچ دیا گیا، ان کو پیسے دیئے گئے اور ان سے یہ کام لیا گیا۔ ہمارے گجرات کے مسلمانوں نے ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا، بعضوں نے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کئے تھے جو انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئے تھے۔ اگر ہم اسلام کا پیغام، محبت کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا سکیں، ان کو گلے ملا سکیں، ان کو ساتھ بٹھا کر کھلا سکیں، ان کو اپنی شادیوں اور تقریبوں میں بلا سکیں اور ان کو یہ احساس دلاسکیں کہ وہ ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں، تو نہ صرف یہ کہ ہم ان کو اسلام سے قریب کریں گے اور اسلام کا صحیح رخ ان کے سامنے پیش کریں گے بلکہ اپنی بھی حفاظت کر پائیں گے۔ یہ اوپر کی قومیں ہیں جو انھیں بیوقوف بناتی ہیں، لالچ دیتی ہیں اور ان سے حملے کرواتی ہیں۔ حملوں کی آپ تاریخ دیکھیں گے ، مختلف جگہوں پر تو یہی لوگ ہوتے ہیں، اوپر کی قومیں تو بہت ڈرپوک ہیں، بزدل ہیں۔ میں یہ بات اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں سے کہ وہ یہ محسوس کریں کہ اگر یہ فضا پیدا کرسکیں تو ہم اپنی حفاظت بھی کریں گے اور اسلام کی صحیح نمائندگی بھی کرسکیں گے اور پھیلا بھی سکیں گے۔ ممکن ہے کہ ان کے ذریعے سے ان کے دل اسلام کیلئے کھل جائیں، ان کے کان کھل جائیں اور وہ ہماری باتیں سن سکیں۔
دوسری بات جو میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ جو لوگ واقعی نفرت کرتے ہیں، اتفاق سے ان کے پاس ملک کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ نفرت و عداوت اور جو دولت وہ دینا چاہتے ہیں وہ چند دن کی ہے، اس پر حکومتیں اور معاشرے قائم نہیں ہوتے۔ ہٹلر اور مسولینی جیسی ان کی حکومتیں کتنے دن رہیں گی۔ ہٹلر نے خود کشی کرلی تھی، ہزاروں یہودیوں کو مار کرکے کیا انجام ہوا اس کا۔ جو لوگ نفرت پیدا کرنے والی بات کرتے تھے، کر رہے ہیں، ان کا انجام کچھ اچھا نہیں ہے۔ آپس میں لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں، آپس میں گالم گلوچ ہورہا ہے، کوئی چیز مثبت ان کے پا س دینے کیلئے نہیں ہے، ان کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ بہر حال وہ کچھ دنوں تک مسائل پیدا کرسکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو ہوش مندی کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور اس حرکت کا مقابلہ کرنا چاہئے، مگر سمجھ بوجھ کے ساتھ، اگر سمجھ بوجھ کے ساتھ یہ کام ہم کرسکے تو بڑی بات ہوگی۔ یہ بات صرف جان و مال کے خطرے کی نہیں ہے، یہ معاملہ بہت گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔ عرصے سے یہاں تہذیب، ہندستان کی تاریخ، مسلمانوں کے دورِ حکومت کی تاریخ کی شکل بگاڑ کر پیش کی جارہی ہے۔
ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ مسلمان تو ہمیں کافر کہتے ہیں۔ غور کریں کہ جب آپ کسی غیر مسلم بھائی سے جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اے کافر یہاں آؤ، کیا یہ کہتے ہیں؟ ہم تو ان کا نام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ آئیں، ہمارے پاس بیٹھیں اوربات کریں۔ ہمیں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ ہم ان کو بلاکر ساتھ بٹھائیں، کھلائیں۔ ہمارا کھانا، ہمارا پانی، ان کے چھونے سے حرام تو نہیں ہوجاتا، ناپاک تو نہیں ہوجاتا، ہمارا جسم ان کے جسم سے مل جائے تو کوئی دشواری نہیں ہوتی، لیکن ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ان کے بڑے لوگ ہمارے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، کھا نہیں سکتے، پی نہیں سکتے، نفرت کرتے ہیں، نیچا سمجھتے ہیں، ہم تو ایسا نہیں سمجھتے۔ اگر ان کا نام لیتے ہیں تو ہم کیا زیادتی کرتے ہیں۔ زیادتی تو صرف ان کی طرف سے ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے لئے نفرت ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے بھائیوں کی طرف سے بھی نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے، ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے اور اس کے سلسلے میں غور کرنا چاہئے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو موجودہ حکومتیں ہیں UPA کی جس پر کانگریس کا غلبہ ہے اور کانگریس کے ساتھ بہت سے قوانین بنانا چاہتی ہے لیکن بعض وجوہ سے بعض کام صحیح طور پر نہیں ہو پارہے ہیں، اس کی ایک مثال آندھرا پردیش میں مسلمانوں کے ریزرویشن کا مسئلہ حکومت نے طے کیا کہ وہ دے گی، ایک ضابطہ بنایا، ایک قانون بنایا، ان لوگوں نے جن کا اوپر ذکر ہے۔ کورٹ میں چیلنج کر دیا اور کورٹ نے اسے دوبارہ ختم کردیا۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو اتنی جلدی کیوں تھی؟ کیا یہ کوشش نہیں کرسکتے تھے کہ آپ اس طریقے کے ریزرویشن کیلئے ایسے اقدامات کرتے جو کورٹ ختم نہیں کرتی۔ ایک تجربہ تو آپ پہلے کرچکے، ایک قدم اٹھایا جو بعد میں نیچے آگیا۔ اس کے بعد دوسرے چند مہینے کے بعد آپ نے دوسرا ایکٹ، قانون پیش کیا، وہ بھی ختم کردیا۔ کرناٹک میں تو ایسا نہیں ہوا، وہاں پر تو انھوں نے ریزرویشن مسلمانوں کو دیا، پسماندہ مسلمانوں کو دیا اور وہ قائم ہے۔ کسی کی ہمت نہیں کہ کورٹ میں اسے چیلنج کرے تو آپ اگر سیریس ہیں تو آپ کو اپنے عقلمندوں سے، اپنے وکلاء سے، اپنے دانشمندوں سے مشورہ کرکے قدم اٹھانا چاہئے تھا تاکہ آپ کو وہ خفت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ایک مرتبہ آپ کا بنایا ہوا قانون ختم کیا گیا او رپھر آپ کا بنایا ہوا دوسرا قانون بھی ختم کیا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ بڑا چیلنج حکومت کے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلسلے کا ہے کہ اس معاملے میں وہاں بھی جو مسلم یونیورسٹی ایکٹ ہے، اگر اسے دوبارہ صحیح معنوں میں ریوائز نہ کیا گیا تو بڑا مشکل ہوگا۔ اس کے مطابق وہاں مسلمان طلبہ کو ریزرویشن دینے کا، میں صرف وقت کی تنگی کے باعث ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسے جو اقدامات حکومت کر رہی ہے اور اچھی نیت سے کر رہی ہے مگر جس جلد بازی میں کرنا چاہتی ہے اور جس بے سمجھی کا ثبوت دے رہی ہے، اس کے سلسلے میں مسلمانوں کو آواز اٹھانی چاہئے اور آگے بڑھ کر یہ بات کرنی چاہئے۔
افسوس کی بات ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں ہے، ہم بے آواز ہیں، بے وزن ہیں سیاسی طور پر، اقتصادی طور پر، تعلیمی طور پر ہمارا کوئی وزن نہیں ہے، ویسے یہ سب بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ جسے ہماری امت محسوس کر رہی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے اور ان کیلئے جیسا کہ سابق مقرر نے کہاکہ ہمیں اپنی عقل سے کام لینا چاہئے اور اس سلسلے میں ہمارے دانش مندوں کو مل بیٹھ کر اس پر اقدام کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی اپنے طور پر اس حد تک کوشش کر رہی ہے اور کرنا چاہتی ہے کہ یہ معاملات جو ہیں صحیح طور سے آگے بڑھیں اور ان پر ہمیں کامیابی ملے، اور ہمیں کوئی خفت نہ اٹھانی پڑے۔
وقت کی تنگی کی وجہ سے چند چیزیں ایسی ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا۔ بہت سی اور باتیں ہیں جو اس ملک کے تعلق سے کہی جانی چاہئے۔ وقت ملے گا، ممکن ہے کہ اگلے دن کوئی بات ہو تو میں کچھ اور کہہ سکوں، میں اس وقت انہی باتوں پر اکتفا کرتا ہوں اور آخر میں یہ دعا کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے مسائل کو صحیح طور پر سمجھنے اور ہوشمندی کے ساتھ نپٹنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ ہمیں اسلام کی صحیح تصویر اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے پیش کرنے، محبت اور امن اور سکون کا پیغام انھیں دینے اور خود اپنے دلوں میں وہ عزم و حوصلہ وہ جذبہ پیدا کرنے کی ہم اپنی قسمت خود بدلیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بدلنے کیلئے تیار نہ ہو، کوشش نہ کرے، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اپنی سوچ سمجھ کے مطابق کچھ تو چلیں، محنت کریں اور آگے بڑھیں تو انشاء اللہ؛ اللہ تعالیٰ کی نصرت آئے گی۔ اس کی مدد آئے گی اور ہمیں بحیثیت مسلمان یقین رکھنا چاہئے، بس اس کی ایک شرط ہے کہ ہمارے رہنمایان اور اہل دانش اور ہماری قوم کے لوگ صحیح معنوں میں اور ہمارے عوام سب مل جل کر اپنی قسمت بدلنے کیلئے تیار ہوں اور کوشش کریں۔ انہی الفاظ کے ساتھ میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپنے مقررین کا بھی، انھوں نے اس مسئلے کے مختلف پہلو پر تفصیل سے بات کی۔ خاص طور پر یہ بات کہ اتفاق ضروری ہے اور اتحاد ضروری ہے اور یہ بات جو ابھی جمعیۃ العلماء کے ذمہ دار نے کہی وہ صحیح کہی اور لوگوں نے بھی کہی۔ ہم جب اتحاد و اتفاق کی بات کرتے ہیں تو مسالک کو مٹانے کی بات نہیں کرتے، یہ غلط فہمی نہ جانے کیوں ہمارے ایک مقرر کو ہوگئی، ایسی تو کوئی بات نہیں تھی، ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود اتحاد و اتفاق کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔