اُمت مسلمہ کی معاشی ابتری کا ازالہ

امت مسلمہ کی معاشی ابتری کا ازالہ اور اس کیلئے وسائل کی فراہمی کی جدوجہد اس عمومی بے بسی اور کمزوری کو دور کرنے کیلئے لازم ہے، جس میں وہ مبتلا ہے۔ ضعف اور کمزوری چاہے وہ کسی نوعیت کی ہو تقویٰ اور خدا ترسی کے اسلامی تصور کے منافی ہے۔ بھکمری اور افلاس داعیانہ زندگی سے وہ وقار اور عزت نفس چھین لیتے ہیں جو طاغوتی قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی لازمی شرائط میں داخل ہیں ۔ ان کی دائمی موجودگی، داعی سے وہ عزم و حوصلہ بھی سلب کرلیتی ہے جو انقلابی کردار کے اجزائے ترکیبی ہیں ۔ عمومی ضعف کا ازالہ اور انفرادی و اجتماعی قوت کا حصول دینی ذمے داری بھی ہے؛ چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: ’’اور تم اپنی استطاعت کے بقدر قوت اور تیار بندھے گھوڑے مہیا کر رکھو تاکہ اس کے ذریعے اپنے دشمنوں اور اللہ کے دشمنوں پر رعب ڈال سکو‘‘ (الانفال:60)۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں میں سے علم اور جسم کی دونوں قوتوں کو کامیابی کی شرائط قرار دیا ہے: ’’اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیّتیں فراوانی کے ساتھ عطا کیں ‘‘ (البقرہ:247)۔

 دورِ حاضر میں قوت کا اہم جزو معاشی استحکام بھی ہے؛ لیکن معاشی جدوجہد کے خالص دنیوی میدان میں بھی مسلمان سماج اپنے طرز عمل سے شہادت کے حق کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ دعوت کی مصنوعی حاشیہ طرازی نہیں ہے جس کو زندگی کی عام جدوجہد میں جوڑ دیا گیا ہو بلکہ مومن ہر حال میں داعی ہوتا ہے۔ حق کا شاہد ہوتا ہے، اس کی زبان اور قلم ہی نہیں بلکہ اس کی چلت پھرت بھی پاکیزہ اخلاقی اصولوں اور اقدار کی گواہ ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ شہادت کہ کان خلقہ القرآن (آپ کی عادات اور اطوار قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے) اسی حقیقت کی آئینہ دار تھی۔ آپ کی اتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اپنی زندگی کی ہر جدوجہد و کو قرآن کریم کا چلتا پھرتا نمونہ بنانے کی بہترین مثال قائم کی تھی۔

 معاشی جدوجہد اور کسب رزق، دولت کا حصول اور اس کی تقسیم، وسائل رزق کے انتخاب اور معیار زندگی کی طلب، اشیائے صرف کے استعمال اور ان کی پیداوار، سرمایہ کاری کے رہنما اصول اور اس کے حدود، قدرت کے وسائل کی جستجو اور ان کا تصرف، یہ سب کچھ ان اخلاقی حدود کے پابند ہوں گے جن کا دین حق علمبردار ہے۔ ایک مومن سرمایہ کار وسائل قدرت کا متوازن استعمال کرتا ہے، وہ ان پر ڈاکہ نہیں ڈالتا، لوٹ کھسوٹ نہیں کرتا بلکہ صحیح طور پر اور عادلانہ نہج پر اس سے نفع حاصل کرتا ہے۔ جب وہ اس طرز عمل کو اختیار کرتا ہے تو وہ محض کسب رزق نہیں کرتا بلکہ شہادت حق کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔

 دونوں حیثیتیں مومن کی زندگی میں اس طرح مدغم ہوجاتی ہیں کہ ان میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مادی ضرورتوں کیلئے تگ و دو اس کو دوہرے اجر کا مستحق بنا دیتی ہے۔ ایک اجر اس بات کا کہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی جستجو کرتا ہے اور اسی طرح وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کو محتاجگی سے نجات دلاتا ہے اور دوسرا اجر اس بات پر کہ وہ اس جدوجہد میں اپنے مالک اور پروردگار کی عرضیات کا لحاظ کرتا ہے اور اس کی ناپسندیدگی کے موجبات سے احتراز کرتا ہے۔ یہ وہ بے مثال امتزاج ہے جو خالص مادی جدوجہد کو تقربِ الٰہی کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ ان سب پر مستزاد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں فساد کے بجائے اصلاح کی روش اختیار کرکے شہادت حق کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔

قرآن کریم اور سنت نبویہ نے کسب رزق اور معاشی جدوجہد کے جو بنیادی اصول ہمیں عطا کئے ہیں ان پر ایک نظر پیش ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دین حق کی تعلیمات ہمیں تاکید کرتی ہیں کہ صرف طبیب رزق اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ’’اے لوگو! زمین میں جو پاک اور حلال چیزیں ہیں انھیں کھاؤ‘‘ (البقرہ:168)۔

 ’’پس اے لوگو! اللہ نے جو حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو‘‘ (النمل:114)۔

 اللہ تعالیٰ کی دنیا میں جو کچھ پایا جاتا رہا ہے اگر چہ اصلاً حلال اور مباح ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے؛ مثلاً شراب، خنزیر وغیرہ، مگر حرام اور ناپاک صرف چند مخصوص چیزیں نہیں ہیں بلکہ بعض ذرائع بھی ہیں جن سے دولت کمائی جاتی ہے۔ مثلاً بددیانتی، خیانت، دھوکہ، جھوٹ، فریب، قمار، غصب، سود وغیرہ اور ایسے تمام ذرائع جن سے ظلم اور استحصال لازم آتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس کے نزدیک کسب رزق کے ذرائع بھی پاک و صاف رہنے چاہئیں ۔ صرف جدوجہد کے ثمرات نہیں بلکہ نفس جدوجہد بھی پاکیزہ یا ناپاک، حرام اور حلال ہوسکتی ہے؛ چنانچہ اس کا ارشاد ہے:

’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کیلئے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقع مل جائے‘‘ (البقرہ:188)۔

دوسری بات یہ ہے کہ دولت کا حصول اور معاشی استحکام، خدا کی نعمتوں سے استفادہ اس حد تک جائز ہے جب تک وہ معتدل اور معقول حدود کے اندر ہوں ۔ اسراف اللہ کو ناپسند ہے۔

’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الاعراف:31)۔

 ’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے‘‘ (الاسراء:27)۔

 معاشی زندگی کی بہتری اگر چہ پسندیدہ ہے لیکن اگر وہ اسراف اور ضیاع مال کی حدود میں داخل ہوجائے تو ناپسندیدہ ہے، اسراف صرف معقول حدود سے تجاوز ہی نہیں ہے بلکہ خدا کے دوسرے بندوں کی حق تلفی بھی ہے۔ ان پر ظلم بھی ہے، اسراف انسان کے کردار کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ استکبار کو جنم دیتا ہے، اعلیٰ اور ارفع اخلاقی اقدار سے بے نیازی کو جنم دیتا ہے، وہ سماج میں شفقت اور مروت اور انسان دوستی کو کچل ڈالتا ہے، نمائش اور منافقت کو پروان چڑھاتا ہے۔اسراف اور فضول خرچی امراء اور غرباء کے درمیان دائمی نفرت کی خلیج پیدا کردیتا ہے، وہ انسان کے دل میں ایسی ہوس پیدا کرتا ہے جو کسی طرح نہیں بجھتی۔

 اسراف کا سب سے نمایاں مظہر دور حاضر میں ماحول کی آلودگی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، اس نے قدرتی وسائل کو لوٹ کھسوٹ کا ایسا ہولناک منظر نامہ ترتیب دیا ہے کہ جنگلات کاٹے جارہے ہیں ، پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں اوزون لیئر میں شگاف پیدا ہو رہے ہیں اور اس کا قوی اندیشہ ہے کہ زرخیز زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔

 قرآن کریم انسان کی اس رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

’’تم کو ایک دوسرے سے بڑھ کر دولت حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے‘‘ (التکاثر:1-2)۔

چھوڑ دو مجھے اور اس کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اس کو بہت سا مال دیا، حاضر رہنے والے بیٹے دیئے اور اس کیلئے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور دوں ‘‘ (المدثر:11-15)۔

 قرآن مجید کے نزدیک نہ اسراف پسند ہے اور نہ ہی بخل بلکہ وہ متوسط اور معتدل زندگی کو مومن کی صفت قرار دیتا ہے۔

 ’’اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل۔ ان دونوں کے درمیان ان کا خرچ اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘ (الفرقان:67)۔

 تیسری بات یہ ہے کہ وہ دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت قرار دیتا ہے اور مومن کو دولت میں غربا، فقرا اور محتاجوں کا حق قرار دیتا ہے۔

 ’’اور کھاؤ ان کی پیداوار جبکہ وہ ثمر آور ہوں اور اس کا حق ادا کرو جبکہ اس کی فصل کاٹو‘‘ (الانعام:141)۔

’’اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق تھا‘‘ (الذاریات:19)۔

چوتھی بات یہ ہے کہ وہ ارتکاز دولت کو غلط او ر باطل قرار دیتا ہے اور اس کے ذرائع کا سد باب کرتا ہے۔ عدل و انصاف کو ہر میزان میں پسندیدہ قرار دیتا ہے۔’’تاکہ وہ تمہارے مال داروں کے درمیان گردش کرتا رہے‘‘  (الحشر:7)۔

 ’’تاکہ لوگ قسط پر قائم رہیں ‘‘ (الحدید:25)۔

 مذکورہ بالا تعلیمات مومن کی معاشی جدوجہد کے سنگ میل ہیں ۔ اسی پس منظر میں اب دور حاضر کی معاشی جدوجہد اور اس کے ذرائع کا مطالعہ ہمارے لئے نہ صرف بصیرت افروز ہوگا بلکہ وہ نشانات راہ بھی مقرر کرے گا جس کا اعتبار اور لحاظ ملت اسلامیہ کی معاشی زندگی کے استحکام کا باعث بھی بنے گا اور اس کے نصب العین کی ادائیگی کا نہایت اہم وسیلہ بھی ہے ۔

 معاشی جد وجہد دعوتِ حق کا میدان: اوپر کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ افلاس سے رستگاری اور معاشی استقلال، دینی اقدار کو برتنے اور ایمان و اخلاق کی سلامتی کیلئے بھی ضروری ہیں ۔ اس کا ایک دوسرا نہایت اہم رخ یہ ہے کہ اس جدوجہد کے ذریعے دین حق کی صداقتوں پر عملی گواہی دی جاسکتی ہے۔ اس کی اقدار کا رحمت ہونا واضح کیا جاسکتا ہے۔ ان تعلیمات پر عمل کرکے انسانیت پر یہ بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ معاش حاصل کرنے کے وسیلے کیا ہیں جن سے پیٹ بھی بھرتا ہے، تن بھی ڈھانپا جاسکتا ہے، چھت بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ مرض بھی دور کیا جاسکتا ہے، لیکن خیانت اور بددیانتی اور ظلم و استحصال کے ہمراہ نہیں بلکہ ان کا ازالہ کرکے۔ مسلمان سرمایہ کار اور صنعت کار اگر اپنے حسابات میں ذاتی نفع پر اللہ کی خلقت کی منفعت کو ترجیح دیتا ہے، جب وہ ذاتی لاگت کے ساتھ ساتھ سماجی مضرتوں کو مدنظر رکھتا ہے تو وہی حق کا ایسا شاہد بنتا ہے جو ہزارہا وعظوں اور تقریروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ جب وہ اپنی آمدنی اور مصارف میں سے غریب اعزاء اور فقراء و مساکین کا لازمی حق ادا کرتا ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر حق کا داعی ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی لیکن دور حاضر میں تو اس کی اہمیت حد درجہ زیادہ ہوگئی ہے۔

جدید دور اور معاشی جدوجہد کے ثمراتِ خبیثہ: آج کی دنیا میں طلب دولت کی ہوس نے قدرتی وسائل کو استعمال کرنے پر اکتفا ہی نہیں کی ہے بلکہ وہ اس کو لوٹ رہی ہے، چنانچہ ماحول آلودہ ہورہے ہیں اور قدرتی وسائل کے ذخیرے نہایت تیزی سے گھٹ رہے ہیں ۔ عیش و عشرت کی زندگی کے عادی مغربی کلچر نے اسراف کا بازار گرم کر رکھا ہے؛ چنانچہ پانی ، ہوا، قدرتی وسائل سب کو نہایت بے بصیرتی سے ضائع کیا جارہا ہے۔

دوسری طرف انسانیت نہایت غریب اور حد درجہ امیر گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف وسائل کی بہتات ہے، دوسری طرف صومالیہ ہے، نائیجیریا ہے، جنوبی سوڈان ہے، جہاں قحط اور بھکمری کے عفریت ننگا ناچ رہے ہیں ۔ تیسری جانب دنیا ہے جہاں غربت، مرض اور جہالت سایہ فگن ہے۔ بنگلہ دیش ہے، مشرقی یورپ ہے، افریقہ ہے، ہندستان ہے جہاں تازہ ترین اعداد و شمار کے اعتبار سے اس ملک کی 36فیصد آبادی آج بھی چندروپیہ یومیہ تک آمدنی پر اکتفا کرنے کو مجبور ہے۔

ظلم و استحصال ہے، جبر و استبداد ہے جو معاشی زندگی کی فطرت ثانیہ بن گئے ہیں ۔ خباثت، جعلسازی ہے جو دولت کمانے کا فن بن گئے ہیں ۔ اب دولت کمانے کیلئے مزدوروں اور کسانوں کو لوٹنا عام طرز عمل ہے۔ گھریلو صنعتوں کا جائزہ لیجئے کہ ٹھیکیدار بیڑی مزدوروں ، چکن کاروں ، جوتا سازوں ، شیشہ گروں ، رنگ ریزوں ، حمالوں کو کیا مزدوری دیتے ہیں اور خود کتنا کماتے ہیں ۔ پرائیوٹ اسپتالوں میں مریضوں کی جیب کیسے کاٹی جاتی ہے، ہوٹلوں کو چھوڑ دیجئے، نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا استحصال کتنا ہوتا ہے۔ بڑے آڑھتئے چھوٹے تاجروں ، کسانوں اور کاریگروں کا استحصال کرتے ہیں ۔ اسمگلنگ اب فن ہے۔ شراب اور جنس منافع کا ذریعہ ہیں ۔ رشوت معمولات کا حصہ بن گئی ہے۔ بلڈنگ مافیا اب کاروبار کا جزو لاینفک ہیں ۔ طاقت اور دولت ہی نہیں بلکہ انصاف بھی امیروں کے چشم کرم کے محتاج بن گئے ہیں ، نفع خوری کیلئے بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ ننگی فلموں کو دھڑلے سے فروخت کیا جاتا ہے، غذاؤں میں ملاوٹ کرکے عوام کی صحت تباہ کی جاتی ہے اور اب دواؤں میں بھی ملاوٹ کا فن ترقی پر ہے۔ ڈاکٹر انسانی اعضاء کی تجارت میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔ اساتذہ اپنے طالب علموں کا مالی استحصال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ معاشی کاروبار میں سود کی حیثیت شہ رگ کی ہے جو سرمایہ دار کا خدمت گار ہے۔ محض استعداد اور ذہانت کی بنیاد پر آپ سرمایہ حاصل نہیں کرسکتے، اس لئے کہ سودی سرمایہ ان کو فراہم کیا جاتا ہے جو پہلے سے سرمایہ دار ہوں ۔ تفریق دولت میں دن دونا اور رات چوگنا اضافہ ہورہا ہے۔ قمار بازی کے ثمرات خبیثہ ہیں ۔ اسٹاک ایکسچینج، دھوکہ بازی اور فریب کاری کے مراکز بن گئے ہیں ۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔